مجھے یاد ہے-حامد یزدانی/قسط نمبر 21

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)

(21  قسط)

 

 

 

لاہور پہنچ کر والد صاحب کے اور اپنے کتنے ہی احباب سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ لاہور سے جُزوی سی دُوری کا یہ عرصہ بظاہر تین برس کا تھا مگر بعض اوقات یہ محسوس ہوا کہ فاصلہ بہت طویل ہوچکا ہے۔ حلقہ احباب میں بھی اپنی جگہ پھر سے بنانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ وقت جگہ خالی کہاں چھوڑتا ہے

اپنے دوستوں سے تجدیدِ ملاقات کی کوششوں اور مسرتوں کے جِلو میں یہ احساسِ محرومی بھی شدید ہوتا جارہا ہے کہ اس دوران میں والد صاحب ہی نہیں ان کے کئی اور دوست بھی جہانِ فانی سے پردہ فرما چکے ہیں۔

٭٭٭٭٭

ریڈیو پاکستان کے مشاعرہ میں غیر متوقع طور پر والدصاحب کے پرانے دوستوں جناب انجم رومانی اورجناب شہرت بخاری سے ملاقات نے عجب روحانی سرشاری عطا کی ہے۔ شہرت صاحب ایک مدت لندن میں گزار کر لاہور واپس تشریف لا چکے ہیں۔ مشاعرہ سے قبل اور بعد میں انہی کے قریب رہنے میں کوشاں ہوں اور وہ بھی والدصاحب کو محبت سے یاد کررہے ہیں۔

اور ’’حلقہ یارانِ پُل‘‘ یعنی شام ڈھلے لاہور نہر کے پُل پر شاعر دوستوں کی محفلوں اور خوش گپیوں کا تذکرہ کررہے ہیں۔ میں انجم رومانی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ حمید اختر صاحب کا یہ کہنا کہ ساحر لدھیانوی یزدانی صاحب سے اصلاح لیا کرتے تھے کہاں تک مبنی بر حقیقت ہے؟ والدصاحب نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا اور آپ تو ان کے جوانی کے سبھی دوستوں کو جانتے ہیں۔

انجم رومانی صاحب فرماتے ہیں:

’’حمید اختر کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ساحر اور یزدانی بہت اچھے دوست اور ایک دوسرے کے ہم عصر تھے۔ میں ان دونوں کے قریب رہا۔ حلقہ یاران پُل میں بھی جاتا تھا۔ دوست جو کچھ بھی تازہ کہتے۔ شام ڈھلے پُل پر دوستوں کو سناتے اور داد اور رائے دونوں پاتے۔ یہ تو چلتا ہی رہتا ہے۔ باقی استادی شاگری کا تعلق ان دونوں میں نہ تھا۔ ایسا غلط فہمی کی بنیاد پر کہا گیا ہے۔‘‘ میں انجم صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

٭٭٭٭٭

پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور سنٹر سے ایک نعتیہ مشاعرہ کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ ریکارڈنگ کے لیے پہنچاہوں تو دیکھتا ہوں کہ لاہور اور گردونواح سے اہم شعرا ءاس میں شریک ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، حفیظ تائب، کلیم عثمانی، مظفر وارثی، عبدالعزیز خالد،شہزاد احمد، خالداحمد، نجیب احمد، علی اکبر عباس، ریاض مجید اور کچھ اور بھی۔ میں فرداً فرداً سلام دعا لیتا ہوا کونے میں بیٹھے شہرت بخاری صاحب کے پاس پہنچا ہوں تو انھوں نے میرا ہاتھ تھامتے ہوئے مجھے اپنے پاس ہی بٹھا لیا ہے۔

’’دیکھو، مشاعرہ ختم ہونے تک تم میرے ساتھ ہی رہنا۔‘‘ وہ سرگوشی کرتے ہیں۔’’جانے مجھے کیوں احساسِ اجنبیت سا ہورہا ہے۔‘‘

میں ایک نظر سٹوڈیو میں موجود شعرا پر ڈالتا ہوں اورکہتا ہوں کہ احساسِ اجنبیت کیسا؟ یہاں تو سبھی آپ کے جاننے والے بلکہ پرانے دوست ہیں۔

’’سچ بتاؤں تو ان میں سے بعض تو پہچان ہی میں نہیں آرہے۔ اچھا، دیکھو۔میں نے مظفر وارثی کو پہچان لیا ہے۔اس کو داڑھی کے ساتھ دیکھ چکا ہوں مگر وہ اُدھر کون بیٹھا ہے شہزاد کے ساتھ؟‘‘ وہ ہاتھ سے ہلکا سا اشارہ کرتے ہوئے دریافت کرتے ہیں۔

’’ وہ۔۔۔وہ تو ریاض مجید ہیں۔ فیصل آباد سے آئے ہیں۔‘‘ میں جواباً کہتا ہوں۔

’’لو، میں اسے بالکل نہیں پہچانا۔ اس نے بھی داڑھی رکھ لی ہے۔ ابنِ یزدانی، یہ سبھی لوگ داڑھیاں کیوں بڑھائے چلے جارہے ہیں!؟ شہرت صاحب آہسگتی سے کہتے ہیں۔

میں ان کی بات پر بس مسکرا دیتا ہوں۔ کچھ جواب نہیں دیتا۔ دراصل میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ سوال ہے یا تبصرہ؟

’’تمھیں ، ایک بات بتاؤں؟ تم تو بس تین برس بعد ہی ملک لوٹ آئے ہو۔ مجھے زیادہ عرصہ باہر رہنا پڑا۔ اب اپنے ہی شہر لوٹا ہوں تو شہر بھی اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہے اور لوگ بھی۔ سب کو پتہ ہے کہ میں لاہور میں ہوں مگر شاید ہی کوئی خود مجھ سے ملنے آتا ہو۔ مجھے ہی سب کے پاس جانا پڑتا ہے۔ جیسے کوئی نووارد شہر میں اپنے تعارف کو گھوما کرتا ہے۔ حال آں کہ ایک زمانے میں یہ ہرروز ملا کرتے تھے۔ ہر محفل میں مجھے بلاتے تھے۔ اب میں ملنے بھی جاتا ہوں تو تھوڑی دیر بعد ہی خود کو وہاں غیرضروری سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔‘‘ شہرت صاحب اپنے دل کی بات کررہے ہیں اور میں اپنے حالیہ تجربات و احساسات کی آنکھ سے یہ سب خود پر بیتتا محسوس کررہا ہوں۔

٭٭٭٭٭

مارچ کا مہینہ آن پہنچا ہے۔ الحمرا میں ناصر کاظمی صاحب کی برسی کی شان دار تقریب منقعد ہے۔ برطانیہ سے ان کے صاحب زادے باصر سلطان کاظمی بھی اس میں شریک ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی صدارت میں بہت سے نام ور ادیب و شاعر اظہار خیال کے لیے مدعو ہیں۔ نظامت جناب حسن رضوی کے ذمہ ہے۔ تقریب کے بعد میں بہت سے احباب سے ملتا ہوں اور ماہِ رواں کے اواخر میں والد صاحب کی برسی پر منعقد ہونے والی تقریب کی دعوت دیتا ہوں۔اس تقریب کے انعقاد میں میرے صحافی و ادیب دوست جناب اسرار وڑائچ میرا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔

٭٭٭٭٭

احمد ندیم قاسمی صاحب، حفیظ تائب صاحب اور دیگر تمام بزرگ اور دوست پروگرام میں شرکت کا وعدہ کرچکے ہیں۔ میں نے ندیم صاحب سے پوچھا ہے کہ کیا انھیں آنے کے لیے سواری بھیجی جائے؟ تو انھوں نے کہا کہ وہ خود ہی تقریب میں پہنچ جائیں گے۔ شہرت صاحب نے فرمایا کہ انھیں سواری درکار ہوگی۔

٭٭٭٭٭

تقریب کے روز حسبِ وعدہ ہم شہرت بخاری صاحب کو لانے ان کے بیٹے کے گھر اقبال ٹاون پہنچے ہیں۔ شہرت صاحب ہمیں اندر آکر انتظار کرنے کا کہتے ہیں۔ کار دروازے پر ہی پارک کرکے ہم اندر چلے جاتے ہیں۔ شہرت صاحب ڈرسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے بال بنا رہے ہیں۔ وہ سوٹ بوٹ پہن کر خوب تیار ہیں۔ وہ اسی طرح تیار ہوکر تقریابت میں جاتے ہیں۔ وہ میری طرف مُڑتے ہیں اور کہتے ہیں:

’’یزدانی صاحب کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان کی اولاد انھیں ان کے جانے کے بعد یوں محبت سے یاد کرتی ہے۔ میں سوچ رہا تھا میرے بعد کیا کوئی مجھے بھی یوں یاد کرے گا؟‘‘

’’شہرت صاحب۔ آپ ایسی باتیں کیوں سوچ رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ آپ اور آپ کی شاعری سے محبت کرنے والوں کی کیا کمی ہے!‘‘ میں ہمت کرکے کہتا ہوں۔

’’بھئی، یزدانی صاحب کے سبھی بچے ادب سے متعلق ہیں۔ اس اعتبار سے ہر کوئی ان سا خوش قسمت نہیں۔‘‘ شہرت صاحب کے لہجے میں حسرت نمایاں ہے۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ بولے:

’’چلو، میں تیار ہوں۔‘‘

اور ہم کار میں بیٹھ کر مال روڈ کی جانب روانہ ہوگئے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تقریب ’’بیادِ یزدانی جالندھری‘‘ لاہور کے شیزان ہوٹل میں منعقد ہے۔ صدارت جناب احمد ندیم قاسمی فرما رہے ہیں۔ سٹیج پر ان کے ساتھ والدصاحب کے جوانی کے دوست شہرت بخاری صاحب، حفیظ تائب صاحب اور ناظم تقریب ڈاکٹر اجمل نیازی بیٹھے ہیں۔ اجمل نیازی صاحب اپنی نشست سے اٹھتے ہیں اور اچانک مجھے سٹیج پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ تو طے نہ ہوا تھا۔ مجھے تو بس تقریب کے اختتام پر حاضرین کا شکریہ ادا کرنا تھا۔ بہرحال میں ان کے پکارنے پر سٹیج پر جا بیٹھتا ہوں۔ حاضرین پر نگاہ کرتا ہوں تو کیسے کیسے پُرخلوص چہرے روشن دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب شہر کے طول وعرض سے اور بیرونِ لاہور سے سفر کرکے تقریب میں پہنچے ہیں۔ سامنے کی رو میں ڈاکٹر خورشید رضوی، اے جی جوش، یونس حسرت امرتسری، ان کے پیچھے خالد احمد، نجیب احمد، مقبول سرمد، سرفراز سید،جعفر بلوچ، باصر کاظمی، عباس تابش،عمران نقوی، فرحت عباس شاہ ، اختر علی، انجم شیرازی، جاوید آفتاب، ضیا الحسن، امجد طفیل، میرے بھائی خالد یزدانی،راشد یزدانی اور ماجد یزدانی سبھی موجود ہیں۔ ہال کی تشستیں پُر ہوچکیں۔ اب احباب دیوار وں کے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک درویش لکھاری کو یاد کرنے کتنے محبت کرنے والے جمع ہیں اس محفل میں!

میں فرطِ جذبات میں سوچتا ہوں۔

٭٭٭٭٭

ڈاکٹر اجمل نیازی اب مقالہ نگاروں کو ایک ایک کرکے دعوت اظہار دے رہے ہیں۔ مگر پہلے وہ اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور یزدانی صاحب کی یادوں کو زندہ جاوید قرار دیتے ہیں۔ اظہارخیال کرنے والوں میں اسرار ورائچ، طارق کامران، خالد احمد، ڈاکٹرخورشید رضوی، حفیظ تائب، سرفراز سید، جعفر بلوچ، شہرت بخاری اور احمد ندیم قاسمی شامل ہیں۔

عبدالعلی شوکت صاحب نے اس تقریب میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر امجد پرویز والد صاحب کی دو غزلیں ترنم سےپیش کرتے ہیں اور محفل میں سماں باندھ دیتے ہیں:پہلی غزل ہے:

دل مرحلہ آہ و فغاں تک نہیں آیا

یہ شعلہ بے باک زباں تک نہیں آیا

۔۔۔۔۔۔۔

کچھ تُو بھی تغافل کی بلندی سے اتر آ

میں تیرے لیے چل کے کہاں تک نہیں آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹوٹا نہیں اشکوں سے ابھی ضبط کا پُشتہ

پانی ابھی خطرے کے نشاں تک نہیں آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دوسری غزل ہے:

ڈھل جاتی ہے الفاظ میں تاثیر ہوا کی

فن کار بنا لیتا ہے تصویر ہوا کی

۔۔۔۔۔۔۔

پڑھنے کا سلیقہ ہو تو پڑھ لیتے ہیں کچھ لوگ

پانی پہ بھی لکھی ہوئی تحریر ہوا کی

۔۔۔۔۔۔۔

ہم ریت پہ کرتے رہے تعمیر گھروندے

بن بن کے بگڑتی رہی تعمیر ہوا کی

Advertisements
julia rana solicitors

٭٭٭٭٭

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply