بائیں بازو کی غلطیا ں یا ریاست کا جبر(1)۔۔شہباز احمد

لیاقت علی صاحب بڑے پیارے دوست ہیں ۔مجھ سے عمر میں بھی کافی بڑے ہیں لیکن بزرگ لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کبھی بالمشافہ  ملاقات ہو گئی تو برا نہ مان جائیں۔ اس لئے دوست لکھا ۔ ان سے میرے ایک ملاقات لیاقت صاحب کی کتابوں کی دوکان جو اس وقت مزنگ روڈ پر ہوا کرتی تھی ہوئی تھی ۔ یہ 2010 کی بات ہے ۔ میں اس وقت اپنا ایم فل کا مقالہ لکھ رہا تھا ۔ مجھے کچھ  بزرگ  دوستوں سے ملنے کی ضروت تھی ۔ میں تو ان لوگوں کو  نہیں جانتا تھا۔ خیر میرے اس  مسئلے کا حل ابن حسن (مرحوم) ) نے کر دیا ۔ ایک دن ہم نے پروگرام بنایا اور اقبال چیمہ صاحب کی گاڑی پر لاہور پہنچے ۔ ان دنوں تخلیقات پر بڑے لوگ آیا جایا کرتے تھے، شاہ صاحب نے ایک زمانہ دیکھا ہوا تھا اور طلباء اور اساتذہ سیاست کا حصہ رہ چکے تھے ۔ ان کی بہت دوستیاں تھیں لاہور میں ۔ مجھے قلب علی شیخ صاحب کا انٹرویو کرنا تھا ۔ قلب علی شیخ صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ بائیں بازو سے ان کا تعلق تھا ، ریلوے میں ملازم تھے ۔ ریلوے کے محکمہ سے ریٹائر ہو چکے تھے لیکن سیاست سے نہیں ۔ یارو ں کی محفل میں پیش پیش ہوتے تھے ۔جس دن ہم دوکان پر گئے وہاں پرپہلے سے کئے لوگ موجود تھے ۔ دوکان کے مالک لیاقت صاحب بھی وہاں ہی موجود تھے ۔ وہاں پر اس دن جن لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ قلب علی شیخ صاحب ، پرویز مجید صاحب، ظفر علی خان صاحب اور   کچھ  دیگر احباب  تھے لیکن اب ان کے نام میرے ذہن سے محو ہو چکے ہیں ۔ سر دست یہ نام ہی مجھے یاد ہیں جو میں نے لکھ دیئے۔

انٹرویو کے لئے میں اور شیخ صاحب علیحدہ جگہ ایک کونے میں بیٹھ گئے ۔ کافی دیر بات چیت ہوتی رہی ۔ ریکارڈنگ کے لئے میں  نےایک ٹیپ ریکارڈر خریدا ہو ا تھا ۔ شخ صاحب کی باتیں میں نے اس میں ریکارڈ کر لیں ۔ پھر گھر آ کر اس کو کاغذ پر اتار لیا ۔جو میرے مطلب کا مواد تھا اس کو استعمال بھی کیا۔ دوبارہ کبھی شیخ صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میرا ارادہ تھا کہ جن لوگوں نے بلا واسطہ  یا با لواسطہ طور پر  مزدور تحریک میں حصہ لیا یااس کا حصہ رہے ان کے مکمل انٹرویو کروں لیکن  میں نہ کر سکا ۔ ان میں سر دست شیخ صاحب بھی شامل تھے ، یوسف بلوچ بھی اور وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔

یہ مضمون اس لئے لکھا کہ فیس بک پر لیاقت صاحب اپنے تجربات اور تاریخ کے متعلق لکھتے رہتے ہیں۔ ان کے تبصرے اچھے ہوتے ہیں ۔ وہ پاکستان کے حالات کے مطابق معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی ایک پوسٹ پر میں نے بھی نیچے کمنٹ کر دیا ۔ لیاقت صاحب بائیں بازو کی سیاست سے خفا ہیں ۔اب وہ خفا کیوں ہیں یہ کبھی ان سے بالمشافہ ملاقات کر کے اپنی تشنگی دور کرنے کی کوشش کروں گا ۔ ان کے خیال میں بائیں کی تحریکیں ناکام ہو چکی ہیں ۔ وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی ہیں ۔ چلیں اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو یہ بچی کچھی تحریکیں جو کچھ کر رہی ہیں اگر یہ بھی نہ کریں تو یہ سرمایہ دار تو عوام اور مزدور کا خون جونک کی طرح چوستے رہیں گے اور نہ وہ مر سکیں گے اور نہ وہ زندہ رہنے کے قابل رہیں گے۔یہ بھی ایک غنیمت جانیے کہ کچھ لوگ ریاست کی آنکھ میں ابھی بھی کانٹے کی طرح چبھتے  ہیں ۔

سر آپ نے وہ دور دیکھا ہے ۔ہم نے صرف پڑھا ہے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ کا تجربہ بھی زیادہ ہے۔ آپ پاکستان کے بہت سے مسائل سے باخوبی واقف ہیں۔ بہت سی تحریکوں کے احوال کے آپ چشم دید گواہ ہیں۔ آپ نے خود پاکستان  کی تاریخ کو بنتے بگڑتے دیکھا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں جو لوگ بائیں بازو کی تنظیموں کے لیے کام کر رہے تھے وہ مفاد پرست تھے ؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اس وقت اس کا متبادل کیا تھا ؟ دنیا میں  کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے۔ہر انسان کے اندر خامیاں موجود ہیں۔ ہر تحریک میں بھی کچھ خامیاں ضرور ہوتی ہیں۔ کیا ان خامیوں کی طرف ہمیں زیادہ توجہ دینی چاہیے یا جو لوگ وہ کام کرتے رہے اس کی طرف۔ ان خامیوں کے ساتھ ہم کسی بھی معاشرے کا حصہ بنے رہتے ہیں یا بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اسی معاشرے میں رہنا پڑتا ہے ۔اگر ہمارے پاس کوئی متبادل نہ ہو تو ۔ بائیں بازو کے لوگ بھی انسان تھے ۔ ان سے لازماً  غلطیاں ہوئی ہوں گی ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ناکام تحریک تھی ؟ چلیں اگر ہم یہ بھی سمجھ لیں کہ وہ ایک ناکام تحریک تھی تو ریاست ایک ناکام تحریک کے پیچھے پاگلوں کی طرح لٹھ لے کر کیوں  چڑھی  ہوئی تھی ؟ ریاست کو اس تحریک یا اس کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں سے کیا خدشات تھے؟ ریاستی اداروں کی نیندیں کیوں حرام ہو چکیں تھیں ؟یہ لوگ کیا ڈیمانڈ کر رہے تھے ؟ کیا وہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بات نہیں کر رہے تھے؟ کیا و ہ امریکی بلاک سے نکلنے اور دو طرفہ تعلقات کی بات نہ کرتے تھے؟ کیا وہ ایک عام آدمی کے  حالات بہتر ہوں اس کے لئے جد و جہد نہیں کر رہے تھے ؟ اگر وہ یہ سب کچھ کر رہے تھے تو ہی ریاست ان کے مطالبات سے خائف تھی۔پبجاب میں کس طرح ان لوگوں پر ظلم کیا گیا؟ پنجاب میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں کیا ہو رہا تھا؟ ریاستی  کرائے کے بدمعاش تو کھل کر کھیل رہے تھے ۔ مگر جو لوگ عوام کے حقو ق کی بات کر رہے تھے ان دائر ہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا؟ ہمیں صرف اور صرف یک طرفہ تاریخ پڑھائی گئی اور کہیں بھی ان لوگوں کا نام تک نہیں آتا ہے کہ یہ لوگ کون تھے اور کیا کر رہے تھے؟ کس کے لئے کر رہے تھے؟  ریاستی ظلم اور تشدد کیوں برداشت کر رہے تھے ؟ جب تک ریاستی بیانیہ کے خلاف تاریخ نہیں لکھی جائے گی اور اس تاریخ کو  ریاستی نصاب کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک لوگوں کو اور آنے والی نسلوں کو اس کے متعلق کبھی بھی پتا نہیں چل سکتا کہ یہاں پر ریاست کو للکارنے والے لوگ بھی موجود تھے۔ آپ کو اچھی طرح علم ہو گا کہ راولپنڈی سازش کیس کا تاریخ پاکستان کی کتاب  میں چند سطروں میں ذکر کیا گیا ؟ ریاست نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے پیچھے وہ کون سے اسباب ہیں ؟ کیوں سچ کو سامنے نہیں لایا جاتا اور پاکستا ن کی عوام اور نوجوان نسل کو  بتایا جاتا کہ اصل میں کیا ہوا تھا؟

اگر بائیں بازو سے جڑے  ہوئے لوگوں کی ایک فہرست تیار کی جائے تو سردست جو نام مجھے یاد پڑتے ہیں وہ کچھ یہ ہیں ۔ باقی یہ لسٹ ایک نامکمل لسٹ ہے۔ اگر ناموں کو ہی لکھا جائے تو ایک لمبی لسٹ بن جائے گی ۔ یہاں پر میں وہ نام ہی لکھوں جو معروف لوگ تھے جن کو لوگ کسی نہ کسی حوالے سے ضرور جانتے ہوں گے ۔ ان کے کئے معتبر حوالے بھی ہیں ۔کیا  یہ لوگ مفاد پرست تھے ؟  فیض احمد فیض عبداللہ ملک ، روف ملک ، طاہرہ مظہر علی ، مظہر علی خان،میا افتخآرالدین، ایرک سپرین،مرزا ابراہیم ۔رضا کاظم ، سجاد ظہیر ، بدرالسلام بٹ ،حسن ناصر،  سی آر اسلم،چوہدری فتح محمد  اور  محمد اسلم ریڈیو،وغیرہ

کیا وہ لوگ اخلاص کے ساتھ کام نہیں کر رہے تھے؟

کیا ریاست نے حالات اس قدر تنگ نہیں کر دئیے تھے ان کے لیے کہ وہ کچھ نہ کر سکے ؟ اس سب کے باوجود بھی وہ میدان میں ڈٹے رہے۔

کیا وجہ ہے کہ ریاست آج تک بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ اس دور کی دستاویزات کو پبلک نہیں کرتی ہے؟

آج تک پاکستان میں ریاستی بیانیے اور بائیں  بازو کی جد و جہد پر کوئی معروضی مطالعہ کیوں نہ ہو سکا ؟

کیا سرد جنگ میں پاکستان کی ترقی پسند سیاست کرنے والوں  کے لیے مسائل کھڑے نہ کیے گئے؟ اس کے مد مقابل دائیں بازو کے لوگوں اور جماعتوں کو بھر پور قسم کی چھوٹ نہ دی گئی ۔

کیا یہ سب کچھ ریاست جان بوجھ کر نہیں کر رہی تھی کیا ریاست کو اس بات کا علم نہ تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں ۔ترقی پسند لوگوں کی جد و جہد کو ہم پس پست نہیں ڈال سکتے ہیں ۔ریاست نے ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کیا جس سے بائیں بازو کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

ریاست اس قدر خوف زدہ تھی کہ مرزا ابراہیم۔کو الیکشن میں ہرانا پڑا ان کو ۔اس بات کا اقرا ر  خود مرزا صاحب کے مقابل الیکشن لڑنے والے احمد سعید کرمانی    نے کیا کہ ان کو جان بوجھ کر الیکشن میں ہرایا گیا تھا۔ مزدرں نے ووٹ کے ساتھ مرزا صاحب کو نوٹ بھی ڈالے ۔یہ عالم تھا ایک مزدور کا اپنے لیڈر کے لیے۔ یہ ہی وہ شعور تھا جو بائیں بازو نے مزدور کو دیا۔

اب مصیبت یہ ہے کہ یہ معاشرہ اس قدر زنگ آلود ہو چکا ہے کہ اس زنگ کو اتارنے میں کئی دہائیاں درکار ہوں گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

شہباز احمد
اسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ تاریخ ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بائیں بازو کی غلطیا ں یا ریاست کا جبر(1)۔۔شہباز احمد

  1. تبصرہ اچھا ھے اپ نے ان مختصر سطرون مین 70 دھایو ن کی داستان بیان کر دی

Leave a Reply