میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی جان آپ افواج پاکستان میں کیوں شامل ہونا چاہتے ہو؟
میرے سوال پر اس نے جو جواب دیا اس نے لمحے بھر کے لیے مجھے مبہوت کردیا تھا..
میں اس دن سیالکوٹ میں والدہ اور ہمشیرہ کو ہسپتال میں مل کر بھاگم بھاگ سیالکوٹ بس اسٹینڈ پر پہنچا تھا کہ مجھے راول پنڈی پہنچنا تھا. ایک تیار گاڑی کی آخری نشست مجھے ملی تھی جس کی تنگی کی وجہ سے بیٹھنا دشوار تھا مگر پہنچنا ضروری تھا تو چار پانچ گھنٹے کی اس تکلیف کو برداشت کرنا ہی تھا.
میرے ساتھ والی سیٹ پر سیالکوٹ کا ہی ایک کھلنڈرا سا نوجوان بیٹھا تھا باتوں باتوں میں اس سے تعارف ہوا تو وہ بتانے لگا کہ میں آئی ایس ایس بی کی تیاری کے لیے راولپنڈی جا رہا ہوں. اس کے ساتھ گپ شپ شروع ہوگئی کہ چلو سفر اچھا کٹ جائے گا. میں نے اس سے پوچھا کہ فوج ہی میں کیوں جانا چاہتے ہو کوئی اور کام کیوں نہیں کر لیتے، ایف ایس سی میں آپ کے اچھے مارکس ہیں انجیئنرنگ میں جاؤ بہت اسکوپ ہے ادھر کیوں نہیں جاتے تو کہنے لگا کہ بچپن سے ہی فوج میں جانے کا شوق ہے. میں نے کہا کہ یہ ہی شوق کیوں کوئی اور کیوں نہیں؟ کوئی وجہ بیان کرو اس شوق کی تو وہ لمحے بھر کے لیے رک کر میرے چہرے کو دیکھنا شروع ہوا اور بولا کہ شہید ہونا چاہتا ہوں۔۔۔
اس کے اس جواب نے لمحہ بھر کے لیے مجھے مبہوت کردیا اور میرے ذہن میں شاعر کے وہ الفاظ گھونجنے لگے..
تحتہ و تحت میں سے ایک چنا کرتے ہیں
ہم عجب شان سے دنیا میں جیا کرتے ہیں
اس وقت سے ملتا ہے شہادت کا سبق
جب سے ماؤں کی گود میں دودھ پیا کرتے ہیں
بندوق کیا چیز ہے توپ کسے کہتے ہیں
ہم تو ٹینکوں کی صفیں چیر دیا کرتے ہیں
اس نوجوان کے اس جذبہ عالی شان پر میرے ذہن کے پردوں میں ایک دوسرا منظر لہرا رہا تھا. اس ارض پاک کے اس جواں سال بیٹے کا منظر کہ جس کی جوانی بھی ابھی پوری طرح نہیں نکھری تھی مگر جذبہ جہاد اور شوق شہادت اس کو کشاں کشاں میدان مقتل کی طرف لے گیا تھا.
میری مراد پاکستان کے اس بہادر بیٹا ارسلان ستی شہید سے ہے کہ جس کا دوست اس کو میسج کررہا تھا کہ کہ کیا کر رہے ہو تو اس نے جو جواب دیا اس کو سونے کے پانی سے بھی لکھیں تو شاید حق ادا نہ ہو. کہنے لگا کہ شہید ہونے آئے ہیں، گولی کا انتظار ہے کہ کب کوئی سنسناتی ہوئی گولی آئے اور ہم اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے اس عہد، اس فرض سے سبکدوش ہوں کہ جو عہد ہم سے قرآن نے لیا ہے۔
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
کہ مومن مردوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا اور کچھ ایسے ہیں جو منتظر ہیں کہ کب ہمارا عہد پورا ہوتا اور انہوں نے اپنے عہد میں ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں کی ہے.
میں سوچ رہا ہوں کہ کیسے لوگ ہوتے ہیں یہ اور کیسے ان کے جذبات ہوتے ہیں کہ پتا ہے ماں کی لرزتی پکار میں نام میرا ہے، بوڑھے باپ کے بڑھاپے کو سہارا میرا ہے، بہنوں کی آنکھوں میں جوت میرے ہی چہرے سے ہے مگر پھر بھی دفاع وطن کے لیے، اس ارض پاک کی سرحدوں کے رباط کے لیے کشاں کشاں سینہ چوڑا کیے گھر سے میدان مقتل کی طرف روانہ ہوتے ہیں
جس دھج سے کوئی مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
یہ جانتے ہوئے بھی ان کے قدم نہیں رکتے کہ میری گھر میں جب میری شہادت کی خبر پہنچے گی، جب دوچار آفیسر ایک پرچم میرے والد کو دینے آئیں گے تو میرے والد کا کیا حال ہوگا، میری ماں کی میرے نام کی پکار لبوں پر ہی دم توڑ جائے گی، بہنوں کی آنکھوں سے امید کے سب دیئے بجھ جائیں گے مگر قدم رکتے نہیں کہ سبز ہلالی پرچم میں لپٹنے کا اعزاز ہی تو اتنا بڑا ہے اور یہ سبز ہلالی پرچم بھی ان کو ہی نصیب ہوتا ہے جو اس پرچم کی لاج رکھتے ہیں، جو اس کو سربلند رکھنے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیتے ہیں پھر یہ پرچم ہی ان کا کفن بنتا ہے اور وہ مسکراتے ہوئے جنت کی امید لیے اپنے رب سے ملاقات کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں.
طرح طرح کی خبریں اور غداروں کی غداریاں دیکھ کر میرا دل ڈانواں ڈول ہو رہا ہوتا ہے مگر اپنے مجاہدین اور فوجی جوانوں کی قربانیوں اور جراتوں کو دیکھ کر مجھے یقین ہونے لگتا ہے ان شاءاللہ جب تک اس ارض پاک کے بیٹوں میں یہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت موجود ہے کوئی دشمن اس مملکت خداداد کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ان شاءاللہ.
پاکستان زندہ باد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں