دریا کی خاموشی۔۔زکریا تامر(ترجمہ۔۔آدم شیر)

  اگلے وقتوں کی بات ہے کہ دریا باتیں کرتا تھا اور اسے بچوں سے گفتگو کرنا بہت پسند تھا جو پانی پینے اور ہاتھ منہ دھونے آتے تھے۔ وہ مذاق کرتا، ’’کیا زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے یا سورج زمین کے اطراف گھومتا ہے؟‘‘ دریا درختوں کو اپنا پانی دے کران کے پتے ہرے کرتے ہوئے خوش رہتا،وہ گلابوں کو فراخ دلی سے پانی دیتا تاکہ وہ مرجھا نہ جائیں اور وہ پرندوں کو ہجرت سے پہلے طاقت کے لئے پانی پینے کی دعوت دیتا تھا۔ وہ پیاس بجھانے کے لئے آنے والی بلیوں سے اٹھکیلیاں کرتا، ان پر چھینٹے اڑاتا اور بلیوں کے پانی سے نکل کر خشک ہونے کے لئے زور زور سے ہلنے جلنے پر مسکراتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں :  بچے جمہورے سے مکالمہ۔۔منصور آفاق

پھر ایک دن جذبات سے عاری چہرے والا آدمی آیا جس کے پاس تلوار تھی ۔ اس نے بچوں، درختوں، گلابوں، پرندوں اور بلیوں کو دریا سے پانی نہ لینے دیا اور کہا کہ یہ دریا صرف اس کا ہے۔ دریا کو غصہ آیا اور وہ چلایا،

’’میں کسی کی ملکیت نہیں۔‘‘

ایک عمر رسیدہ پرندہ بولا، ’’کوئی جان دار دریا کا سارا پانی اکیلے نہیں پی سکتا۔‘‘

لیکن تلوار والے آدمی نے دریا کے چلانے اور پرندے کے الفاظ پر توجہ نہ دی ، وہ بے ڈھنگی اور کرخت آواز میں بولا، ’’جودریا سے پانی پینا چاہتا ہے، اسے سونے کا ایک ٹکڑا دینا پڑے گا۔ ‘‘

پرندوں نے کہا، ’’ہم تمہارے لئے انتہائی مسحور کن گیت گائیں گے۔‘‘

آدمی بولا، ’’مجھے سونا چاہیے ، موسیقی نہیں۔‘‘

درختوں نے صدا دی، ’’ہم تمہیں اپنے پہلے پہلے پھل دیں گے۔‘‘

آدمی نے کہا، ’’میں تمہارے پھل کھا لوں گا جب میرا جی چاہے گا، مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘

گلابوں نے بتایا، ’’ہم تمہیں اپنا سب سے خوبصورت گلاب دیں گے۔‘‘ آدمی نے مضحکہ اڑایا، ’’اور کیا ایک خوبصورت گلاب اچھا ہے؟‘‘

بلیوں نے کہا، ’’ہم تمہارے لئے پیارے پیارے کھیل کھیلیں گی اور رات کو تمہاری پہرہ داری کریں گی۔‘‘ آدمی بولا، ’’مجھے تمہارے کھیلوں سے نفرت ہے اور میری تلوار ہی اکلوتی پہرے دار ہے جس پر میں اعتماد کرتا ہوں۔‘‘ بچوں نے کہا، ’’تم جو کہو گے ہم وہی کریں گے۔‘‘ آدمی نے جواب دیا، ’’تم کسی کام کے نہیں، تمہارے پاس طاقتور بازو نہیں۔‘‘

اس پر وہ سارے پریشان اور غمزدہ ہو گئے مگر آدمی بولتا رہا، ’’اگر تم دریا سے پانی پینا چاہتے ہو تو مجھے سونا دو۔‘‘ ایک ننھا پرندہ بہت پیاسا تھا، وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے دریا سے پانی پینے کا خطرہ اٹھا لیا جس پر آدمی لپکا، پرندے کو پکڑا اور اپنی تلوار سے قتل کر دیا۔ گلاب روئے۔درخت روئے۔پرندے روئے۔بلیاں روئیں اور بچے روئے۔ ان میں سے کسی کے پاس سونا نہیں تھا اور ان میں سے کوئی بھی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن تلوار والے آدمی نے اُنھیں دریا سے پانی نہ پینے دیا۔ گلاب مرجھا گئے۔ درخت سوکھ گئے۔ پرندے اڑ گئے۔ بلیاں اور بچے بھی چلے گئے۔

یہ بھی پڑھیں :  میرے بچے ،میرے نونہال۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

دریا غصے میں تھا اور اس نے کبھی نہ بولنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جلد ہی وہ آدمی آئے جو بچوں ، بلیوں، گلابوں ،درختوں اورپرندوں سے پیار کرتے تھے۔ اُنھوں نے تلوار والے آدمی کو ہمیشہ کے لئے بھگا دیا اور دریا دوبارہ آزاد ہو گیا ہر کسی کو اپنا پانی دینے کے لئے مگر وہ خاموش رہتا ہے۔ وہ تلوار والے آدمی کی واپسی کے ڈر سے لرزتا رہتا ہے۔ ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(زکریا تامر نے یہ کہانی بچوں کے لئے لکھی تھی اور اس کا انگریزی ترجمہ why did the river stop talking? کے نام سے ہوا۔ بچوں کے لئے لکھی کہانیوں کے مجموعے کا نام بھی یہی تھا۔اس کہانی کا انگریزی ترجمہ کلیٹن کلارک نے کیا تھا۔ اور اردو میں آپ کے خیر اندیش آدم شیر نے ڈھالا ہے۔ )

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply