تالہ/علی عبداللہ

فیمنسٹ سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بھی ایسے لوگوں کا راج ہے جن کو سِرے سے فیمینزم کا اصل مفہوم معلوم ہی نہی، وہ فیمینزم کا نعرہ لگاتے ہوئے اس نہج تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا کام فقط مرد کو ایک جنسی حیوان ثابت کر کے خود کو بے بس، مجبور اور لاچار ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کے خواتین پر مظالم کے ایسے ایسے واقعات گھڑنا ہے جن کا تعلق مشرق سے تو کم از کم نہ ہونے کے برابر ہے۔ایک جگہ پڑھا تھا کہ “فیمنزم کی دوسری لہر کی چند خواتین رہنماؤں کا خیال تھا کہ عریانی، فحاشی اور جنس کا آزادانہ اظہار مردانہ بالادستی اور روایتی پاور اسٹرکچر کو تقویت فراہم کرتا ہے اور اس سے عورتوں کے خلاف استحصال اورجنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن تیسری لہر کے نوجوان فیمنسٹوں نےاس خیال کو مسترد کرتے ہوئے جنسی کشش و جاذبیت کو عورت کی آزادی، خودمختاری اور ایمپاورمنٹ کے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا”۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی، اسی آڑ میں انہی فیمنسٹوں کے گروہ نے خواتین کو آزادی اظہار رائے کی صورت گھٹیا، فحش اور من گھڑت جملے اور موضوعات پر کھلے عام بولنے کی راہ بھی دکھائی۔  درحقیقت ان میں سے اکثر واقعات کا سرے سے کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا اور اگر ایک  آدھ واقعہ کسی کی جہالت کے سبب رونما ہو بھی جائے تو اسے پورے معاشرے کے مردوں پر لاگو کر دیا جاتا ہے۔ماضی کے چند اوراق پلٹیں تو یہی فیمنسٹ آئن سٹائن کی تھیوری کی تشریح کرتے ہوئے کہتے تھے کہ چونکہ مرد باقی تمام مخلوقات پر فوقیت چاہتا ہے، اس لیے روشنی کی رفتار کو تمام رفتاروں پر فوقیت مردانہ سوچ کا اظہار ہے۔ اسی طرح فلوئڈ میکانکس پر سالڈ سٹیٹ فزکس کی ترقی کی وجہ بھی مردانہ پن ہے نہ کہ فلوئڈ میکانکس کی پیچیدہ اور مشکل مساواتیں۔ اسی رویے اور فہم کا جدید عکس ہمارے ہاں کے فیمنسٹ ہیں۔

حال ہی میں ایک فیمنسٹ خاتون ڈاکٹر کی جانب سے قبائلی عورتوں کے مخصوص اعضا پر تالہ بندی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ چونکہ اس بات کا واضح ثبوت ان کے پاس نہیں ہے، لہذا وہ ایک دو ہم قبیل ڈاکٹروں کی طرف سے اسی قسم کے بیانات کو بطور ثبوت پیش کر کے اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔ اپنی تحریروں سے مسلسل یہ اس معاشرے کے مردوں کو ظالم، کم علم اور متشدد بنا کر انھیں بدنام کرتی چلی آئی ہیں۔ حالا نکہ ہ وہ یہ نہیں جانتیں کہ جس تالہ بندی کا ذکر انھوں نے کیا ہے وہ مغرب کی ہی اختراع ہے اور طویل عرصے تک خواتین پر یہ مسلط رہا ہے۔ مجال ہے انہوں نے اس طرف کوئی اشارہ کرنے کی جرات بھی کی ہو۔ بات مغرب کی چِھڑی ہے تو چیسٹٹی بیلٹ اور مغرب کا تعلق بھی کچھ واضح کرنا مناسب ہو گا۔ 2016 میں اٹلی کی ایک درمیانی عمر کی خاتون نے فائرفائٹرز کو مدد کے لیے بلایا. مسئلہ یہ تھا کہ وہ خاتون اپنے ہی لگائے گئے اس بیلٹ جسے “چیسٹٹی بیلٹ” کہا جاتا ہے کے تالے کی چابی کھو بیٹھی اور اب اس کے مخصوص اعضا سے وہ بیلٹ اتر نہیں رہی تھی، جس بِنا پر فائرفائٹرز کی ٹیم نے اس خاتون کو ریسکیو کیا۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جنسی تعلقات سے بچنے کے لیے اس خاتون نے خود ہی یہ قدیم مغربی طریقہ اپنایا تھا۔

چیسٹٹی بیلٹ کا تصور کہاں سے آیا اس بارے کوئی ایک نظریہ موجود نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ بیلٹ قدیم روم میں دلہنیں سفید کُرتے کے اوپر کمر کے گرد لپیٹتی تھیں، جن پر ایک گرہ لگی ہوتی جسے “ہرکولین ناٹ یا لو ناٹ” کہا جاتا تھا- یہ گرہ اس دلہن کی دوشیزگی کی نشانی ہوا کرتی تھی جسے صرف اس کا خاوند ہی کھولتا تھا۔یہ تصور پھر مغربی ثقافت میں داخل ہوا اور وقت کے ساتھ بدلتے بدلتے تالے کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے تالے والا یہ بیلٹ جسے چیسٹٹی بیلٹ کہا جاتا ہے صلیبی دور میں استعمال ہونا شروع ہوا جب صلیبی جنگجو محاذ پر جانے سے پہلے اپنی بیویوں کے مخصوص اعضا پر یہ بیلٹ چڑھاتے اور چابی اپنے ساتھ لے جاتے، تاکہ اس تمام عرصے میں ان کی بیویاں کسی سے جنسی تعلق قائم نہ کر پائیں۔ گو کہ اکثر یورپی اس بات کو نہیں مانتے لیکن 1889 میں ایک جرمن آثار قدیمہ کے کھوجی نے آسٹریا میں ایک خاتون کی قبر سے 16ویں صدی کا چمڑے اور لوہے سے بنا چیسٹٹی بیلٹ دریافت کیا۔ اس سے قبل بھی مغرب کے کئی شاعروں نے اس بارے لکھا اور آرٹسٹوں نے ایسے بیلٹوں کے مختلف خاکے بھی بنائے۔یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ پیرس اور لندن کے عجائب گھروں میں اس قسم کے تالے والے بیلٹ موجود ہیں لیکن بہت سارے عجائب گھروں سے ایسے بیلٹ اس لیے ہٹا بھی دیے گئے تاکہ عوام کے سامنے شرمندگی سے بچا جا سکے۔ سولہویں اور سترھویں صدی کے بیچ لوہے کے چیسٹٹی بیلٹ وسطی یورپ میں مشہور تھے اور انیسویں صدی تک مغرب میں کئی جگہ خواتین کو زبردستی ایسے بیلٹ پہنائے جاتے تھے۔

اب اگر دیسی چیسٹٹی بیلٹ، جس کا ذکر فیمنسٹ ڈاکٹر نے کیا ہے، اس بارے دیکھا جائے تو پہلی بات یہ ہے کہ قبائلی لوگوں میں جیسا کہ  ہمارا میڈیا بتاتا ہے، غیرت کے نام پر قتل عام بات ہے جس میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے، تو اگر غیرت کے نام پر قتل ہی سزا ہے تو پھر اس تالہ بندی کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ دوسرا قبائلی لوگ بہت زیادہ نہ تو طویل سفر کرتے ہیں اور نہ ہی گھروں سے زیادہ دن باہر رہتے ہیں ،لہذا یہ تالہ بندی ایک قصے کے سوا کچھ نہیں معلوم ہوتا۔ اگر بالفرض اس بات کو صحیح مان بھی لیا جائے تو پھر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبائلی لوگ جو کہ عزت، غیرت، حمیت، بہادری اور شجاعت میں مشہور ہیں، ان کے ہاں جنسی بے راہ روی دیگر علاقوں سے بڑھ کر ہے ( کم از کم اس بات کا مجھے یقین نہیں ہے)۔اگر کسی ایک ادھ مرد نے کوئی ایسی جاہلانہ اور احمقانہ حرکت کرنے کی کوشش کی، تب بھی اس بنیاد پر پورے معاشرے کے مردوں کو بدچلن اور درندہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہی فیمنسٹ ڈاکٹر ایک اور جگہ زچگی اور دیگر نسوانی مسائل کو سوالیہ انداز میں پیش کرتے ہوئے مردوں سے ان کا جواب مانگ کر انھیں کم علم کہتی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک انجینئر سے مصوری کے بارے پوچھا جائے یا پھر کوئی سیفٹی انجینئر اس ڈاکٹر سے انڈسٹریل سیفٹی کے پیچیدہ سوالات پوچھے۔ یقیناً ڈاکٹر صاحبہ کو بھی یہ معلوم نہ ہو گا کہ ہائڈروسٹیٹک ٹیسٹ کسے کہتے ہیں اور یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ این ڈی ٹی ٹیسٹ کیا ہوتا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں فیمنسٹوں نے علمی اور فکری دیانت داری پر منفی اثر ڈالا ہے۔ جینڈر سٹڈیز کے شعبے کی آڑ میں ہر شے کو جنسی عینک سے دیکھنا اور مردوں کو جنسی حیوان ثابت کرنا ان کا واحد مقصد بن چکا ہے۔ایسے مغرب سے مرعوب جاہل فیمنسٹوں کو پوچھنا چاہیے کہ آخر یہ فیمنسٹ کی اصطلاح کہاں سے آئی ہے اور اس کا اصل اور اولین مقصد کیا تھا؟ اگر یہ لوگ حقیقت ہضم کرنے کے قابل ہو جائیں تو پھر مغرب کو وہ واپس لوٹا دیں جو اس نے فیمنسٹوں کے ذہن میں بویا ہے، تاکہ کوا کوا بن سکے اور ہنس ہنس۔ وگرنہ یہی فیمنسٹ شرمگاہوں کی تالہ بندی کے قصے گھڑتے گھڑتے خاک ہو جائیں گے۔ ان تالوں کا کھلنا ان کے نزدیک جنسی آزادی ہے جس کا ہر کوئی برابر کا حق دار ہے اس بات سے قطع نظر کہ معاشرہ اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply