مردہ خانے میں عورت (ناول/1)۔۔مشرف عالم ذوقی

یہاں کوئی ایسا نہیں
جو یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہو
کہ ہم زندہ ہیں
۔۔۔۔
مارشہوت را بکش در ابتدا
ورنہ اینک گشت مارت اژدہا
(خواہش کے سانپ کو ابتدا میں ہی ماردو ورنہ
دیر ہونے پر ازدہا قابوسے باہر ہوجائے گا)
— مولانا روم

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے
— اقبال

خوف اس بات کا نہیں
کہ ندی گہری ہے
اور مگر مچھ بڑی تعداد میں ہیں
خوف اس بات کا ہے
کہ کچھ مگر مچھ ہمارے اپنے بھی ہیں‘

آغازیہ

’ وہاں بہت سے بند ر ہیں‘
’ جہاں بندر ہوتے ہیں وہاں کتے بھی ہوتے ہیں۔‘
بطور مصنف میں اس کے جواب سے مطمئن نہیں تھا۔ سڑک کنارے ایک مداری والا تھا۔ مداری والے سے کچھ قدم آگے ڈولفن مچھلی جھولہ جھول رہی تھی۔۔۔ اور ایک بندر آنکھوں پر چشمہ لگائے، ایک درخت کے سایے میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ایک تتلی تھی جو مداری کے آس پاس منڈراتی ہوئی صوفیانہ رقص میں مشغول تھی۔ اس کے داہنے طرف چوہوں کی ایک قطار تھی۔ اور چوہے کسی جشن میں شامل ہونے کے لیے جارہے تھے۔۔۔ اگر یہ سب عجیب ہے تو اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا تھا، اس سے کہیں زیادہ عجیب تھا۔۔۔ اور میں کہتا ہوں، ناول کے صفحات پر کبھی کسی مصنف کو چوہے کی طرح دوڑ کر نہیں آنا چاہیے اور یہ بات مسیح سپرا ہی کرسکتا تھا۔ میں اس سے کئی بار ملا۔ بندروں کے درمیان، کتوں کے درمیان اورریچھوں کے اس پارک میں، جہاں میں نے کبھی ڈولفن نہیں دیکھی مگر مسیح سپرا کہتا تھا کہ ڈولفن ہے اور اس نے کئی بار ڈولفن کوپانی میں انگڑائی لیتے ہوئے دیکھا ہے۔

ڈولفن،بندر، کتے اور مسیح سپرا کے درمیان اچانک ملک آگیا تھا۔۔۔ اور ملک بھی ایسا، جس کے ثقافتی اور تمدنی رنگ کے بارے میں، سب کے اپنے اپنے چشمے تھے۔ ہزاروں سال، بلکہ لاکھوں سال اور ایک وہ بھی تھا جس نے چنبل گھاٹی میں پڑی دراڑوں کو دکھاکر بتایا تھا کہ یہاں اڑنے والے اور پاؤں سے چلنے والے ڈائنا سور ہوا کرتے تھے۔ پہلے یہاں ان کے قدموں کے نشان تھے۔ اب ان چٹانوں پر گھاس اگ آئی ہے۔ بلکہ چٹانوں پر ڈائنا سور کے ڈی این اے اسی طرح تلاش کیے جاسکتے ہیں، جیسے ان دو بندروں کے، جو درختوں کی شاخوں پر چھلانگ لگاتے ہوئے جب ایک دوسرے سے ملے تو ان کے کوٹ کی جیب میں دو الگ الگ کاغذ کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ ایک مسودہ زرد رنگ کا تھا اور یقین ہے کہ یہ مسودہ آزادی کے فوراً بعد کا تھا اور اسی لیے کاغذ بوسیدہ تھا اور ہاتھ میں تھامنے پر کاغذ کے اڑ جانے کا خطرہ تھا۔ دوسرے بند رکے ہا تھ میں نیا کاغذ تھا اور ایسا لگتا تھا، جیسے یہ مسودہ ابھی ابھی تیار ہوا ہو۔۔۔ اور اسی لیے بطور مصنف، میں یاد کرسکتا ہوں کہ ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔
پہلے نے بوسیدہ کاغذ نکا لا۔
دوسرے نے نیا۔
پہلے نے کہا۔ ’ضرورت نہیں۔‘
دوسرا ہنسا۔۔۔۔’کاغذ دیکھو۔۔۔ پڑھا بھی نہیں جاتا۔‘
پہلا ہنسا۔۔۔’کاغذ اس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ۔۔۔۔‘
دوسرا مطمئن تھا۔۔۔ اور اسی لیے میں نے نیا مسودہ۔۔۔۔۔‘
پہلے نے بوسیدہ کاغذ زمین پر پھینک دیا۔ جوتے سے مسل دیا۔ اب وہ مطمئن تھا۔
’ اس کی شکل دیکھو۔۔۔‘
’ کس کی؟‘
’ مسودے کی۔۔۔۔؟‘
’ مسودہ کہاں ہے‘ دوسرا ہنسا۔‘ اب وہ مٹی کا حصہ ہے۔‘
’ یہ غلط ہے۔‘ پہلا سنجیدہ تھا۔ اس میں مٹی مت لاؤ۔ مٹی کا مطلب راشٹر واد۔‘
’ ہاں یہ تو ہے۔۔۔‘
’ ایسے بولو۔۔۔ یہ شمسان کا حصہ ہے۔۔۔۔‘
پہلا مسکرایا۔۔۔۔ ’یہ قبر کا حصہ ہے۔۔۔۔‘
دوسرا مطمئن تھا۔ ’یہ زیادہ اچھا ہے۔۔۔‘
پہلے نے کہا۔ ’اب ہمارے پاس نیا مسودہ ہے۔۔۔۔۔‘
’ نیا کاغذ۔۔۔‘
’ لیکن کیا اس مسودے کو۔۔۔۔؟‘
’ کیا کبھی ہم نے دوسروں کے بارے میں سوچا ہے؟‘ پہلے نے ٹھہاکہ لگایا۔۔۔
’ کبھی نہیں۔‘
پہلا اچانک چونکا۔’یہ آندھی کیسی ہے۔۔۔‘
’ کافی تیز ہے۔۔۔ اور ہمارے درختوں سے آرہی ہے۔‘
’ نہیں۔ درختوں کے پیچھے سے بھی۔‘
’ آندھی تو آئے گی ہی۔‘ دوسرے کے چہرے پر سوالیہ نشان تھے۔۔۔’کیا وہ آسانی سے چلے جائیں گے۔؟‘
’ اس کی امید کم ہے۔۔۔ اور اسی لیے آندھی۔۔۔۔‘ وہ کہتے کہتے رُک گیا۔
’ پہلا مطمئن تھا۔ انہیں گولیور کے دیس بھیج دیں گے۔‘
دوسرا آہستہ سے بولا۔ ’گو لیور کے دیس سے بندر اب یہاں آچکے ہیں۔‘ وہ ہنسا۔۔۔ اور اب پرانی تاریخ کی جگہ نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔
اور جس وقت یہ مکالمہ کررہے تھے، اس وقت زمین بہت تیزی سے ڈول رہی تھی اور مسیح سپرا کو احساس تھا کہ یونان کی دیو مالائی کہانیوں سے نکل کر سمندر کے دیوتا بوسیڈان نے اپنی برچھی سے زمین کو چھوا ہے۔۔۔ اور یقینا جب جب وہ ایسا کرتا ہے، زمین ہلنے لگتی ہے۔
اور اس وقت زمین ہل رہی تھی، ایک کہرام مچا تھا— مسیح سپرا نے آہستہ سے کہا، وہ بندروں سے خوفزدہ نہیں ہے۔ مگر وہ گم ہونے جارہا ہے۔
اور وہ اچانک دیکھتے ہی دیکھتے گم ہوگیا۔۔۔
مجھے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جھاڑیوں کے درمیان ایک نیم پلیٹ ملی۔ اس پر مردہ خانہ تحریر تھا۔ سامنے ایک دروازہ تھا، جس پر تالہ لگا تھا۔
یونانی دیوتا بوسیڈان کو غصہ آیا ہوا تھا اور زمین مسلسل ہل رہی تھی۔

باب اوّل
اندھیرا، موت اورمسیح سپرا
(۱)
زندگی آپ میں سے کچھ نہ کچھ خالی کرجاتی ہے۔ پیدائش سے موت تک یعنی آخری سانس تک روح کا باقی اثاثہ بھی آپ سے چھین لیتی ہے اور سرد جسم دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔اس سرد جسم کا قصہ یوں ہے کہ کچھ دیر تک یونہی لاوارث چھوڑ دیجیے تو مکھیاں بیٹھنے لگتی ہیں کچھ دیر اور چھوڑ دیجیے تو چیونٹیاں سوراخوں سے نکل کر خوراک بنا لیتی ہیں۔ اور کچھ ہی گھنٹوں میں اس سرد جسم کی بدبو پھیلنے لگتی ہے جو کچھ دیر پہلے یا کچھ ماہ قبل جب زندہ تھا تو خواہشات کا مجسمہ تھا۔ اس مجسمے میں تپش بھی تھی اور خواہش بھی۔روح کا اثاثہ چلا گیا تو ایک بے حس جسم، جس پر کوّے بھی منڈرائیں گے اور گدھ بھی۔اور مسیح سپرا کے لیے یہ معاملہ یوں دلچسپ تھا کہ اس نے خو د کو زندگی میں ہی مردہ تصور کرلیا تھا۔ وہ تین زبانیں جانتا تھا۔ اردو، ہندی اور انگریزی۔ اسی لیے وہ سوچتا تھا اور اس وقت سوچتا تھا جب اس نے خود کو مردہ تصور نہیں کیا تھا کہ انگریزی میں موت کو دیتھ کہا جاتا ہے۔ دیتھ سے د نکال دیجیے تو ایٹ یا کھا نے کے لیے اُمنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے ہی موت آپ کا شکار کرنے یا آپ کو کھانے بیٹھ جاتی ہے۔ہندی میں موت کے لیے مرتیو کا لفظ ہے۔ آپ م نکال دیجیے تو ریتو کی موسیقی پیدا ہوتی ہے۔ مگر یہ موسیقی اس قسم کی ہے جو آپ کو اداسی اور موت کی طرف لے جاتی ہے۔ یعنی موت کا موسم۔ موت قریب ہے۔ آپ بدنصیب ہیں کہ پیدا ہوگئے۔ اب ساری زندگی مرتیو کی رتیو کا انتظار کیجیے۔ اردو میں مرنا سے م نکال دیجیے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ رورہے ہیں۔ اور یہ رونا زندگی کی صداقت ہے۔ پیدائش سے موت تک انسان روتا ہی ہے۔ موت سے م نکال دیجیے تو بھوت کا تصور پیدا ہوتاہے۔ یعنی انسان پیدائش سے موت تک بھوت رہتا ہے۔ ہندی میں بھوت ماضی کو کہتے ہیں۔یعنی انسان زندگی نہیں گزارتاہے بلکہ ایک طرح سے بھوت کال یا ماضی میں ہوتا ہے جہاں تاریخ کے گڑے مردے ہوتے ہیں اور یہ مردے زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔
مسیح سپرا کو موت کا خیال کسی سایے کی طرح نظر آتا تھا، ایسا سایہ جو سفید لباس میں معلق ہو یا نیلے آسمان پر چلتے سفید بادلوں میں وہ موت کا عکس دیکھا کرتا تھا۔ اور جب اس نے سوچ لیا کہ وہ مرچکا ہے تو سب سے پہلے اسے سرد خانے میں کام کرنے والے ملازم مجومدار کا خیال آیا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مجومدار سے کئی بار ملا۔ اور مجومدار سردخانہ کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں بتایا کرتا تھا۔جیسے مجومدار نے بتایا کہ مردے خاموش رہ کر باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتیں اتنی مزیدار ہوا کرتی ہیں کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر نکل کر، باہر کی دنیا کو دیکھنے کا خیال بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔یہ مجومدار نے ہی بتایا کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر جو دنیا ہے، وہ بھی ایک مردہ خانہ ہے۔ وہاں شور ہے، سازشیں ہیں اوریہاں تنہائی۔ کوئی سازش نہیں۔ مجومدارنے ہنستے ہوئے بتایا۔۔۔۔۔ دیکھویہ سینگیں۔۔۔۔۔‘
’ سر میں؟‘
’ لو، سینگیں کہاں ہوتی ہیں؟‘
’ لیکن سر میں سینگیں۔۔۔۔نظر تو نہیں آتیں۔‘
’ مجھے آتی ہے۔ سینگیں چیختی بھی ہیں۔‘
’ لیکن سینگیں کہاں سے آئیں۔؟‘
’ ٹھنڈ سے۔‘
’ ٹھنڈ سے؟‘
’ لاشوں سے او ر ان کی باتوں سے۔‘
مسیح سپرا کے لیے اس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ بیسیوں بار وہ ایسی سینگیں اپنے سر پر بھی محسوس کرچکا تھا، جب اس کی بیوی زندہ تھی اور کسی بات پر غصہ ہوجاتی تھی تو اچانک اس کے سر پر بھی سینگیں پیدا ہوجاتی تھیں۔ وہ ہنستا تو مرحومہ کے سر کی سینگیں اور بڑی ہوجاتی تھیں۔ پھر کچھ دیر میں یہ سینگیں غائب ہوجاتی تھیں۔سڑک پر آوارہ گردی کرتے ہوئے کتنے ہی لوگوں کے سروں پر اس نے یہ سینگیں دیکھی تھیں۔ اس لیے مسیح سپرا کو مجومدار کی سینگوں میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، مگر مجومدار نے مردہ خانے کے بارے میں جو کچھ بتایا، اس کے تجسس میں اضافہ کرنے ک لیے کافی تھا۔
’ زندہ یہی لوگ ہیں۔ جو باہر ہیں، سب مرے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔اور اسی لیے میں بھی زندہ ہوں، کیونکہ ان کے درمیان ہوں۔‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply