ہم جنس پسندی اور مُلا صدرا / حمزہ ابراہیم

عرفان یا تصوف، یعنی اپنے احساسات کو خطاء سے پاک علم سمجھنا اور دماغی محنت سے حاصل ہونے والے علمِ حصولی کو عبث قرار دینا، مختلف تہذیبوں میں رہا ہے۔ یونان میں افلاطون تو ہندوستان میں اپنشاد لکھنے والوں نے اسکی ترویج کی۔ اسلام سے قبل مکہ سے سکندریہ تک سمندری راستے سے تجارت ہوتی تھی اور وہاں فلوطین(متوفیٰ 270ء) کا مکتبِ فکر غالب آ چکا تھا کہ جو افلاطون کے افکار میں ہندی اپنشاد کی آمیزش سے وجود میں آیا تھا۔[1] چنانچہ مکہ میں عمرو ابن ہشام جیسے لوگ، جسے بعد میں ابو جہل کے لقب سے یاد کیا گیا، موجود تھے جو اس دور کے غالب فلسفے سے متاثر تھے۔ عرفان یا تصوف مسلمانوں میں اس وقت سامنے آیا جب عباسی دور میں ہندو اور قدیم یونانی اساطیر کے عربی میں تراجم ہوئے۔ عباسی دور میں صرف تراجم نہیں ہوئے، بلکہ ان اساطیر پر عمل کرنے والے لوگ بھی جب مسلمان ہوئے تو وہ اپنے ذہنی ورثے کو ساتھ لے کر آ گئے اور اسلام کی تعبیر اسی پسِ منظر میں کی۔ معروف صوفی بزرگ با یزید بسطامی (متوفیٰ 874ء) کے استاد بو علی سندھی مسلمان ہونے سے پہلے ہندو جوگی تھے۔ [2] مسلم عرفان کو ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) نے عروج بخشا اور ان کے بعد روحانی بزرگوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اسی دور میں بزرگوں میں اپنے شاگردوں کا جنسی استحصال کرنا اس قدر عام ہو گیا کہ تاریخ کی نگاہوں میں آنے لگا۔ ابن کثیر دمشقی (متوفیٰ 1373ء) لکھتے ہیں:

وهي فاحشة اللواط، التي قد ابتلي بها غالب الملوك والأمراء، والتجار والعوام، والكتاب والفقهاء، والقضاة ونحوهم، إلا من عصم الله منهم.

” لواط کے گناہ میں اکثر بادشاہ اور افسران، تاجر اور عوام، کاتب، فقہاء اور قاضی وغیرہ ملوث ہیں، سوائے ان کے جن پر الله کا خاص کرم ہو ۔ “ [3]

شہروں سے دور خانقاہوں میں ریاضت کرنے والوں میں بھی یہ رواج پھیل گیا کیوں کہ وہ صرف ہم جنسوں سے ہی اختلاط کر پاتے تھے۔ ان کے افلاطون جیسے پیشرو بھی ہم جنس پسندی کے حامی رہے تھے۔ چنانچہ مولانا روم (متوفیٰ 1273ء) فرماتے ہیں:

صوفی‌ای گشتہ بہ‌پیش این لئام

الخیاطۃ و اللَواطۃو السلام

” آج کل پست قسم کے صوفیوں کا کام بس یہی رہ گیا ہے کہ خرقہ سی لو اور لوا ط کرنے لگو۔ “[4]

ملا صدرا(متوفیٰ 1640ء) نے عرفانِ نظری کی معروف کتاب اسفارِ اربعہ میں ”حساس لوگوں کا نو عمر خوبصورت لڑکوں سے عشق“ کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے، في ذكر عشق الظرفاء والفتيان، جس میں اس معاملے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں:

اعلم أنه اختلف آراء الحكماء في هذا العشق وماهيته وانه حسن أو قبيح محمود أو مذموم فمنهم من ذمه وذكر انه رذيلة وذكر مساويه وقال إنه من فعل البطالين والمعطلين ومنهم من قال إنه فضيلة نفسانية ومدحه وذكر محاسن أهله وشرف غايته ومنهم من لم يقف على ماهيته وعلله وأسباب معانيه وغايته ومنهم من زعم أنه مرض نفساني ومنهم من قال إنه جنون الهي.

”جان لو کہ اس محبت اور اس کی ماہیت کے بارے میں فلاسفہ کے اقوال مختلف ہیں۔ کچھ اسے اچھا اور کچھ بُرا سمجھتے ہیں، کچھ اسے اچھے الفاظ میں سراہتے ہیں تو کچھ اسے گھٹیا حرکت سمجھتے ہیں اور اس کو بے کار لوگوں کا کام سمجھتے ہیں- کچھ اسے روحانی فضیلت سمجھتے ہیں اور اس کی مدح کرتے ہیں اور یہ کام کرنے والوں کی خوبیاں گنواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی نیت اچھی ہوتی ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کی ماہیت اور علت و اسباب کو نہیں جانا اور کچھ نے اسے نفسیاتی بیماری قرار دیا تو کچھ اسے روحانی جنون سے تعبیر کرتے ہیں ۔“

والذي يدل عليه النظر الدقيق والمنهج الأنيق وملاحظة الأمور عن أسبابها الكلية ومباديها العالية وغاياتها الحكمية ان هذا العشق أعني الالتذاذ الشديد بحسن الصورة الجميلة والمحبة المفرطة لمن وجد فيه الشمائل اللطيفة وتناسب الأعضاء وجوده التركيب لما كان موجودا على نحو وجود الأمور الطبيعية في نفوس أكثر الأمم من غير تكلف وتصنع فهو لا محاله من جمله الأوضاع الإلهية التي يترتب عليها المصالح والحكم فلا بد ان يكون مستحسنا محمودا سيما وقد وقع من مباد فاضله لأجل غايات شريفة.

”اور گہرائی میں جا کر نفیس اندازِ فکر سے مطالعہ کیا جائے اور ان معاملات کے کلی اسباب اور اعلیٰ مبادی اور حکیمانہ مقاصد کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ عشق حسین چہرے کی خوبصورتی سے حاصل ہونے والی شدید لذت کا نام ہے۔ یہ وہ پابندیاں توڑنے والی محبت ہے جو کسی کی لطیف اداؤں، اس کے اعضاء کے تناسب اور اسکے بدن کی ترکیب سے ہو جائے۔ یہ ماضی میں اکثر اقوام میں فطری طور پر، کسی تکلف اور تصنع کے بغیر، پایا جاتا تھا۔یہ لامحالہ روحانی عظمتوں میں سے ہے کہ جس میں کوئی حکمت اور مصلحت ہو گی۔ لہٰذا اسے ایک مستحسن اور اچھا کام ہونا چاہیے کیوں کہ یہ شریفانہ مقاصد کے حصول کیلئے رائج ہوا ہے۔ “

اما المبادي فلانا نجد أكثر نفوس الأمم التي لها تعليم العلوم والصنائع اللطيفة والآداب والرياضيات مثل أهل الفارس وأهل العراق وأهل الشام والروم وكل قوم فيهم العلوم الدقيقة والصنائع اللطيفة والآداب الحسنة غير خاليه عن هذا العشق اللطيف الذي منشأه استحسان شمائل المحبوب ونحن لم نجد أحدا ممن له قلب لطيف وطبع دقيق وذهن صاف ونفس رحيمة خاليا عن هذه المحبة في أوقات عمره.

”اصول کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ان قوموں میں اس کا رواج ملتا ہے جن کے ہاں مختلف علوم، فنونِ لطیفہ، ادب اور ریاضی کی تعلیم ہوتی ہے، جیسے کہ اہلِ فارس، اہلِ عراق، اہلِ شام و روم ہیں۔ نیز وہ تمام اقوام جن میں دقیق علمی کام ہوتا ہے اور ان کی صنعت میں نزاکتوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور جنہوں نے مہذب زندگی کو اپنا لیا ہے، وہ اس لطیف عشق سے محروم نہیں ہیں کہ جس کا منشاء محبوب کی اداؤں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں اور ہم نے اپنی ساری زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں پایا جس کا دل نرم، طبیعت نازک، سوچ پاکیزہ اور روح مہربان ہواور وہ اس محبت سے عاری ہو۔“

ولكن وجدنا سائر النفوس الغليظة والقلوب القاسية والطبائع الجافية من الأكراد والاعراب والترك والزنج خاليه عن هذا النوع من المحبة وانما اقتصر أكثرهم على محبه الرجال للنساء ومحبة النساء للرجال طلبا للنكاح والسفاد كما في طباع سائر الحيوانات المرتكزة فيها حب الازدواج والسفاد والغرض منها في الطبيعة ابقاء النسل وحفظ الصور في هيولياتها بالجنس والنوع إذ كانت الاشخاص دائمة السيلان والاستحالة.

” لیکن ہم نے کردوں، بدوؤں، ترکوں اور حبشیوں جیسی کثیف، سخت دل اور خشک فطرت اقوام کو اس قسم کی محبت سے عاری پایا ہے۔ بلکہ ان میں سے اکثر مرد عورتوں سے محبت اور عورتیں مردوں سے محبت تک ہی محدود رہتی ہیں۔ یہ حیوانوں کی طرح بس جنسِ مخالف سے ہم بستری اور پست خواہشات کو پورا کرنے پر متمرکز ہوتے ہیں، کہ جس کام سے فطرت کا مقصد محض انسانی نسل کی بقاء ہے اور ہیولوں میں اشکال کو باقی رکھنا ہے ۔ پس یہ لوگ ہمیشہ سوزاک اور نامردی میں مبتلا رہتے ہیں۔ “

واما الغاية في هذا العشق الموجود في الظرفاء وذوي لطافة الطبع فلما ترتب عليه من تأديب الغلمان وتربيه الصبيان وتهذيبهم وتعليمهم العلوم الجزئية كالنحو واللغة والبيان والهندسة وغيرها والصنائع الدقيقة والآداب الحميدة والاشعار اللطيفة الموزونة والنغمات الطيبة وتعليمهم القصص والاخبار والحكايات الغريبة والأحاديث المروية إلى غير ذلك من الكمالات النفسانية

” ظریف اور لطیف طبع لوگوں میں اس عشق کی موجودگی کا مقصد نوخیز لڑکوں کو سدھانا، انکی تربیت کرنا، انہیں مہذب بنانا اور انہیں نحو، لغت، بیان اور حساب وغیرہ جیسے علوم پڑھانا اور دقیق مہارتیں سکھانا ہے۔ پسندیدہ آداب، موزوں و لطیف اشعار اور پاک صاف ترانے یاد کرانا اور قصے، تاریخ، حکمت کے نایاب موتی اور احادیث پڑھا کران میں نفسانی کمالات پیدا کرناہے۔ “

فان الأطفال والصبيان إذا استغنوا عن تربيه الاباء والأمهات فهم بعد محتاجون إلى تعليم الاستادين والمعلمين وحسن توجههم والتفاتهم إليهم بنظر الاشفاق والتعطف فمن أحل ذلك أوجدت العناية الربانية في نفوس الرجال البالغين رغبه في الصبيان وتعشقا ومحبه للغلمان الحسان الوجوه ليكون ذلك داعيا لهم إلى تأديبهم وتهذيبهم وتكميل نفوسهم الناقصة وتبليغهم إلى الغايات المقصودة في ايجاد نفوسهم والا لما خلق الله هذه الرغبة والمحبة في أكثر الظرفاء والعلماء عبثا وهباء فلا بد في ارتكاز هذا العشق النفساني في النفوس اللطيفة والقلوب الرقيقة غير القاسية ولا الجافية من فائدة حكمية وغاية صحيحه.

” کیوں کہ بچے اور نو عمر لڑکے جب اپنے ماں باپ کی تربیت سے فارغ ہو لیتے ہیں تو انہیں استادوں اور معلمین سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ان کی توجہ اور محبت کے محتاج ہوتے ہیں، ان کی شفقت بھری نگاہ اور پیار کے طالب ہوتے ہیں، اس لئے یہ جائز ہے۔ بڑی عمر کے مردوں کے دِلوں میں نو عمر لڑکوں کی کشش اور خوبصورت نوخیز نوجوانوں کا عشق خدا کی عنایت ہے تاکہ اساتذہ  ان کو ادب سکھانے، ان کے ناقص نفوس کی تہذیب کر کے کمال تک پہنچانے، انہیں زندگی کے عالی مقاصد اور خود شناسی کی تبلیغ کرنے کی طرف مائل ہوں۔ وگرنہ خدا اس عشق کو اکثر علما اور ظریف لوگوں کے دلوں میں بلاوجہ پیدا نہ کرتا۔ اس عشق کاسنگدل اور خشک لوگوں کے بجائے لطیف روحوں اور نازک دلوں میں پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی فائدہ، کوئی حکمت اور ایک صحیح مقصد ہے۔“ [4]

اپنے احساسات کو علمِ حضوری کا نام دے کر مقدس حقائق سمجھ لینے والے حضرات کی اپنے جنسی رجحانات کے بارے میں داستان سرائی کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لیکن آج کل کے زمانے میں اگر کوئی استاد اپنے شاگردوں کے بارے میں اس قسم کے خیالی پلاؤ پکا رہا ہو تو اسے ملازمت سے فوری طور پر برطرف کرنا چاہیے۔ استاد کو اپنا سماجی رتبہ استعمال کرتے ہوئے معصوم بچوں سے عشق کرنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے۔

حوالہ جات:

[1] A. H. Armstrong, “Plotinus and India”, The Classical Quarterly, Vol. 30 (1), pp. 22-28, Cambridge University Press, 1936.

[2] شیخ محمد اکرام، آب کوثر، صفحہ 36، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1975ء۔

[3] ابن کثیر دمشقی، البدایہ و النہایہ، جلد 9، صفحہ 174، دار الکتب العلمیہ، لبنان۔

[4] مولانا روم، مثنوی رومی، دفتر پنجم، صفحہ 48، سببِ آنکہ فَرَجی را نامِ فَرَجی نہادند از اوّل، سب رنگ کتاب گھر، دہلی۔

[4] ملا صدرا ، اسفار اربعہ ، جلد 7، صفحہ 171 تا 174،دار احياء التراث العربی، بيروت۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی پڑھیۓ: ملا صدرا کے خیالات کی فرسودگی

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply