• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جو رکھ بیٹھے روزہ ، نہ پوچھو کیا بیتی پھر/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

جو رکھ بیٹھے روزہ ، نہ پوچھو کیا بیتی پھر/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

وہ آئے اور آ کے بولے
کتنی دیر رہ گئی ہے افطاری میں ؟
بتایا کہ ابھی تو ڈھائی گھنٹے باقی ہیں۔

کہنے لگے “اچھا ، میں تو سمجھا تھا بس گھنٹہ رہ گیا ہو گا۔”

پھر بولے “یارر گرما گرم قورمہ ہو، ساتھ تندور سے اترتی تازہ روٹی ہو تو کیا مزہ آتا ہے۔”
میں نے کہا ، ہاں ایسا ہی ہے۔

پھر بولے
“آج یخنی نہ بنوا لیں افطاری کے بعد؟
پھر اس میں بوٹی اور روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ڈالیں گے اور کھائیں گے، بڑا مزہ آئے گا۔
میں نے بس اثبات میں سر ہلا دیا۔

پھر کہنے لگے
“آؤ کچن کا چکر نہ لگا کر آئیں، دیکھیں تو سہی کیا بن رہا ہے افطاری کے لیے”

میں نے کہا
“آپ کو شدید بھوک لگی ہوئی ہے، بس چپ کر کے بیٹھے رہیں اور کھانے پینے کی باتیں نہ کریں۔ ورنہ وقت گزارنا مشکل ہو جائے گا۔”

یہ سنا تو خاموشی سے منہ لٹکا کر بیٹھ گئے۔ دو تین منٹ گزرے ہوں گے کہ بولے
” یارررر کوئی پاس کے شہر میں جانے والا نہیں؟
وہاں سے گرم گرم تکے منگوا لیتے ہیں، بیف کے تکے منگواتے ہیں، افطاری میں کھائیں گے، مزہ آ جائے گا۔”

میں نے صرف چپ رہنے پہ اکتفا کیا تو مزید بولے
“کوئی جانے والا ہو تو وہاں سے مومو بھی منگوائیں گے۔ کیا خوبصورت موسم ہے، مومو کھانے کا مزہ آ جائے گا۔ اور بریڈ بھی منگوا لیں گے، میرے پاس چکن سپریڈ پڑا ہے، بریڈ پہ وہ لگا کر کھائیں گے۔ یار کوئی بسکٹ وغیرہ پڑے ہیں نا ؟ ساتھ وہ بھی کھائیں گے۔”

پھر بولے
“یار آؤ کچن کا چکر تو لگا کر آئیں ، دیکھیں کچھ بن بھی رہا ہے کہ نہیں۔۔ ۔ ان کے پاس میکرونی پڑے ہوں تو سبزی مکس کروا کے وہ بنوا لیتے ہیں۔ دیکھو بارش ہو رہی ہے، آپ خود بتاؤ آج سوپ والا دن نہیں ہے کیا ؟ ”

انھیں تھوڑا حوصلہ دیا کہ گزر جائے گا وقت، فکر نہ کریں۔ تو دو منٹ چپ رہے پھر بولے۔۔

” یارررر سندھ کی اصلی بریانی ہو تو کھانے کا وہ مزہ آتا ہے کہ کیا کہنے۔ اور اگر ساتھ پشاوری ملائی بوٹی باربی کیو ہو تو بس زندگی کے سارے ارمان پورے ہو جاتے ہیں۔ میں وزیرستان گیا تو وہاں ایک جگہ سے مٹن کڑاہی کھائی، ایسی شاندار تھی کہ بوٹی منہ میں مکھن کی طرح گھل جاتی تھی۔ ایک دفعہ تو پنڈی میں پائے کھائے تھے تو وہ مزہ آیا جو لاہور کے سری پائے میں بھی نہیں آتا۔ یارررر کتنا وقت رہ گیا ہے افطاری میں؟

بتایا کہ “ابھی تو ڈھائی گھنٹے سے دس منٹ ہی کم ہوئے ہیں”
پھر سے منہ لٹکا کر بیٹھ گئے۔

مجھ سے دیکھا نہیں گیا تو انھیں بازو سے پکڑا اور جا کے ان کے بستر پہ لٹا آیا کہ سو جائیں، دو گھنٹے گزر جائیں گے اور پتا بھی نہیں چلے گا۔

کہنے لگے “اب نیند کہاں آنی ہے لیکن کوشش کر لیتا ہوں۔ ویسے آج کھانے میں بن کیا رہا ہے، پتا تو کرو؟ آج تو مجھے پتلی دال بھی مل جائے تو اس میں روٹی کوٹ کے کھاؤں، پتلی دال ہو، پتلی روٹی ہو اور ساتھ ہلکا سا دیسی گھی ڈالا ہو۔
اس وقت ہم کہیں پشاور میں ہوتے نا، وڈے پائے کا شوربہ لیتے اور پانچ چھ نان ان میں ڈبو کر کھاتے یا یخنی والا پلاؤ منگوا کر کھاتے۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے بنوں بیف پلاؤ کھایا ہے نا، کیا شاندار ذائقہ ہوتا ہے ان کا، خیر ابھی تو مجھے چائنیز فرائیڈ رائس بھی مل جائیں تو مزہ آ جائے۔ کٹوا گوشت کھایا ہے آپ نے، اس میں روٹی کوٹ کے کھائیے گا کبھی”

میں انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گیا، کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ دروازے سے پھر ان کا چہرہ نمودار ہوا اور بولے

Advertisements
julia rana solicitors london

“یارررر ڈاکٹررر !
لیپ ٹاپ پہ بھی کوئی کوکنگ شو لگا دو نا۔
ورنہ چلو کچن میں چلتے ہیں ، آج افطاری تک وہیں بیٹھیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply