وہ لوٹ رہا ہے۔۔مظہر اقبال کھوکھر

وہ بھاگ رہا تھا اس کی سانس پھولی ہوئی تھی مگر پھر بھی اس کی رفتار کم نہیں ہو رہی تھی وہ بہت جلدی میں تھا، تمام حدیں عبور  کر جانا چاہتا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ یہ زندگی ایک سفر ہے اور سفر میں ناتے ،رشتے ، تعلق ، واسطے ، رابطے، باتیں اور سب کچھ عارضی ہوتا ہے سفر میں پوری توجہ صرف اور صرف منزل پر مرکوز رکھنی پڑتی ہے مگر اس نے سفر کو ہی منزل سمجھ لیا تھا اس لیے تو وہ اپنی منزل کو بھلا بیٹھا تھا اس نے اپنی منزل دولت کو بنا لیا تھا ،عیش و عشرت کو منزل سمجھ لیا تھا ،جاہ و جلال کو منزل جان لیا تھا ،تو ایسے میں مقصد کہاں یاد رہنا تھا ،اس بے مقصد زندگی نے انسان کو مشین بنا دیا ،وہ خود کار مشین کی طرح کام کرنے لگا۔ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، باہر جانا ، واپس آنا ، سونا جاگنا ایک مشینی طرز پر سرانجام دینے لگا اس کے پاس سب کچھ تھا مگر احساس نہیں تھا وہ اپنی قیمتی گاڑی میں بیٹھتا تو راہ چلتے لوگ اسے حقیر نظر آتے وہ اپنے عالی شان بنگلے کی بالکونی سے کچی بستی کے مکینوں کو دیکھتا تو کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ بھوک کیا ہوتی ہے غربت کس طرح انسان کی خواہشات کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا بے بسی کس طرح انسان کے جذبات کو پامال کر دیتی ہے اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا انسان کے لیے کس قدر مشکل ہو جاتا ہے اسے یہ سب معلوم نہیں تھا کیونکہ اس کے اندر کی بے حسی نے اس کے چہرے کی معصومیت بھی چھین لی تھی اس کے اندر کی سنگدلی اس کے چہرے کی کرختگی سے واضح ہو رہی تھی اس کی آنکھوں میں دولت کا خمار نمایاں تھا اس کا خون سفید ہو گیا تھا، رشتوں کا احترام ختم ہو گیا تھا، انسانیت کا احساس ختم ہو گیا تھا, صرف مال و زر اور دولت و حشمت اس کی زندگی کا مقصد بن گیا وہ اپنے آپ کو بھول گیا تھا تو پھر کسی اور کو کیا یاد رکھتا وہ تو مالک ارض و سما کو بھی بھلا بیٹھا جو صبح شام اسے یاد دلاتا
اللہ‎ اکبر ۔۔ اللہ‎ اکبر
اللہ‎ سب سے بڑا ہے ۔۔ اللہ‎ سب سے بڑا ہے
مگر وہ کہتا نہیں میں سب سے بڑا ہوں دولت ہی سب سے بڑی ہے عہدہ ہی سب سے بڑا ہے تعلقات ہی سب سے بڑے ہیں اثر ورسوخ ہی سب سے بڑے ہیں
مالک لم یزل پکارتا
حی علی الفلاح ۔۔۔۔۔ حی علی الفلاح
آؤ فلاح کی طرف آؤ بہتری کی طرف
مگر وہ کہتا کہ میری فلاح یہی ہے کہ میرے پاس مال و دولت کے انبار ہوں دنیا میری محتاج ہوں لوگ میرے سامنے ہاتھ پھیلائیں لوگ سوال کریں۔
تمام جہانوں کا مالک اپنی مقدس کتاب میں بار بار غور و فکر کی تلقین کرتے ہوئے کہتا کہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں مگر انسان کے پاس فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ غور کرتا کہ مقدس کتاب میں”اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ کے ذریعے انسان کو کس خسارے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے،اور   فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِکے ذریعے اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا احساس دلایا گیا ہے۔ مگر وہ اس جلدی میں اپنے پروردگار اس کے حبیب حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ اور اس کی لاریب کتاب کو بھلا بیٹھا تھا۔ اس کی عبادت ریاضت اور صوم وصلوة میں سب کچھ تھا مگر اخلاص نہیں تھا، وہ حج عمرے بھی کرتا، مقدس مقامات کی زیارات بھی کرتا، درباروں درگاہوں پر بھی حاضری دیتا ، محافل و مجالس بھی لازمی منعقد کرتا مگر یہ سب اخلاص سے نہیں بلکہ دکھلاوے کے لیے کرتا تھا نمود و نمائش کے لیے کرتا تھا اس کی بے حسی برقرار تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ بھوک افلاس غربت اور فاقہ کشی کیا ہوتی ہے وہ بہت تیزی میں تھا وہ بہت جلد آگے بڑھ جانا چاہتا تھا تمام حدیں کراس کر جانا چاہتا تھا۔
مگر اچانک سب کچھ رک گیا وہ آگے بڑھنے کے بجاۓ پیچھے آنے لگا وہ پلٹنے لگا، کورونا نے اس کی زندگی کا رخ بدل دیا اسے خوف آنے لگا، اسے دن بھر پکارنے والی اس آواز سے سکون آنے لگا وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ‎ اکبر اللہ‎ اکبر پکارنے لگا ،وہ حی علی الفلاح کی صدائیں دینے لگا وہ جس سکون کی تلاش میں بے سکون تھا آج وہ سکون اس پکار میں نظر آنے لگا ،وہ اس آواز کی طرف دوڑا مگر اسے روک دیا گیا اسے گھر میں پابند کر دیا گیا۔ اسے معلوم ہوا بھوک کیا ہوتی جیب میں پیسے ہوں مگر وہ آزادی سے اور مرضی سے کچھ خرید نہ سکے مگر جن کی جیب میں پیسے بھی نہ ہوں ان کی حالت کیا ہوگی۔ مریض تڑپ رہا ہو دوائی کے پیسے نہیں تو گھر والوں کی حالت کیا ہوگی۔
ایک وائرس نے احساس دلایا کہ انسان کتنا بے بس ہے ۔ آج اسے خیال آرہا ہے کہ واقعی انسان خسارے میں ہے اسے سوہنے رب کی ایک ایک نعمت بھی یاد آرہی ہے خوشگوار آب و ہوا ، حرارت ، روشنی اور سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے جسم کا ایک ایک عضو ،سکون کی نیند ، صبح شام پیٹ بھر کر کھانا اور پھر زمین کی تہہ میں چھپے خزانے اور خلاء کی وسعتوں میں نئے جہان، بہت سی چوٹیاں انسان سر کر چکا بہت سی ابھی باقی ہیں مگر پھر بھی شکر سے بہت دور ہو جانے والا انسان آج لوٹ رہا ہے۔
اس حقیقت کی طرف جسے وہ فراموش کر چکا تھا وہ سچائی صرف اور صرف انسانیت میں ہے اس کی مخلوق سے پیار کرکے ہی اس کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے، سوہنے رب کی طرف پلٹنے کا واحد راستہ ایک غریب کی جھونپڑی سے ہو کر گزرتا ہے ۔ بھوک سے بلکتے کسی خاندان کو دیا گیا راشن سوہنے رب کی طرف جانے والے راستے کو صاف کر دیتا ہے۔ کسی گرے ہوۓ کو سہارا دے کر دیکھیں مالک لم یزل تمہیں گرنے نہیں دےگا۔ آج آپ کسی کا ساتھ دیں تو کبھی آپ تنہا نہیں ہوں گے ،تو دیر کس بات کی، آگے بڑھیے اور اس رب کی طرف آنے کے لیے اس کی مخلوق کی طرف آیئے ۔غریب بےبس مفلس نادار اور مستحق لوگوں کا ساتھ دیجیے کیونکہ وہ سکون جس کی تلاش میں انسان بے سکون تھا وہ سکون تو صرف مخلوق خدا کی خدمت میں ہے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply