“جزیرہ کمران” عہد عثمانی میں حجاج کا قرنطینہ۔۔منصور ندیم

اس سال اور پچھلے سال کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حج کو محدود کردیا گیا، اور ہمارے عہد کے لوگوں نے ایک لفظ “قرنطینہ” Quarantine کا نام بھی عمومی سطح پر پچھلے سال ہی کرونا وباء کی وجہ سے سنا، لیکن یہ لفظ قرنطینہ کا تصور نیا نہیں بلکہ کافی پرانا ہے، اور اسکا ربط حج اور عمرہ کے لئے جانے والے پچھلی صدی کے عہد سے بھی تھا اس عہد کے برصغیر کے لوگ اس لفظ کو جانتے تھے،خصوصاً برصغیر سے اس عہد میں اتنی ترقی و وسائل نہیں تھے تب ہوائی جہازوں کے بجائے بحری جہازوں سے سمندر کے راستے حج یا عمرہ پر جانے والے زائرین کے لیے ’جزیرہ کمران‘ کو قرنطینہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا-

یہ جزیرہ موجودہ یمن کے پاس جزائر میں سے ایک ہے جو تقریبا ۱۰۰ مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے، “کمران” یمنی جزیرہ ہے اور الحدیدہ صوبے کے ماتحت ہے۔ اسے بحیرہ احمر کے جزیروں کا موتی کہا جاتا ہے, عربی زبان میں اس کا نام “کمران” ہے، اس جزیرے کا یہ نام اس وجہ سے پڑا کیونکہ اس جزیرے کا پانی انتہائی شفاف ہے اور وہاں چاند کا عکس اس طرح سے پڑتا ہے جیسے گویا ایک نہیں دو چاند ہیں، یہ جزیرہ مونگوں کے جنگل سے بھی مالا مال ہے- اس جزیرے کا درجہ حرارت اوسطاً ۲۹ سینٹی گریڈ ہے، اور یہاں بارشیں بے حد کم ہوتی ہیں- جزیرہ کمران میں انیسویں صدی عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کی حکومت تھی، اسی زمانے میں اس جزیرے کو حج بیت اللہ کے لئے جانے والے تمام زائرین کے لیے قرنطینہ بنایا گیا تھا، سلطنت عثمانیہ سے قبل اس جزیرے پر پرتگالیوں کا قبضہ تھا، پرتگالیوں نے سولہویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی عیسوی تک اس جزیرے پر راج کیا تھا ۔

عثمانیوں کے عہد میں برصغیر سے آنے والے زائرین حجاج کے بحری جہازوں کے راستے میں یہ جزیرہ پڑتا تھا اور عثمانیوں کی خلافت میں یہ حکم تھا کہ انہیں یہاں جزیرہ کمران میں دس دنوں کے لئے لازمی اتارا جاتا تھا، یہ سلسلہ سلطان عبد الحمید خان مرحوم ترکی کا عہد حکومت تک تواتر سے جاری رہا تھا، وہاں پر انہیں مقامی طبی عملہ جو ہر روز صبح مردوں اور عورتوں کی قطار لگا کر ہر ایک کا طبی معائنہ کرتا تھا، وہاں ہندوستانی کلچر کے مطابق بعض لوگ اپنی خواتین کا چہرہ دکھانے سے انکار کرتے تھے تو انہیں طبی عملے کی جانب سے سختی کا معاملہ پیش آتا تھا، ان کا کھانا اور پانی بند کر دیا جاتا تھا اور عام اعلان کر دیا جاتا تھا کہ جو ان کو پانی دے گا وہ مجرم قرار پائے گا۔ یہ قرنطینہ برصغیر کے حجاج کے لئے بہت آزمائش کا معاملہ رہتا تھا۔

سنہء ۱۹۰۹ میں سلطان محمد کا عہد حکومت میں بعض باتوں کی معمولی اصلاحات ہوئیں ، لیکن بعض خرابیوں میں بتدریج اضافہ ہی ہوا۔ حتی کہ عہد خلافت عثمانیہ میں حجاج کا مزدلفہ میں قیام کے دوران اکثر راتوں میں حکومت کی طرف سے آتش بازیاں ہوتی تھیں۔ جدہ اور مکہ مکرمہ میں حج کے دنوں میں بھی اس وقت گرامو فون اور باجوں کی آوازیں کثرت سے آتیں تھیں، حقہ نوشی کا عام رواج دیکھا۔ بعض اوقات حقہ نوشی کے شغل میں لوگ نمازیں بھی نہ پڑھتے تھے، قبر پرستی عام تھی۔ چوری، ڈکیتی، راہ زنی کا بازار گرم رہتا تھا۔ کیونکہ ترکوں کے عہد خلافت میں مقامی گورنر شریف حسین کو پورا اختیار دیا ہوا تھا۔ اس پر کوئی روک ٹوک نہ تھی، اور حقیقتا مقامی عوام کی حالت بہت دگرگوں تھی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران سنہء ۱۹۱۵ میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا, اور سنہء ۱۹۲۳ میں لوزان معاہدے کے تحت جزیرے سے سلطنت عثمانیہ کے راج کا بھی خاتمہ کردیا گیا تھا تاہم برطانیہ نے عدن کی حکومت کی مرضی کے برخلاف اس پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھا تھا۔ سنہء ۱۹۲۳ کے دوران لوزان معاہدے کے تحت برطانیہ نے یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ جزیرہ حاجیوں کے قرنطینہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اور برطانیہ نے فرانس، اٹلی اور ہالینڈ کے ساتھ معاہدے میں بھی سنہء ۱۹۳۸ تک اس جزیرے کی اس حیثیت کو تسلیم کیا ہوا ہے، تاہم سنہء ۱۹۴۹ میں برطانیہ نے اسے ایک طرح سے اپنی نو آبادیات میں شامل کرلیا تھا، اور یقینا برطانیہ کا یہ فیصلہ غیر قانونی تھا-

Advertisements
julia rana solicitors

جب سلطان عبدالعزیز ابن سعود ملک حجاز کا حاکم بنے، اس کے بعد سے ترکی عہد خلافت اور گورنر محمد شریف کے دور کی بہت سی قباحتیں دور ہو گئیں۔ ڈاکا، چوری، خون نا حق کا تقریباً خاتمہ ہوگیا، قرآن و حدیث کی حدیں جاری ہو گئیں، جو سفر مکہ شریف سے مدینہ منورہ تک آمدو رفت اونٹوں پر تیس دنوں میں طے ہوتا تھا، اب موٹروں پر وہی سفر آمدو رفت چار دن میں آرام و آسائش سے طے ہوجاتا ہے۔ جہاں کبھی پانی نایاب ہوتا تھا وہاں اب پانی کی بے حد فراوانی ہے۔ دنیا بھر کی تمام جدید ترین سہولتیں موجود ہیں اور آج تک تسلسل سے پرسعودی حکومت کے عہد میں مسلسل بہتری کی آتی رہی ہے اور عدیم النظیر امن و امان قائم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply