• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسانوں کے بغیر دنیا کیسی ہو گی؟ ایک سائنسی جائزہ۔۔          ملک محمد شاہد اقبال

انسانوں کے بغیر دنیا کیسی ہو گی؟ ایک سائنسی جائزہ۔۔          ملک محمد شاہد اقبال

کہتے ہیں کہ ایک شخص چڑیا گھر گیا اور شیر کے سامنے کھڑے ہو کر دعوٰی کیا کہ انسان شیر سے زیادہ طاقتور ہے۔ثبوت کے طور پر اس نے ایک تصویر پیش کی ،جس میں ایک مردہ شیر کے جسم پر ایک شکاری فاتحانہ انداز سے پاؤں رکھےکھڑا تھا۔ شیر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تصویر کسی انسان ہی کی بنائی ہوئی ہے۔اگر یہی تصویر کوئی شیر بناتا تو شکاری مردہ حالت میں پڑا ہوتا اور شیر اس پر سوار ہوتا۔

اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ ہم انسان، اپنے آپ کو نہایت ”فراخدلی“سے تمام انواع سے برتر خیال کرتے ہیں،کیونکہ ہم خود انسان ہیں لیکن بہر حال اس حقیقت میں کوئی شک وشبہ بھی نہیں کہ کرہ ارض پر موجود تمام انواع (مخلوقات)میں سب سے زیادہ اہمیت انسان ہی کو حاصل ہے۔یہ ساری رونقیں،چہل پہل اور ترقی یقینا انسان ہی کے دم قدم سے ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ افسوسناک امربھی اظہر من الشمس ہے کہ اس خوبصورت کرہ ارض کو داغدار کرنے کا تمام تر ”سہرا“ بھی انسا ن ہی کے سر ہے،جس کا سب سے بڑا مظہر زمینی وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔

گزشتہ چند ہزار سالوں میں ہم نے (خشک)زمین کا قریباََایک تہائی حصہ اپنے شہروں،کھیتوںاور چراگاہوں کے نام پر ہڑپ کر لیا ہے۔چند اندازوں کے مطابق ہم زمین کی کل پیداوار کے 40فیصدحصہ پر قابض ہیں۔ہم نے جنگل کے جنگل صاف کر دئیے تاکہ جلانے کے لیے ایندھن اوررہائش کے لیے جگہ حاصل ہو،دریاﺅں اور سمندروں میں کئی طرح کی گندگی اور غلاظت داخل کر دی،ایٹمی اور کیمیائی آلودگی کے ذریعے فضا کو بوجھل اور متعفن بنا دیا۔اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے اور جبلی درندگی کے نشے میں کئی انمول جانوروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

اب اگر زمین پر موجود تمام انواع کو اختیار مل جائے تو وہ یقینا اس کرہ ارض کو انسانوں سے ’پاک ‘کرنے کا ووٹ دیں گی۔ کیونکہ بیان کردہ سرگرمیوں کی بدولت اس وقت تقریباََ 15,000سے زیادہ انواع کو معدومیت کا خطرہ ہے۔

اب فرض کریں کہ ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے۔تصور کریں کہ زمین پر موجود تمام انسان ،یعنی ساڑھے سات ارب انسان ،یکلخت غائب ہو جاتے ہیں یا کسی دور دراز کہکشاں میں تعلیم و تہذیب سیکھنے کے لیے بھیج دئیے جاتے ہیں،تو کیا ہو گا؟

۔۔۔۔  بات تو سچ ہے مگر

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک با رانسان منظر سے غائب ہو گئے تو زمین پر بہتری کا عمل تیزی سے شروع ہو جائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرت اس اجڑتے ہوئے سیارے کی تعمیرِ نو شروع کر دے گی۔خشک میدان،ویران چراگاہیں اور اجڑتے ہوئے جنگلات دوبارہ ہرے بھرے ہو جائیں گے۔ہوا اور پانی ،آلودگی سے پاک ہونا شروع ہو جائیں گے۔کئی انواع کی معدومیت کا خطرہ ٹل جائے گا۔ اوزون کی تہہ اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔بڑے بڑے شہر،عمارتیں اور تعمیراتی شاہکار اولاََ کھنڈرات میں اور بالآخر خاک میں تبدیل ہو جائیں گے۔لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔کیا انسانی قدموں کے نشانات(آثار)بھی مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے،یا پھر ہم زمین کو اس قدر تبدیل کر چکے ہیں کہ اگر آج سے ایک لاکھ سال بعد کوئی بیرونی مخلوق یہاں آتی ہے تو کیا وہ جان سکے گی کہ اس کرہ ارض پر کبھی ایک صنعتی معاشرہ حکومت کرتا تھا۔

تبدیلی کا آغاز

اگر کل صبح کا آغاز انسانوں کے بغیر ہوتا ہے تو تبدیلی شاید فوراً ہی شروع ہو جائے گی۔

دن کے وقت سورج کی روشنی اور حرارت سے فضا گرم رہتی ہے اور رات کے اندھیرے میں یہ تپش بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے اور بالآخر صبح کے وقت فضا بالکل صاف اور خوشگوار ہو جاتی ہے۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے رات کو بھی دن بنانے کی کوشش شروع کر دی اور اس طرح مصنوعی روشنی پوری رات فضا میں اپنی حدت خارج کرتی رہتی ہے۔ آپ بآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ شہروں کی نسبت دیہاتوں میں صبح کے وقت فضا کی خوشگواریت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے،جس کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ رات کے وقت وہاں مصنوعی روشنی نہیں ہوتی اور فضا کو صاف ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔چند اندازوں کے مطابق یورپی ممالک کا 85فیصدماحول رات کے وقت روشنی سے آلودہ رہتا ہے۔ امریکہ میں یہ شرح 62 فیصد جبکہ جاپان میں خطرناک حد تک 98 فیصد ہے۔ جرمنی، آسٹریلیا،بلجیم اور نیدر لینڈ سمیت کئی ممالک میں شاید ہی کوئی رات ایسی گزرتی ہو جس میں فضا ،روشنی کی آلودگی (تپش)سے پاک رہتی ہو۔کچھ یہی حال ہمارے روشنیوں کے شہر کراچی کا بھی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ  زمین کی سطح کا 18.7فیصدحصہ روشنی کی آلودگی سے متاثر رہتا ہے۔اب اگر انسان غائب ہو جاتے ہیں تو فضا کو یقینا ً اس آلودگی سے نجات مل جائے گی کیونکہ یہ روشنیاں بجلی کی مرہونِ منت ہیں اور بجلی کی مسلسل فراہمی انسانی مداخلت کے بغیر نا ممکن ہے۔بڑے بڑے ڈیم ہوں ،ایٹمی بجلی گھر ہوں یا بجلی کی مسلسل فراہمی کے لیے بنائے گئے پاورسٹیشن،یہ سب مسلسل دیکھ بھال کے متقاضی ہیں۔ انسانی مداخلت کے بغیر یہ صرف 48 سے 72 گھنٹے تک کام کرسکتے ہیں۔

البتہ قدرتی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پاورسٹیشن(مثلاََ ہوائی چکیاںاور سولر انرجی)بجلی کی فراہمی کو کچھ عرصہ بڑھا سکتے ہیں لیکن ڈسٹری بیوشن گرڈمیں مرمت اور دیکھ بھال کی عدم موجودگی، انھیں 2سے4ہفتوں تک ہی کار آمد رکھ سکتی ہے۔بہرحال وہ بھی جلد ہی جواب دے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں پوری دنیا میں بجلی کی پیدا وار اور ترسیل ختم ہو جا ئے گی۔جس کے نتیجے میں کرہ ارض کو مصنوعی روشنی کی آلودگی سے نجات مل جائے گی۔

(انٹروپی) ناکارگی

حر حر کیات (تھرموڈائنامکس )کے دوسرے قانون کو بنیادی کائناتی قوانین میں شمار کیا جاتا ہے۔اس قانون کے مطابق اگر کسی منظم نظام کواس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نظم وضبط کم ہوتا جائے گا اور وہ غیر قیام پذیر ہو جائے گا۔یہ ”ناکارگی کا قانون “بھی کہلاتا ہے۔طبیعیات کی زبان میں ،کسی بھی نظام میں بے ترتیبی کی مقدار کو ”نا کارگی “ کہا جاتا ہے۔انسانوں کی عدم موجودگی میں ناکارگی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔جس کی وجہ سے سڑکیں،عمارتیں،پُل اور دیگر تعمیرات بہت جلد(محض چند عشروں میں)ٹوٹ پھوٹ جائیں گی۔اگر چہ جدید طرز کی عمارتیں گزشتہ 60 سال سے، پُل 120 سے اور ڈیم کم و بیش 250سال سے بنائے جا رہےہیں اور وہ اب تک قائم بھی ہیں کیونکہ  ان کی حفاظت کی جاتی ہے،چھوٹے موٹے نقائص دور کئے جاتے ہیں،باقاعدگی سے مرمت کی جاتی ہے اور خاص طور پر ان کی بنیادوں کی مضبوطی کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انسانوں کے بغیر بظاہر چھوٹے چھوٹے نظر آنے والے یہ کام نہیں کئے جا سکیں گے اور تمام تعمیرات تیزی سے ناکارہ اور خستہ ہوتی چلی جائیں گی۔

اس کے بعد  اس ناکارگی کی ایک بہترین مثال یوکرائن میں چرنوبل کے قریب پری پیات کا شہر ہے ۔30سال قبل یہاں موجود ایک ایٹمی بجلی گھر میں ہونے والے ایک دھماکے تابکاری اثرات کی وجہ سے یہ شہر خالی کر دیا گیا تھا اور یہ ہنوز خالی اور غیر آباد ہی ہے۔

کچھ ماہرین نے اس علاقے پر تحقیق کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ  بظاہردیکھنے پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ پری پیات ایک زندہ اور آباد شہر ہے،لیکن اس کی عمارتیں آہستہ آہستہ انحطاط پذیر ہیں۔ ۔یہاں سب سے اہم چیز جو آپ کو نظر آتی ہے،پودے ہیں،جن کی جڑیں نہ صرف کنکریٹ کی دیواروں ،اینٹوں اوردروازوں کی دہلیزوں میں بلکہ ہر طرف آزادی سے پھیلتی جا رہی ہیں اور عمارتوں کی توڑ پھوڑ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔اگر آپ خود اس بات کا تجربہ کرنا چاہیں تو چند ہفتوں تک اپنے گھر کے لان اور دیواروں کے پاس موجود پودوں کی دیکھ بھال اور کانٹ چھانٹ بند کر دیں۔نتیجہ از خود آپ کے سامنے ہو گا ۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ بظاہر معصوم اور ننھے منے نظر آنے والے یہ پودے آپ کی عمارتوں کے لیے اس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں،بشرطیکہ ان کی دیکھ بھال اور کانٹ چھانٹ نہ کی جائے۔

پھر موسمیاتی عوامل بھی بہت اہم ہیں۔ اگر کسی بھی  نظام کی مرمت اورصفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو برفباری،طوفانی ہوائیں،آندھیاں،بارش اور سیلاب ،عالیشان عمارتوں کو گھن کی طرح کھا جائیں گے اور صرف چند عشروں میں ہی تعمیرات انحطاط کا شکار ہو جائیں گی۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چند عشروں میں ان تعمیرات کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ہمارے پاس پتھروں اور کنکریٹ سے بنی سینکڑوں سال پرانی عمارتیں بھی موجود ہیں۔بلکہ ہم ایسی تہذیبوں کے آثار بھی دیکھ سکتے ہیں جو 3000سال سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔وہ بھی انسانوں ہی کی تعمیر کردہ ہیں۔ٹھیک اسی طرح ماضی قریب کی بنی ہوئی تعمیرات کے آثار بھی یقینا آئندہ ہزاروں سال تک موجود رہیں گے۔مثلاََ کنکریٹ سے بنی ہوئی سڑک اگرچہ کئی جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی لیکن اسے مکمل طور پر غائب ہونے میں بہرحال بہت طویل عرصہ لگے گا۔

نو حیاتی ماحولیاتی نظام  (ایکوسسٹم) کی تعمیر

چنانچہ درج بالا حقائق کو مدّنظر رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک بار انسان منظرسے غائب ہو گئے تو یہی صورت حال تقریباََ تمام حیاتی ماحولیاتی نظاموں میں سچ ثابت ہو گی۔تاہم جانوروں کی واپسی کی یہ شرح مختلف ہو سکتی ہے۔زیادہ گرم اور مرطوب علاقوں میں ،جہاں ان ایکو سسٹمز کی تعمیر نو زیادہ تیزی سے ہو گی ،وہاں جانوروں کی واپسی اور افزائش بھی ان علاقوں کی نسبت زیادہ تیز ہوگی،جو ٹھنڈے یا خشک وبنجر ہیں۔

انسان کی غیر موجودگی میں جنگلات صرف 50سے70سال کے عرصہ میں 80فیصدتک اپنی اصل حالت میں آجائیں گے اور 200سال میں یہ واپسی 95فیصدتک ہو سکتی ہے ۔اس کے برعکس ،وہ علاقے جہاں پہلے جنگلات کا مکمل صفایا کیا گیااور پھر دوباری درخت لگانے کا عمل شروع کیا گیا ،وہاں پودوں کی کئی نسلوں کو اپنی اصل حالت میں آنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہیں۔

جہاں تک چاول،گنا اور مکئی جیسی فصلوں کا تعلق ہے جودنیا بھر میں سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہیں اور ہماری غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہیں،وہ بہت تیزی سے ختم ہو جائیں گی۔

کیونکہ  ان میں جینیاتی طور پرایسی تبدیلیاں ہو چکی ہیں (یا کی جا چکی ہیں)کہ اب وہ مخصوص حالات اور امدادی اشیا (کھاد،سپرے)کے بغیر بہتر طریقے سے پرورش نہیں پا سکتیں۔کچھ حیاتی ماحولیاتی نظام شاید اس حالت پر کبھی واپس نہ آسکیں،جیسے وہ انسانی مداخلت سے قبل تھے کیونکہ  اب وہ ایک نئی قائم حالت پر پختہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے

انہیں واپس اصل حالت میں آنے کے لیے مزاحمت کا سامنا ہو گا۔

جانور اوران کےمسکن

ہماری غیر موجودگی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ناپیدگی کا شکار تمام جانور چند ہی سالوں میں اپنی تعداد کو بہت زیادہ بڑھا لیں گے،بلکہ کئی انواع کی تعداد میں واضح کمی بھی متوقع ہے۔مثلاََاس وقت دنیا بھر میں مویشیوں(بھیڑ،بکری،گائے،بھینس)کی تعداد کم و بیش 4بلین سے زائد ہے۔ان کی ایک عظیم اکثریت انسانوں کے زیرسایہ پرورش پا رہی ہے۔اگر انسان غائب ہو گئے تو ان کی تعداد میں واضح کمی ہو گی۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ 85فیصدجانوروں کو مسکن (یعنی ان کے فطری ماحول)میسر آجائیں گے۔جنگلات اور جھیلوں کے اپنی اصلی حالت میں آجانے سے کئی انواع کو ان کا قدرتی

مسکن دوبارہ حاصل ہو جائے گا۔بہر حال اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کرنے والے (غیر پالتو)جانور، انسان کی عدم موجودگی میں، یقینا اپنے فطری ماحول کو دوبارہ حاصل کر لیں گے اور اس طرح ان کی تعداد میں اضافہ یقینی بات ہے۔

ناپیدگی یا معدومیت ایک غلط فہمی تو فوراََ دور کر لیجئے ”کہ صرف انسان ہی جانوروں اور پودوں کی ناپیدگی کے تن تنہا ذمہ دار ہیں“۔پودوں اور جانوروں کی کئی اقسام انسان کی پیدائش سے قبل ہی اپنا وقت گزار کر ناپید ہو چکی ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق تو ناپیدگی(معدومیت)بھی قدرت کے نظام کا ایک حصّہ ہے۔بلکہ پودوں اور جانوروں کی کئی اقسام تو ایسی ہیں کہ اگر انسان ان کی حفاظت نہ کرتے تو وہ آج معدوم ہو چکی ہوتیں۔

لیکن بہر حال مجموعی طور پر انسانی سرگرمیوں کی بدولت کئی انواع کو واقعی معدومیت کا خطرہ ہے ۔یقینی طور پر، انسانوں کے بغیر زمین، معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کے لیے بہت محفوظ ثابت ہوگی۔ پوری دنیا کی انواع ایک دوسرے کے اضافے میں بہت ممدو معاون ثابت ہوں گی اور قانونِ بقا کے تحت اپنی نسل کو زیادہ عرصے تک قائم رکھ سکیں گی۔

آبِ رواں کے اندر

اگر چہ ہم پانی میں نہیں رہتے لیکن پانی میں رہنے والوں کے لیے دردِ سر ضرور ہیں۔ہمارے غائب ہوتے ہی سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد نہایت تیزی سے بڑھے گی۔

اگرچہ عام طور پر انسانوں سے اصل خطرہ صرف چھوٹی مچھلیوں کو ہوتا ہے ،کیونکہ بڑی مچھلیاں نسبتاََ گہرے پانی میں رہتی ہیں۔لیکن جدید آبی ٹرانسپورٹ کی بدولت اب انسان سمندر کے گہرے پانیوں تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔جس کی وجہ سے بڑی مچھلیاں بھی زیرعتاب آرہی ہیں ۔بڑی مچھلیوں کی قلت کی ایک اور وجہ چھوٹی مچھلیوں کی قلت بھی ہے کیونکہ  وہ انھیں کھا کر اپنا گزارہ کرتی ہیں۔انسانوں کی عدم موجودگی میں چھوٹی مچھلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور اس طرح بڑی مچھلیوں کی خوراک کا بھی نبدوبست ہو جائے گا۔

انسانوں نے طبی تحقیق کی غرض سے ساحل کے قریب سمندری فرش سے مونگے کی چٹانیں (کورل ریف)حاصل کرنا شروع کر دی ہیں جس سے سمندری حیات کو مسکن کی قلت کا سامنا ہے۔انسانوں کی عدم موجودگی میں یہ خوبصورت مونگے کی چٹانیں اور گہرے سمندری فرش میں مختلف اقسام کے (سمندری چٹانوں کے اندر)مکانات دوبارہ اگنا شروع ہو جائیں گے اور اس طرح سمندری حیات کو قدرتی مسکن دستیاب ہو گا جو ان کی حفاظت اور بڑھوتری میں ممدومعاون ثابت ہو گا۔

لیکن آبی حیات کا اصل تحفظ یہ ہو گا کہ انھیں کئی اقسام کے کثیف اور خطرناک کیمیائی مرکبات سے آلودہ پانی سے نجات مل جائے گی۔سائنسی لیبارٹریوں،فیکٹریوں،کارخانوں اور شہروں کا غلیظ پانی آخر کار سمندروں میں ہی پہنچتا ہے ،جو آبی حیات کے لیے نہایت ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔

آلودگی

اس بات پر تو سب ہی کا اتفاق ہے کہ ہر قسم کی آلودگی صرف اور صرف انسانوں ہی کی موجودگی کا خاصہ ہے۔انسانوں کے بغیر ہی بری،بحری اور فضائی ماحول کو اس عفریت سے نجات مل سکتی ہے۔انسانوں کے جاتے ہی سب سے پہلے فضا صاف ہونا شروع ہوگی۔فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھویں کا ہوا میں اخراج ،فضائی آلودگی کا سب سے بڑا عامل ہے۔لیکن فضا سے ان آلودہ عناصر کی صفائی مرحلہ وار ہی ہوگی۔مثلاََ نائٹروجن اور سلفر کے آکسائیڈز جیسے آلودہ عناصر فضا سے چند ہی ہفتوں میں ختم ہو جائیں گے۔البتہ کلوروفلوروکاربنز اورکاربن ڈائی آکسائیڈز وغیرہ کو کرہ ہوائی سے مکمل طور پر تلف ہونے میں کچھ زیادہ وقت لگے گا۔

ان کلوروفلوروکاربنز کی وجہ سے ہی ہماری زمین کے گرد موجود اوزون کی تہہ میں سوراخ ہو گیا تھا۔ اوزون کی یہ تہہ سورج سے آنے والی خطرناک شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے اور ایک حفاظتی فلٹر کا کام دیتی ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے جب دنیا بھر میں لاک ڈائون لگایا گیا اور اکثر صنعتی سرگرمیاں بند ہو گئیں تو چند ماہ کے دوران ہی اوزون کی یہ تہہ اپنی اصل حالت میں واپس آنا شروع ہو گئی۔

(گلوبل وارمنگ)  عالمی تپش

عالمی تپش موجودہ دور کا نہایت اہم مسئلہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ تصور کیا جاتا ہے ،جوکہ سراسر ہماری صنعتی ترقی کا شاخسانہ ہے۔

عام طور پر سمندر میں جذب ہوجاتی ہے۔  ایندھن(تیل) کے جلنے سے خارج ہونے والی زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ

اگر اس کامزید انجذاب روک دیا جائے تو سطح آب سے اس کا اثر چند عشروں میں ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن سمندر کی تہہ میں موجود اس کی اضافی مقدار کو ختم ہونے میں ہزاروں سال بھی لگ سکتے ہیں۔۔اگر ہم غائب ہوجاتے ہیں اور فضا میں اس کا مزید اخراج رک بھی جائے، تب بھی کم از کم اگلے کئی سال تک فضا میں موجود اضافی

کابن ڈائی آکسائیڈ اپنے اثرات جاری رکھے گی اور عالمی تپش میں اضافہ شایدچندسال تک جاری رہے ۔

کبھی ہم بھی تم بھی ،موجود تھے۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے غائب ہونے کے ایک لاکھ سال بعد ،کرہ ارض پر آنے والی کسی خلائی مخلوق کے لیے ایسی کسی واضح نشانیوںکی موجودگی کے امکانات بہت کم ہیں کہ یہاں کبھی ایک ترقی یافتہ تہذیب موجود رہی ہو گی۔اس کی ایک واضح مثال “اٹلانٹس”نامی ترقی یافتہ تہذیب کی ہے جو(بقول کئی ماہرین )کبھی موجود تھی لیکن جدید ترین آلات اور کئی کوششوں کے باوجود ابھی تک اس کی باقیات کے آثار نہیں مل سکے۔

لیکن اگر اس خلائی مخلوق کے پاس خاصے بہتر آلات ہوئے تو شاید وہ ہماری موجودگی کے چند شواہد دیکھ سکیں۔رکازی ریکارڈایک بہت بڑی نشانی ثابت ہوگا۔جیسا کہ ہمیں ایسے کئی بڑے بڑے ممالیوں کے رکازات حاصل ہوئے ہیں ،جو گزشتہ برفانی عہد سے تعلق رکھتے تھے۔

انھیں ذرا گہری کھدائی کرنے پر ایسی نشانیاں بھی مل سکتی ہیں،جو ایک ترقی یافتہ ذہین تہذیب کی گواہی دے سکیں۔خاص طور پر اگر انھوں نے ایسے علاقوں میں کھدائی کی،جہاں کبھی شہر آباد تھے تو انھیں شیشہ،پلاسٹک کی چیزیں،کاغذ،فولادی ڈھانچے،سونے کے دانت اور زیورات وغیرہ بھی مل جائیں۔

سمندرکی تہہ میں موجود تلچھٹ اس ترقی یافتہ عرصے کو ظاہر کرے گی جب کئی بھاری دھاتیں (مثلاََ پارہ وغیرہ)وہاں جمع ہوئیں۔یہ بھاری دھاتیں ہماری صنعتی ترقی کی یادگار ہوں گی ۔پھر فضا میں چند ایسی گیسوں کے شواہد بھی ملیں گے جو عام طور پر قدرتی حالت میں نہیں پائی جاتیں۔خاص طور پر پرفلوروکاربنز ،جن کی نصف عمر(لاف لائف) بھی کئی ہزار سال ہے۔

آخر میں،اس پوری صدی کے دوران کرہ ارض سے خارج کی گئی طاقتور ریڈیائی لہریں جودور دراز کہکشاﺅں تک پہنچی ہوں گی،وہ  اس بات کا ثبوت ہوں گی کہ یہاں پر کبھی ”کچھ“ کہا اور سنا گیا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی تہذیب کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ،جو(اپنے منہ میاں مٹھو) اپنے آپ کو بہت ترقی یافتہ اور جینیئس سمجھتی تھی،یہ نشانیاں بہت تھوڑی اور کمزور ہیں۔کیونکہ  آئندہ چند لاکھ سال میں بے تحاشا زمینی کٹاﺅ اور چند برفانی ادوارکے بعد ہماری اکثر نشانیاں اور آثار نیست ونابود ہو جائیں گے۔

ہمیں اس تلخ حقیقت کو قبول کرنا ہی ہوگا کہ یہ زمین اور یہاں موجود دیگر انواع ہمیں ناقابل یقین تیزی سے فراموش کر دیں گی۔اور

Advertisements
julia rana solicitors london

”ہماری داستاں بھی نہ ہوگی،داستانوں میں “۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انسانوں کے بغیر دنیا کیسی ہو گی؟ ایک سائنسی جائزہ۔۔          ملک محمد شاہد اقبال

Comments are closed.