یوم آزادی اور ہماری ذمہ داریاں۔۔سلمان احمد شیخ

اس یوم       آزادی پر ہر سال کی طرح یہ دعا کہ اللہ وطن کی حفاظت کرے۔ انصاف پرمبنی نظام, یکساں مواقع, اتحاد اور اعلی ٰ بصیرت رکھنے والی قیادت درکار ہے جس کے لیے عوام کو بھی اپنے شعور,دیانت, اخلاق اور حوصلہ کو بلند کرنا ہوگا۔

لسانی یا گروہی بنیادوں پرہی اپنے اپنے رہنماؤں کی ہر حال میں مدافعت ظاہر کرتی ہے کہ ابھی بھی شعور کی بہت کمی ہے۔ دیانت اور اخلاق کا یہ عالم کہ     آپس میں کسی معاملے میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تو کیوں کر ایسی قیادت نصیب ہو جوخود دیانت دار اور قابل اعتماد ہو۔ حوصلہ اور عزم کا یہ عالم کہ کسی بات کے لیے کوئی قدم نہ اٹھاسکیں اور اپنے سامنے ظلم و ناانصافی کو گوارا کرتے رہیں۔ شعور اور      آگاہی کے لیے درکار وقت اب ٹک ٹاک اور فضولیات میں ہی خرچ ہوتا ہے۔

محنت سے جی چرانے کا یہ عالم کہ سماج میں کامیاب انسان کا تصور ہی یہ کہ جسے زندگی میں اپنی ضروریات کے لیے کچھ    محنت  نہ کرنی پڑے۔ سرکاری اداروں میں رشوت کی بہتات  کے باوجود ان ہی اداروں میں نوکری ترجیح اور سرکاری نوکری کرنے والوں ہی کی قدر چاہے وہ رشوت خور بھی ہوں،ہوتی ہے۔

ہمارا زیادہ بڑا بحران اخلاقی اور سماجی ہے۔ سیاست اور معیشت خود درست ہوجاۓ گی اگر اخلاقی اور سماجی بحران کو حل کرلیا جاۓ۔ جمہوریت کی کامیابی بھی اس سے وابستہ ہے کہ تعلیم اور شعور بڑھے اور عصبیت ہمارے فیصلوں پر اثرانداز نہ ہو۔

جو کچھ شعور ہے بھی تو اس سے سیاسی اور معاشی حوالے سے تو سوالات اخبارات و رسائل میں مقتدر حلقوں سے پوچھے جاتے ہیں, مگر اخلاقی اور سماجی بحران کا نہ ادراک ہے نہ اس کے لیے کوئی کوشاں اور نہ اس کے لیے ذمہ داری ہی کااحساس ہے۔

دینی قیادت کا جو سب سے موثر کردار ہوسکتا ہے وہ اصلاح اخلاق کی طرف توجہ ہے، مگر ان کی توجہات اور ترجیحات میں اگر کوئی چیز نہیں شامل تو یہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے شاید وہ مسرت مل رہی ہے جو پاکستان سے بھی نہیں اور پاکستان کو بھی ویسا ہی دیکھنے کی تمنا۔ اسلامی ریاست میں اگر روایتی فقہی ڈھانچے  پرمبنی قانون ہی بعینٰہ نافذ کردیا جاۓ بغیر عصری اور سماجی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ تو کیا مسائل پیش      آسکتے ہیں, اس کی طرف علامہ اقبال نے کوئی ایک صدی پہلے توجہ دلائی تھی ۔ افغانستان پر اب پہلے سے زیادہ نظریں ہیں۔ علامہ اقبال کی گزارشات پر غوروتدبر کے بغیر ایک خاص فقہی تعبیر کی بغیر اجتہادی بصیرت کے نفاذ سے دین کی دعوت کو پہنچانے میں مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

فوجی قیادت ڈھیل دے بھی تو شعور سے عاری اور عصبیت میں ڈوبی عوام کا انتخاب قیادت بھی وہ جسے بار بار       آزماکر بھی مایوسی ہونے کے باوجود بھی احساس زیاں نہیں۔ شعور نہ ہونا اور کسے کہتے ہیں۔ ایسے میں فوجی قیادت کو بھی یہ بہتر لگتا ہے کہ پس پردہ ہی رہے اور نظام جیسا ہے ویسا چلنے دے اور اپنا اثرورسوخ اور وسائل پر اختیار جاری رکھے۔

مایوس منظرنامہ ہے۔ امید نہیں ہارنی چاہیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ احساس زیاں بھی نہیں, غلطیوں کاادراک بھی نہیں اور منزل ہی کا تعین بھی نہیں کہ اس ریاست کو      آخر بننا کیا ہے۔

ایوان اقتدار میں بھی نااہل لوگ ہمارے پارلیمنٹ میں نمائندے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ سب سے ناقابل ہی سب سے طاقتورہیں ، قانون سازمگر قانون سے بالاتر ہے۔

علامہ اقبال نے تصور پاکستان دیا۔ انہوں نے کہاخاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ مگر ہم اپنی شناخت کی ندرت کو کھانے کی ترکیبوں میں ہی ثابت کرپاۓ۔ بہت کچھ بگڑا ہوا ہے اور کھوچکے ہیں۔

انڈیا تو کیا بنگلہ دیش بھی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ مشرقی ایشیاء کے لوگوں سے  ملتے ہیں تو لگتا ہے وہ تو ہماری طرح تیزاور چالاک نہیں۔ پھر وہ کیوں     آگے اور ہم کیوں پیچھے۔

چالاکی سےکچھ افراد کچھ وقت کے لیے ترقی کرسکتے ہیں۔ محنت, دیانتداری, نظم و ضبط اور قانون کی عملداری سے پورا معاشرہ اور آئندہ نسلیں بھی۔

زبان کی بنیاد پر تقسیم مذہبی اور مسالکی تقسیم سے بھی گہری ہوتی ہے ہماری تاریخ اس کی سورج کی طرح روشن دلیل ہے۔ میڈیا ننانوے فی صد وقت یا تو کھیل, شوبز یا پھرجاہل, مکار اور کرپٹ سیاستدانوں کو دیتا ہے۔ مذہب سے وابستگی بھی روحانی سے زیادہ روایتی ہے۔ اصلاح اخلاق کسی کا مسئلہ نہیں۔ مکاری اور اس کے ساتھ سیاسی, سرکاری یا فوجی وابستگی ہی کامیابی کا ذریعہ ہے مگر رشوت پھر بھی ہر کام کی دینا ہوگی۔ اتنے نوجوان اس سال بھی اپنی گریجویشن مکمل کرکے نکلیں گے, ان کا کیا مستقبل ہے اور کیا مواقع موجود ہیں, سوچ کرمایوسی ہوتی ہے۔

حل کیا ہو اور کہاں سے شروع کیا جاۓ۔ اداروں کی وسیع پیمانے پرنجکاری۔ پرائیویٹ سیکٹر جس کے مالی نقصان کو سرکار نہیں بھرتا, تعصب روانہیں رکھ سکتا۔ مذہب کو نہ فوج اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے نہ مذہبی طبقہ خوداس کے لیے استعمال ہو۔ مذہبی قیادت کی جانب سے اصلاح اخلاق کو ہدف بنانانا کہ محض سیاسی نظام میں ایک پریشرگروپ بنے رہنا جو سواۓمذہب کی ایک تعبیر کے پورے ملک میں نافذ ہونے کے ملک کے دیگر مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ یکساں تعلیمی نظام۔ قانون کی مکمل اورمثالی بالادستی۔ اس کے لیے فوج, سیاستدانوں اور ججز کو عہد کرناہوگا کہ آئندہ وہ اپنے ادارے سے وابستہ لوگوں کوبھی قانون کی عمل داری کے لیے پیش کریں گے۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور میڈیا کی پوری قوت کا مسائل کو اجاگر اور فالو اپ کرنے پرتوجہ نا کہ محض سیاسی مناظرہ کرانے پر۔ وسیع پیمانے پرتعلیمی ورکشاپس جس میں اسکل ڈویلیپمنٹ اور سماجی شعوراجاگر کرنے پرتوجہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تومزیدتنزلی اور وقت کی اور آئندہ نسلوں کی بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ملک کی بقاء کی دعا کرنے کے بجاۓ عمل کی ترغیب اور توفیق کی دعا کریں تو بقاء خود ہوجائیگی کیوں کہ خداکسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک وہ خود نہ بدلے۔

Facebook Comments

سلمان احمد شیخ
سلمان احمد شیخ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں- ملیشیا سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں- دینیات, سائنس اور سماجیات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں- کئی مقالوں کے مصنف اور دوکتابیں لکھ چکے ہیں- ان کا تحقیقی کام ان کے ریسرچ گیٹ کی پروفائل پر دیکھا جاسکتا ہے۔- ایک ماہنامہ ریسرچ بلیٹن کے مدیر ہیں جو اسلامک اکنامکس پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply