کرائے دیاں فوجاں۔۔منصور ندیم

عزت مآب جناب آرمی چیف صاحب!

مرشد، آپ تو عزت مآب ہیں، اور ہم جیسی عوام ذلت مآب ہیں۔ نہ نہ نہ  مرشد ناراض مت ہوں، یہ میرا کہنا نہیں ہے میرا دوست ہے نا ” شکورا” یہ اس کا ماننا ہے، نام تو اس کا عبدالشکور ہے لیکن سب اس کو ” شکورا” ہی کہتے ہیں، وہ تو اپنے آپ کو دانشور مانتا ہے۔ پرسوں ملا تھا، چائے کے کھوکھے پر کہتا تھا چائے  پلاو، زوردار خبر دونگا، چائے منگوائی تو کہنے لگا ساتھ دو پراٹھے اور سگریٹ بھی منگوالو، بس خبر کے تجسس نے مجھے بھی جیب ڈھیلی کرنے پر مجبور کردیا۔

چائے سپڑ سپڑ کرتے کہنے لگا” فوجاں فیر کرائے تے ٹر چلیاں نیں ” کہنے لگا ، وہاں پہلے ہی زمینی جنگ میں کافی نقصان ہوا، پھر ایک دم قریب ہو کر سرگوشی میں بولا، اوبھولے بادشاہ ‘ تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ پہلے سے ہی وہاں بارڈر پر  یہی ہماری فوج لڑ رہی ہے، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پھر رازدارانہ سرگوشی میں بولا ‘ لیکن تجھے کیسے پتہ ہوگا، یہاں سے یہ لوگ ایک بٹالین سلیکٹ کرلیتے ہیں پھر اس تمام بٹالین کی آفیشل چھٹیاں کاغذی کارروائی کے طور پر منظور ہوجاتی ہیں، جیسے کہ کسی کاباپ بیمار ہے تو کسی کی ماں کا آپریشن ہے وغیرہ وغیرہ ، پھر ان کے مختلف پیشوں کے ویزے نکلوائے جاتے ہیں جیسے کہ وہ سب وہاں کسی نوکری پر جائیں گے، اور وہاں جاکر باقاعدہ سرحدوں پر لڑتے ہیں، وہاں دوسالوں میں اتنی تنخواہ  مل جاتی ہے جتنی پوری نوکری میں نہیں ملتی، اگر کبھی کوئی پکڑا جائے تو یہ کہہ سکیں کہ یہاں سے تو چھٹی لے کر گیا تھا، اب وہ آگے کیا کرنے گیا ہمیں اس کا کیا پتہ ، ویسے بھی ہر دوسرے مہینے یمن کے بارڈر پر اکثر میزائیل گرنے پر صرف پاکستانی مزدوروں کے مرنے کی ہی خبر کیوں آتی ہے ، کسی اور قومیت کے افراد یمن کے بارڈر پر کیوں نہیں مرتے، ظاہر ہے یہ آرمی والے ہی  مختلف مزدوروں کی شناخت سےسعودی عرب میں ہوتے ہیں، پچھلے دوسال سے تو   un official  جا رہے تھے، اب آفیشل جائیں گے، اسی لئے تو وزیر اعظم،   وزیر دفاع و خارجہ اور مرشد آپ کا بھی ذکر کیا کہ آپ  نے گزشتہ چند مہینوں میں اسی سلسلے میں وہاں عمرے ادا کیے  ہیں۔

یہ بھی پڑھیں   : بابے رحمتے کی ڈائری…معاذ بن محمود

مرشد ! توبہ توبہ کیسے کیسے لوگ الزام لگاتے ہیں یہ دیسی دانشور بھی ، خیر  ابھی یہیں تک پہنچا تھا کہ چائے ختم ہوگئی، اور اس کی زبان بھی رک گئی، مرشد کیا کروں پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے خبر پوری سننی تھی بادل ناخواستہ دو سگریٹ ” اونٹ مارکہ” اور ایک چائے کا آرڈر اور دینا پڑگیا،میں نے کہا بھی کہ شکورا بھائی  ! آپ کیسی باتیں کر رہے ہو ، کہنے لگا چائے آنے دے آج تجھے سب بتاتا ہوں کہ اصل چکر  ہے کیا۔

بس چائےآنے کی  دیر تھی کہ اس کی زبان پھر قینچی کی طرح چلنے لگی، میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا اور دم سادھے سنتا رہا اور وہ بولنا شروع ہوا” کسی بھی ملک کی پہلی ضرورت سیاست دان ہے، بادشاہ ہو، ظالم ہو، کرپٹ ہو، یا جمہوری، عادل اور ترقی پسند، مگر سیاست دان کے بغیر ملک کا وجود ممکن ہی نہیں ہے، دوسری ضرورت قانون ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے،  قانون سازی سیاست دانوں کا، قانون کی تفسیر اور جھگڑوں کے فیصلے عدلیہ کا اور نفاذ  پولیس کا کام ہے، اس کے بعد معشیت، دفاع، صحت اور تعلیم کی ضرورت ہے،شکورا ایک لمحے کے لئے رکا اور بڑے  سٹائل سے سگریٹ سلگا کر ایک کش لیا اور دھواں میرے منہ پر چھوڑتے ہوئے   کہنے لگا ، اگر فوج پر تنقید سے دفاع ختم ہونے، ملک کا وجود خطرے میں پڑنے کا رونا رویا جاتا ہے تو یہی زید حامد جیسے فوج کے پالتو لوگ سیاست دانوں، عدلیہ اور پولیس پر کس منہ سے تنقید کرتے ہیں؟؟ کسی قوم کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسکی فوج کو اسکے عوام کا دشمن بنا دو، لاکھوں فوجیوں کو مارشل لاء لگا کر تین تین تنخواہیں اور مراعات لینے، قانونی اور غیر قانونی لوٹ مار، ہاؤسنگ سکیمیں بنانے اور ناجائز فنڈ بٹورنے کی عادت ڈال دو۔گھٹنے میں درد کی نشاندہی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم گھٹنا کاٹ دینے کا کہہ رہے ہیں، ہم درد کی نشان دہی کر کے اس کے عوامل کو دور کرنے کی بات کر رہے ہیں، فوج کو ختم کرنے کی بات اسی طرح ملک دشمنی ہے جس طرح عدلیہ، یا تعلیم و صحت کے ادارے ختم کرنے کی بات، اگر قومی اداروں میں فساد اور کرپشن پھیلی ہوئی ہے تو اسکو دور کرنا ہماری قومی حیات کی بقا کیلئے بہت ضروری ہے-میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں اور  میں پاک فوج میں موجود کرپشن، لوٹ مار اور ذمہ داریوں سے فرار کو ملک کیلئے تباہ کن سمجھتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں :  سنیے ! نثری مزاح کی بیوہ کو اب کئی خصم درکار ہیں۔سید عارف مصطفیٰ

قسم لے لو مرشد!   جب اس نے کہا کہ میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، لیکن  چائے کا بل ادا کرنا تھا اس لئے خاموشی کو غنیمت جانا اور اس کی طرف ہمہ تن گوش ہوگیا۔

” سات سال پہلے ہمارا یہی مقدس ادارہ بحرین کی پولیس میں بحرینی عوام کی جگہ پاکستانی کالعدم تنظیموں کے افراد یا ریٹائرڈ پاکستانی فوجیوں کو بھرتی کیلئے پیش کر رہا تھا،  جو اپنی جہالت اور تعصب کے اظہار کے ذریعے پاکستان کو قابل نفرت بنا رہے تھے، اس کے نتیجے   میں وہاں کے  مقامی افراد نے کئی بار پاکستانیوں پر حملے کیے  اور وہ آج بھی پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں۔

 شام میں گزشتہ سات سالوں  سے اردن کے راستے پاکستانی دہشتگرد داخل ہو رہے ہیں، ہزار سے زیادہ کی موت ہو چکی ہے، آئی ایس آئی کی ناک کے نیچے آزادی سے سوشل میڈیا پر بھرتی کی جا تی رہی تھی۔  اور ستمبر ۱۹۷۰  کا واقعہ کیسے بھولا جاسکتاہے، اردن میں آج کے بادشاہ بشارالاسد کا باپ حافظ البشار جو  اسرائیلی ایما پر فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتا تھا جبکہ اسکے اپنے فوج کے  جنرل اپنے ہم مذہب اور رشتہ داروں کو کچلنے سے کترا رہے تھے، تو ہمارے بہادر جنرل ضیاء الحق اس وقت بریگیڈیئر تھے اور وہاں پاک فوج کی طرف سے اردن کی فوج کی ٹریننگ کیلئے تعینات کمیشن کے سربراہ تھے، آپ نے فوراً  اس کام کیلئے خدمات فراہم کر دیں اور نہتے فلسطینیوں کو اس طرح کچلا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بھی بول اٹھا کہ اتنے فلسطینی تو ہم نے نہیں مارے جتنے ضیاء الحق نے مارے، یہ ہستی بعد میں مرد مومن مرد حق اور “شہید” کہلائی اور فلسطینی آج بھی اپنے بچوں کو black September کے پاکستانی مظالم کی داستانیں سناتے ہیں۔

پھر افغانستان میں امریکہ  نے روس کیلئے ویسا ہی پھندہ لگایا جیسا اس نے امریکہ کیلئے ویتنام میں لگایا تھا_ روس اس میں کود گیا اور ہم امریکی ہتھیاروں کیلئے سپلائی لائن بن گئے،روس کے اندر بھی امریکاہ بہادر کام کر رہا تھا اور ادھر جنگ میں اس کا نقصان ہو رہا تھا، نتیجے میں وہ ٹوٹ گیا اور افغانستان میں عوام کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا،ہماری ریاست نے سوچا کہ وہاں کے عوام کی حکومت کے بجاۓ ہماری کٹھ پتلی حکومت آنی چاہیے،ہم نے شرکت اقتدار کے ہر فارمولے کو ناکام بنایا اور بالآخر بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں ’’جنرل نصیر ﷲ بابر‘‘ نے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے مدارس اور فوجی چھاونیوں کے اشتراک و تعاون سے ’’طالبان‘‘ کو میدان میں اتارا، یہ ’’طالبان‘‘ ٹینک چلاتے تھے، ہیلی کاپٹر اڑاتے تھے، اسٹنگر میزائل فائر کرتے تھے، افغانستان کے گلبدین حکمت یار کو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ ’’کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ‘‘ انہوں نے بے بسی کا اظہار کیا کہ ’’میں پاکستانی فوج پر ہتھیار نہیں اٹھا سکتا۔‘‘ گلبدین حکمت یار نے کابل خالی کردیا،،طالبان کابل پر قابض ہوگئے، وارلارڈز کی لڑائیاں ختم ہوگئیں، “امن” قائم ہوگیا، یہ “امن” بے شک طالبان کے کھاتے میں لکھا گیا لیکن اس کے ذمہ دار وہی تھے جو بدامنی کے ذمہ دار تھے، جو افغانستان کی تزویرانی گہرائی میں اپنے بے دام غلاموں کے ذریعے حکمرانی کرنے کے خواہش مند تھے،اگر افغانستان میں عسکری مداخلت کے بجاۓ دفتر خارجہ کی مدد سے عوام سے رشتہ مضبوط کیا جاتا اور افغانستان کے عوام کے حق خود ارادیت کا احترم کیا جاتا تو آج وہاں کی عوام میں اتنے زیادہ دشمن پیدا نہ ہو چکے ہوتے جتنے کہ اب ہیں، اب  اگرچہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے مگر ہماری فوج نے آج تک جتنی بھی کارروائیاں کی ہیں ان کے نتیجے میں کشمیری عوام میں پاکستانیوں سے نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔پھر ہماری کشمیر کمیٹی کے سربراہ ” مولانا فضل الرحمن ” ہیں، جنہوں نے ان دس سالوں میں کیا کیا ہے سب ہی جانتے ہیں ، لیکن ہمارے مقدس ادارے کوایسی ہی ایک عضو معطل کی طرح کی کمیٹی چاہیے  تھی۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ  ہم کب تک پرائی جنگوں کی آگ اپنے اوپر لیتے رہیں گے؟ اس سے تو اچھا ہے کہ ہم باقاعدہ کرائے پر کام شروع کردیں۔پوری دنیا میں جو رسوائی ہمارے گلے آتی ہے اس کا کیا کریں۔

یہ بھی پڑھیں :   بابے کی سوٹی۔۔رانااورنگزیب

مرشد قسم لے لو جو میں نے کچھ بولاہو! شکورا تو اب بہت جذباتی ہوگیا تھا اور مسلسل بلا تکان بولے ہی جارہا تھا،کہنے لگا”فوج ہر وقت سیاست دانوں کے خلاف پروپیگنڈا تو کراتی رہتی ہے مگر ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہر جنگ میں یہ پینٹ گیلی کر کے، خواجہ سراؤں کی طرح بھاگ آۓ اور یہ سیاستداں ہی تھے جنہوں نے انہیں بچایا ,فوج وہ گندہ بچہ ہے جو باقی سب کو گندہ کہہ کر اپنی گندگی چھپاتا ہے, فوج نے آج تک کون سے محاذ پر مردوں کی طرح مقابلہ کیا ہے؟؟ کچھ بھی نہیں، الٹا فوج خود عوام کے خلاف لڑنے والے دہشتگردوں کو ٹریننگ اور اسلحہ دیتی ہے، کرپشن کے تمام ریکارڈ فوج نے بناۓ ہیں، فوجی افسر حرام کمیشن کھانا تو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، بچوں کو سفارش پر تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے سے نوکری دلوانے تک، سب کاموں میں فوج نے عالمی ریکارڈ بناۓ ہیں_فوج ہر محاذ سے بھاگی، بزدلوں کی طرح ہتھیار پھینک کر، اور واپس آ کر نشان حیدر کلیم کیا، بے غیرت!!(بے غیرت کہتے  ہوئے شکور نے تھوک اڑایا اور  اپنا ازار بند کھینچ کر دوبارہ باندھنے لگا) اور پھر تسلسل جاری رکھتے ہوئے بولا  ” سنہ ء  ۶۵  کی جنگ کا آغاز پاکستان نے کشمیر کے محاذ پر ۵، اگست ۶۵ سے ’آپریشن جبرالٹر ‘ کے نام سے شروع کیا تھا، جس میں ہمارے ’روائتی‘ انداز کو برقرار رکھا گیا،یعنی ’مجاہدوں اور آزادی پسندوں‘ کو آگے دھکیل کر پھر پاکستان آرمی کو پیچھے بھیج دیا جائے۔جو اپنے مقصد کشمیر کوآزاد کرانے میں ناکام ہو گیا۔تقریبا ۳۳۰۰۰ پاکستانی آرمی جوانوں نے اس میں حصہ لیا۔  پاکستان نے یکم ستمبر کو ایک نیا حملہ کیا۔جسے Operation Grand Salam کا نام دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے:  فرشتوں میں انسان

اس کا مقصد جموں کے قریب اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔ پاکستان کی آرمی قبضہ نہ کرسکی ، چنانچہ یہ آپریشن بھی ناکام ہوگیا۔ انڈیا نے اس کے جواب میں بین الاقوامی سرحد پر چھ ستمبر کو پاکستان پر حملہ کیا۔ ظاہر ہے، اسے ’رات کے اندھیرے‘ میں حملہ نہیں کہنا چاہیے ۔پاکستان دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو اس کے لئے تیار ہونا اور رہنا چاہیے  تھا۔ حملے عموماً  ’رات کے اندھیروں ‘ میں ہی ہوتے ہیں، خواہ کوئی بھی کرے۔ انڈین آرمی لاہور کے ائرپورٹ کے قریب پہنچ گئی۔ پاکستان آرمی نے بی آربی کے کچھ پل توڑ کر اور کچھ پر دفاع کرکے انڈیں آرمی کونہر کراس کرکے لاہور میں داخل ہونے سے روکا۔  انڈیا نے ۹ ستمبر کو سیالکوٹ پر ایک بڑا حملہ کیا۔ ٹینکوں کی ایک بڑی جنگ ہوئی۔ انڈیں فوج سیالکوٹ شہر کے قریبی دیہات تک پہنچ گئی۔اس کی توپوں کے گولے سیالکوٹ شہر کے گلی محلوں پر گرنے شروع ہوگئے ۔ اس جنگ میں انڈیا کے ۳۰۰۰ فوجی کام آئے۔ اور پاکستان کی طرف سے ۳۸۰۰ شہید ہوئے۔ انڈیا کی آرمی نے پاکستانی علاقے کا ۱۸۰۰ مربع کلومیٹر پر قبضہ کیا، جب کہ پاکستانی آرمی کے پاس انڈیا کا ۵۵۰ کلومیٹر۔ انڈیا نے ہمارے لاہور اور سیالکوٹ کے زرخیز علاقوں پر قبضہ کیا ، جب کہ پاکستان نے زیادہ تر بنجر سندھ کی سرحد یا پھر کشمیر کے چھمب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا۔ پاکستان کا رن آف کچھ کے علاقے میں کلیم ۹۰۰۰ مربع کلومیٹر کا تھا، جب کہ جنگ کے بعد پاکستان برطانیہ کی ثالثی سے صرف ۹۰۰ کلومیٹر لے کر راضی ہو گیا۔ مذکورہ جنگ شروع ہونے سے پہلے پاکستان معاشی ترقی کر رہا تھا۔ اس کی شرح نمو دیگر ایشائی ملکوں سے اچھی تھی۔ ملک میں نئی صنعتیں لگ رہی تھی، نئی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بن رہی تھے،  لیکن اس جنگ کے بعد پھر پاکستان کو سیاسی معاشی استحکام کبھی نصیب نہ ہوا۔پاکستان زوال اور اندرونی بیرونی کشیدگیوں میں ایسا گرا کہ آ ج تک نہ اٹھ سکا۔۔ پاکستان ایک اور جنگ میں آدھا ہوگیا۔ لیکن اس کے بعد ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ترقی اور خوشحالی کے در کھل گے۔

  پاکستان میں ۱۹۷۹ کا سال بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی سال ایران میں انقلاب آیا اور پاکستانی عوام بھی اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنے لگے کیوں کہ اسی دوران پاکستان میں علماء کی بھٹو مخالف تحریک نظام مصطفیٰ کے نتیجے میں ضیاء الحق مارشل لاء لگانے کے بعد بھٹو کو پھانسی دے چکا تھا, ان حالات کے پیش نظر تحریک نظام مصطفیٰ کو منظر سے ہٹانے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ضیاء الحق نے سنی اکثریت میں شیعہ خطرے کا احساس پیدا کیا،تحریک نظام مصطفیٰ میں سب سے زیادہ متحرک کردار دیوبندی علماء نے ادا کیا تھا لہذا انہی میں سے کچھ کو چن کر سپاہ صحابہ تشکیل  دی  گئی جن میں سے کوئی بھی مفتی نہیں تھا، دوسری طرف شیعہ حضرات میں اخباری رجحانات کو پھر سے زندہ کرنے اور اہلسنّت کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کی تبلیغ کے لیے ایسے ذاکرین میدان میں لاۓ گئے جنہوں نے ایک طرف شیعہ عوام میں مرجعیت کے خلاف اور دوسری طرف اہلسنّت کے مقدسات کی توہین کا سلسلہ شروع کیا، پھر یہ سلسلہ آہستہ آہستہ عوامی پذیرائی کے ساتھ خودکش دھماکوں تک جا پہنچا ، سپاہ صحابہ کے بانیوں نے اپنی تقریروں اور اقدامات سے ایسی آگ لگائی ہے جس میں کوئی رحم نہیں تھا، خدا کی قسم میں ان لوگوں کے اپنے یتیم ہونے والے بچوں کی باتیں سن کر اور پڑھ کر رویا ہوں، مگر ان کی غلطیوں نے، جن کی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی گنجائش نہیں تھی، ایسے مناظر بھی پیدا کیے  کہ طالبان نے پاکستانی  فوج کے غریب ملازم جب پکڑے تو سنی کا بیدردی سے گلہ کاٹا اور شیعہ کو پتھر کوٹنے والی مشین میں پاؤں کی جانب سے دینا شروع کیا اور پاؤں، پھر ٹانگوں، پھر دھڑ، پھر سر کا قیمہ بنایا، زندہ زندہ!!

یہ بھی پڑھیں :  میں کندیرا کا رقاص ہوں۔۔۔ انعام رانا

جس کے باپ یا بھائی  کا گلہ کاٹا گیا ہو یا اس کو پتھر کوٹنے والی مشین میں دیا گیا وہ کیسا شہری بنے  گا؟ان کو تو بنی امیہ کی طرف سے حضرت علی کرم اللہ  وجہہ کے زیر فرمان علاقوں پر بھیجے جانے والے بسر ابن ابی ارتاہ کی مثال یاد کرنی چاہیے جو اسی قبیلے پر مظالم کر کے عوام میں دہشت پیدا کرتا رہا تاکہ عوام اپنے قائد کو ڈر کے مارے تنہا چھوڑ دیں اور وہ صلح کر لے، اور آخر عمر میں ان مناظر کو یاد کر کر کے خود پاگل ہو گیا!!

بلوچستان میں خاموشی سے بلوچ علیحدگی پسندوں کیخلاف آپریشن کئی سالوں سے چل رہا ہے، ان فیصلوں کے لئے کبھی نہ پارلیمنٹ کا انتظار کیا گیا، نہ قومی اتفاقِ رائے مانگا گیا ؟مگر کبھی بھی لشکر جھنگوی بلوچستان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیاجس کو بلوچستان میں نہ تو اتنی عوامی حمایت حاصل ہے نہ ہی وہ پورے بلوچستان میں پھیلا ہوا ہے۔لشکر جھنگوی کو بلوچستان میں وہی مقام حاصل ہے جو البدر اور الشمس کو بنگالیوں کے قتل عام میں تھا اور لشکر جھنگوی شیعہ کشی کے ذریعے عالمی اور مقامی توجہ بلوچستان کے سلگتے مسئلے سے بھی ہٹا دیتی ہے۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی مذہبی لشکروں( جنھیں عرف عام میں دہشتگرد کہا جاتا ہے) کا استعمال ہماری فوج کی اصل حکمت عملی بن گیا، ۱۹۴۸ میں کشمیر میں فوج کی جگہ مذہبی لشکر بنائے گئے، ۱۹۷۱ میں بنگال میں فوج کی جگہ مذہبی لشکر بنائے گئے، جہاد افغانستان میں فوج کی جگہ مذہبی لشکر بنے،جہاد کشمیر میں فوج کی جگہ مذہبی لشکر بنے،کارگل میں بھی فوج کی جگہ مذہبی لشکر، اب بلوچستان میں فوج کی جگہ مذہبی لشکر ہیں، ایسا لگتا ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور تصادم کیلئے مذہبی لشکر ہی ہمارا مقصد ہیں۔اس طرح کے کئی دہشتگردوں کو دکھاوے کیلئے پکڑا اور رہا کیا گیا ہے، لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں کا تالا توڑے بغیر کوئٹہ میں فوجی تحویل سے بھاگنانہیں بھولنا چاہیے  ,فروری ۲۰۱۳ میں لشکرجھنگوی کے عثمان کرد اور داؤد بادینی، جنھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پھانسی کی سزا دی تھی، پاک فوج کی گاڑی میں کنٹونمنٹ بورڈ کی جیل سے نکال کر افغانستان بھیجا گیا، اور وہ پھر کچھ عرصے بعد آ گئے۔مئی ۲۰۱۳  میں پاک فوج نے لشکر جھنگوی کے محمد عمر لہڑی اور میر احمد لہڑی کو کینٹ پولیس سٹیشن کوئٹہ سے رات کی تاریکی میں تالہ توڑے بغیر، سرکاری گاڑیوں میں فرار کرایا,ان لوگوں کو دسمبر ۲۰۱۲  اور جنوری ۲۰۱۳ میں دھماکوں کے بعد شیعوں کے شدید احتجاج   کے نتیجے میں ایف سی نے بڑی مشکل سے پکڑا تھا, عصمت معاویہ کو معافی دے دی گئی، احسان اللہ احسان بغیر کسی مقدمے کے باعزت لگژری قید میں ہے، یہی فوج ہے جو میرے اور تمھارے دفاع کے نام پر پیسہ  کھانے کیلئے دہشتگردوں کو پالتی ہے، اگر خطرہ نہ ہو تو کوئی عسکری بنک، ڈیفینس ہاؤسنگ، علیحدہ تعلیمی نظام، علیحدہ ہسپتال، غریب ملک میں شاہانہ زندگی گزارنے کے پیسے کیوں دے؟؟یہ فوج کی پالیسی ہے عوام کو لوٹو، کوئی بولے تو مار دو، کیا کسی  کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ پاکستان جیسے جھگیوں سے بھرے ملک میں لاکھوں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسر یورپ اور امریکہ جیسے امیر ملکوں کے لوگوں کا معیار زندگی کس طرح اپناۓ ہوۓ ہیں؟میں یا مجھ جیسے لوگ فوج کے دشمن نہیں، مگریہ لوگ اس غریب ملک میں عیاشی پر کبھی سمجھوتا نہیں کر سکتے، اس لیے ان کے پاس ہمیں ننگی گالیاں دینے اور مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں , ڈی ایچ اے کے ایئر کنڈیشنر پاک بھارت نفرت کی آگ سے جلتے ہیں، تمہیں بھارت سے ڈرا کر پیسے نکلوانے والی فوج نے ہمیشہ بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں،  جس آبی جارحیت کا ذکر کر کے تمہارا بلڈ پریشر بڑھایا جاتا ہے وہ جنرل ایوب خان نے سندھ طاس معاہدہ کر کے شروع کی، جب تین دریا مفت میں بھارتی صوبہ پنجاب کو دے دیئے گئے،فوج کو دہشتگردی کی سرپرستی اور ملکی دفاع کی اپنی ذمہ داریاں پینٹ گیلی کر کے پرائیویٹ لشکروں کے ہاتھ میں دینے سے صرف سیاست دان ہی باز رکھ سکتے ہیں ، اسی لئے جب بھی کوئی عوامی حکومت طاقت میں آنے لگتی ہے تو اس میں دھڑے بندیاں کروا دی جاتی ہیں،کبھی صوفی محمد شریعت کےلئے نکل کھڑا ہوتا ہے تو کبھی  لبیک یا رسول اللہ  والے اسلام آباد کا گھیرا تنگ کردیتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اسلام آباد دھرنے کا کھانا کونسے سرکاری میس سے آتا ہے اور کامیاب دھرنے کے  بعد اب کو ن فی بندہ کرایہ بانٹتاہے ؟کیا یہ سب کو نہیں پتہ؟ اور اسی وجہ سے فوج صحافی خرید کر، یا حاضر سروس فوجی افسر فیس بک پیج بنا کر سیاست دانوں اور قوم کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں، دفاع کا پیسہ کھانا تو انہیں پسند ہے مگر دفاع کرنے کا نام سن کر ہی ان کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے، پاکستان کےمیڈیا پر فوج کے گانے چلانے سے لے کر پاکستان کے نصاب میں فوجی شجاعت کے جھوٹے قصے لکھنے تک، عوام کو سیاستدانوں سے لڑانے اور فوج سے غافل رکھنے کی سازش جاری ہے،سیاست میں فوج کی مداخلت ایوب کے زمانے سے ہو رہی ہے،اگر ضیاء الحق مشرف کے زمانے میں ہوتا تو وہی کچھ کرتا جو مشرف نے کیا، اگر مشرف ضیاء کے زمانے میں ہوتا تو وہی کرتا جو ضیاء نے کیا، اگر یہ دونوں ایوب کے زمانے میں ہوتے تو وہی کرتے جو ایوب نے کیا،یہ سب یحییٰ خان تھے، افراد کے ناموں کا مسئلہ ہی نہیں ہے ،آرمی کی پالیسی افراد کی محتاج نہیں ہوتی، مفادات کی محتاج ہوتی ہے، ار ےبھولے بادشاہ  ! سعودی عرب بیچارہ امریکہ  کی کٹھ پتلی ہے، یہاں کوئی کعبے کی حفاظت کا مسئلہ نہیں ہے؛ وہ ہمارے ملک میں کیسے دہشتگردی کراسکتا ہے  اس کو کیوں دہشتگردی کا ذمہ دار کہتے ہو؟یہاں تو گھر کو آگ گھر کے چراغوں نے لگائی ہے ۔جو اصلی لٹیرا ہے اس کا نام لو، ایوب، یحییٰ، ضیاء، مشرف، یہ جو کچھ کرتے رہے، وہ فوج کی پالیسی تھی، پوری کی پوری فوج کی، بات کو گھمایا پھرایا، چھپایا نہ کرو، “آرمی میں کچھ لوگ” والی خواجہ سراؤں کی باتیں نہ کیا کرو!

یہ بھی پڑھیں :  برصغیر کی آزادی میں فوج کا کردار

بہادر افواج کے افسر جب روتی آنکھوں سے مزے کی نوکری سے ریٹائر ہوتے ہیں تو انھیں قیمتی پلاٹ اور گھر سستے داموں فراہم کیے  جاتے ہیں جنھیں وہ مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں_ NUST جیسی یونیورسٹیاں کس ملک کی افواج کی ملکیت ہیں جہاں میرٹ کا کھلا قتل عام ہوتا ہو،بچوں کی تعلیم، صحت، اچھی رہائش، یہ سب کس نام پر عوام کا ایک طبقہ حاصل کرتا ہے اور باقی محروم ہیں؟؟پاکستانی فوج وہ شوہر ہے جو کبھی ظلم و تشدد سے باز نہیں آۓ گا، یہی تاریخ ہے،یہ پہلے تمھارے دیے ہوۓ اسلحے سے تمہیں ماریں گے، پھر تمہاری عورتوں کی عزتیں لوٹیں گے، پھر تم اٹھ کھڑے ہو گے، پھر یہ بےغیرتوں کی طرح اپنے آپ کو سرنڈر کر کے زندگی کی بھیک مانگیں گے، جیسا بنگالیوں کی نسلیں تبدیل کرنے کا خواب دیکھتے وقت کیا،تم سمجھتے ہو یہ تمھارے غیرت مند بیٹے ہیں؟سیلاب کے وقت ان کے ہاتھ لگنے والی لڑکیوں سے کبھی تصدیق کرائی؟کبھی فیس بک پر موجود فوجی کے ذہن میں جنسی بےراہ روی کا اندازہ کیا؟انہوں نے بنگالیوں کی عزتیں لوٹنے والوں، انھیں بیدردی سے قتل کرنے والوں کو بہترین سہولیات زندگی دیں اور مرنے پر قومی پرچم میں لپیٹ کر، سلامی دے کر سپرد خاک کیا، وہی مجرم جن کے جرائم حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں واضح درج ہیں!!

فوج کے غریب ملازموں سے نہ تو مجھے گلہ ہے نہ ان پر تنقید کی ہے، گلہ فوج سے ہے، تم لوگ جرنیلوں اور جوانوں کی تقسیم کر کے اپنے ذہن کو نشے میں رکھنا چاہتے ہو تو رکھ لو، یہاں آ کر مت لکھنا کہ جوان یہ، جوان وہ، یہ فوجی جوان ابھی کٹھ پتلیاں ہیں اور جب یہ افسر بنتے ہیں تو یہ بھی کرپشن کی روایت کو برقرار رکھتے ہیں،کوئی ایک جوان دکھا دو جو ڈیفینس ہاؤسنگ کے خلاف ہو، فوجیوں کے بچوں کیلئے الگ تعلیمی نظام، الگ ہسپتال کے خلاف ہو؟ مارشل لاء لگانے والوں کے خلاف ہو؟ دہشتگردی اور بدامنی کے ذارئع استعمال کر کے عوام کی جذباتی بلیک میلنگ کے خلاف ہو؟ یہ بھی کہ تم عوام کو گلی کے کتے سمجھتے ہیں!! اگر واقعی کسی  انسان کے دل میں پاکستان میں بم دھماکوں میں جلنے والی لاشوں کا درد ہے، زخمی ہونے والے معذوروں کا درد ہے،. ٹارگٹ کلنگ کا درد ہے، اسکو عدلیہ وغیرہ جیسے خیالی اداروں کے بجاۓ اصلی طاقت رکھنے والی، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو ننگی گالیاں دے کر روندنے والی عیاش فوج کا گریبان پکڑنا چاہیے!!

کسی فوج کیلئے اس سے بڑھ کر اور ذلت کا مقام کیا ہو گا کہ اسے زید حامد اور عامر لیاقت جیسے مسخروں اور بندروں کا ناچ دکھانے کی ضرورت پڑتی ہو؟ تمہیں قوم پر اعتماد اس لیے نہیں ہے کہ تمھارے دل میں چور ہے، تم جانتے ہو کہ اصلیت کھل گئی تو قوم احتساب کرے گی!  اگر تم میں انسانی اقدار ہوتیں تو کبھی اپنی ہی قوم کو زید حامد اور عامر لیاقت جیسے مسخروں کے ذریعے بیوقوف نہ بناتے،اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تم انکی عزت کے رکھوالے ہو انھیں جان لینا چاہیے جس کے اپنےپاس عزت نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا؟عوام کے دل و دماغ کے ساتھ فٹبال کھیلنے کی بجاۓ ان کو اپنا سمجھو، عوام بھی تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے!!

یہ بھی پڑھیں :  مثبت شدت پسند رویے ۔۔علی خان

بس مرشد ! اس سے آگے کی سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی اور شکورے کو میں کچھ بولے بغیر کاونٹر پر بل دینے چلا گیا، لیکن شکورے کے گالوں سے بہتے آنسوؤں کی منطق مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: شکورے کی جذباتی تقریر اور خیالات سے ضروری نہیں ہے کہ کمپنی اتفاق کرے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کرائے دیاں فوجاں۔۔منصور ندیم

Leave a Reply