• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ڈاکٹر مشکور حسین یاد کی سلام نگاری فکر و فن کے آئینے میں۔۔۔ سید شاہ زمان شمسی

ڈاکٹر مشکور حسین یاد کی سلام نگاری فکر و فن کے آئینے میں۔۔۔ سید شاہ زمان شمسی

قیام پاکستان کے بعد اردو کے سلام نگاروں نے سادہ زبان کے استعمال کے باوجود بڑے معنیٰ خیز اور قابلِ قدر سلاموں کا ذخیرہ مہیا کیا ہے۔ یاد صاحب کے سلاموں کا مطالعہ کرتے وقت یہ محسوس ہوا کہ انھوں نے اپنی مذہبی شاعری میں تخلیقی جہتوں کا استعمال خوبصورتی سے مزین کیا ہے۔
ڈاکٹر مشکور حسین یاد نے خیال اور اسلوب کی سطح پر ایسی جدتیں پیدا کی ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ بعض شعراء کے نزدیک شعر میں کوئی چونکا دینے والی بات کہہ دی جائے تو جدت پیدا ہوتی ہے۔ تاہم ڈاکٹر مشکور حسین یاد نے قدیم خیالات اور مستعمل موضوع کو اس سلیقے اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس میں ازسرِنو تازگی پیدا ہوگئی ہے اور معنوی حوالے سے ایک بصیرت افروز منظر نامہ نگاہوں میں ابھرتا ہے۔
عقیدتی اور مذہبی شاعری کا رنگ ڈاکٹر مشکور حسین یاد کے سلاموں میں نظر آتا ہے۔ وہیں پر ان کے اسلوب نے برصغیر میں تہذیبِ نو کی بنیاد رکھی۔ ان کے سلاموں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ثقافت کے نمایاں اثرات ہماری شاعری میں در آئے ہیں اب ہم ان کے مختلف سلاموں کے اشعار کا تجزیہ کرتے ہیں۔
ذکرِ شبیر تو ہے لفظ و بیاں سے آگے
دل کا غم لے کے بڑھو آہ و فغاں سے آگے
اس شعر میں داخلی کیفیت کو بڑی خوبصورتی سے رجائیت کے پہلو میں بیان کیا گیا۔ یاد صاحب نے اپنے افکار و اسالیب سے سلام کو جو نئے ذائقے بخشے ہیں وہ زندگی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے عصری مسائل سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔
وہی کر سکتا ہے عرفان حسین ابنِ علی
دیکھ سکتا ہے جو ہر خطرہء جاں سے آگے
تشریح طلب شعر میں یاد صاحب نے بہادری شجاعت اور دلیری کا مضمون باندھا ہے۔ ڈر وحشت اور خوف کے سائے میں پرورش پانے والی زندگی انسان کو مایوسیوں سے ہم کنار کر دیتی ہے عشقِ حسین علیہ السّلام انسان کو ہر خوف سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
ڈی ایس ایلیٹ نے مذہبی شاعری کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے معیار اور تخلیقی اسلوب کی دعوت دینا مشکل کام ہے اس لیے کہ ان مذہبی روایات اور واقعات سے سامعین اور ناظرین تو اچھی طرح واقف ہوتے ہیں جو تخلیق میں پیش کئے گئے چنانچہ کثر داد پہلے سے معلوم واقعات اور ان کے تقدس کے حوالے سے لازم آجاتی ہے لیکن اس بات پر توجہ دینے کی ہے کہ تخلیق کار نے اپنی تخلیق میں ادبی اور شعری محاسن کو کس طرح مذہبی عقائد پر فوقیت دی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر مشکور حسین یاد کے سلام بطور خاص قابل توجہ اور لائقِ مطالعہ ہیں۔ کربلا، امام حسین علیہ السلام اور ان کی بے مثال قربانی کے واقعات ہمیشہ سے ہماری مذہبی زندگی کا حصہ رہے ہیں اب ان میں اپنے عہد کا شعور اور مزاج کے مطابق ایسا اسلوب نظر آتا ہے جس میں جدت کے پھول بھی کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وصف بدرجہ اتم ڈاکٹر مشکور حسین یاد کے سلاموں میں موجود ہے۔ مشکور صاحب مرحوم کے سلاموں پر روایتِ کہن کا خول چڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن وہ وضعِ کہن پر اڑ کر قدیم لفظیات کو مستعمل نہیں کرتے بلکہ جدید تقاضوں کے مطابق اپنی ذہنی تخلیقات کو جدت کے سانچے سے گزار کر وجود میں لاتے ہیں۔ زیرِ نظر شعر میں جدت کے آہنگ میں عاشقانِ حسین علیہ السلام کے لیے نصیحت آموز پیغام بھی موجود ہے
ہم نے وفورِ درد میں سمجھا کچھ اور ہے
شبیر تیرے غم کا تقاضا کچھ اور ہے
ڈاکٹر مشکور حسین یاد نے جب سلام کو نیا رنگ و آہنگ دینے کا جہاد شروع کیا تو انھوں نے سب سے پہلے تمام کلاسیکی سلاموں کا مطالعہ کیا، اس کے رموز و علائم کو سمجھا اسی مطالعے کے دوران انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر سلام کو نئی زندگی دینا ہے تو اس میں کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔
غمِ حسین کو سینے سے کس طرح نہ لگائیں
یہ دل کی تاب ہے تب ہے طلب ہے کیا کہیے
یاد صاحب کے اس شعر میں انسانی قدروں کی بلندی کا احساس موجود ہے۔ معرفتِ غم کے سبب وہ زندگی گزارنے کا ہنر بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قنوطیت پسند اور شکست خوردہ ذہنیت کے حامل انسان کے اندر بلند ہمتی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں کہ غم حسین علیہ السّلام ہی غم کا صادق جذبہ ہے جو انسانیت کے لیے عظیم تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
آتا ہے یاد اصغرِ معصوم کا گلا!
انسان کس طرح کا ہے قاتل کہا نہ جائے
حالیہ واقعہ پیشِ نظر تھا کہ سات سال کی بچی کو اس کے باپ نے میانوالی میں بے دردی سے پانچ گولیاں مار کے قتل کر دیا تھا۔ یہ بے راہ روی، بے ضمیری، بے حسی، سنگدلی اس معاشرے میں کیوں بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ یہ معاشرہ شہداء کربلا کے غم کی حقیقی معرفت سے کوسوں دور ہے۔
رہِ حق میں ایک یہ بھی ہے شعارِ حق پرستی
زرِ۔ اشک سے مزین رخِ کائنات کرنا
یہ بیک وقت سلام اور غزل دونوں اصنافِ سخن میں کہا گیا شعر معلوم ہوتا ہے۔ جبر و استحصال کی زندگی ایک حساس آدمی جابر و ظالم حکمران کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکتا مگر مظلوم کی حیثیت سے گریہ و زاری کے سبب ظلم کے خلاف احتجاج ضرور کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر مشکور حسین یاد نے سلام نگاری کو ایک صنفِ سخن کے طور پر زندہ رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے سلاموں میں کئی تخلیقی رمزیں استعمال کی ہیں۔ یاد صاحب اپنی جدت کاری اور فنی و معنوی کاوشات میں تاریخی واقعات کے ذریعے ایسے گوشوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو اس سے پہلے نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ قلتِ وقت اور تنگیِ صفحات مانع ہے ورنہ سلاموں کے مزید فکری و فنی پہلووؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا۔ اللہ تعالیٰ بحقِ معصومین علیھم السّلام شعر و ادب کی اس صنف کو قیمتی ہیرے کی چمک دمک کی مانند ہمیشہ باقی رکھے آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply