کسانی دھرم/ندیم اکرم جسپال

پاکستان کی ایک اقلیت ایسی بدقسمت بھی ہے جن کے حق میں بات کرنا تو دور ،ان کے مخالف بیٹھ کے ٹی وی دھڑلے سے پروگرام کیے جاتے ہیں۔یہ اقلیت پچھتر سالوں سے پالیسی سازوں کے نشانے پہ ہے،مگر کُچھ خاص موسموں میں اس اقلیت کے خلاف زہر اگلنے کا فیشن زور پکڑ جاتا ہے۔اخباروں میں دانشور اس اقلیت بارے اپنی دانشوری جھاڑتے ہیں،سرکار اس سے نپٹنے کے لیے وسائل ترتیب دیتی ہے،متعلقہ اے سی صاحب اور ڈی صاحب اپنے کام کاج چھوڑ اس اقلیت کے وسائل پہ زبردستی قبضہ کرتے ہیں،اور ان سے انکا حق چھینتے ہیں۔ہر سال دو مہینے پنجاب کے دیہاتوں میں جنگ کا سا ماحول ہوتا ہے۔

یہ اقلیت کوئی مذہبی اقلیت نہیں،بلکہ پنجابی کسان ہے۔آج کل گندم کی قیمتوں کو لے کے بحث چل رہی ہے،اور اس بحث کا مدعہ صرف یہ ہے کہ کس طرح کسان کو گندم کی قیمت کم دی جائے۔ہر دانشور اپنی اپنی ضربیں تقسیمیں لگا کے،تاویلیں پیش کر رہا ہے کیسے اور کیوں کسان کو اناج کی قیمت کم دینی چاہیے۔ابھی مزید ایک ماہ گزرے گا تو علاقے کی انتظامیہ کسانوں کے گھروں پہ،ستھوں پہ اور کھیتوں میں چھاپے مار کے گندم قبضے میں لے گی،ایسا ماحول بنایا جائے گا جیسے ملک میں جنگ جاری ہو اور اناج کی قلت ہو۔

کمال بے شرمی اور ڈھٹائی سے ان چھاپوں کی وضاحتیں دی جاتی ہیں۔کسان سے اسکا اناج،یعنی اسکا حق زبردستی چھین لینا سرکاری اختیار ہے۔ یہ اختیار مگر نہ تو کسی صنعت کار پہ چلتا ہے،نہ کسی تاجر پہ۔کسی فیکٹری یا کارخانے سے زبردستی مال اٹھانے پہ پرچے ہوجائیں گے،ہڑتالیں ہوجائیں گی مگر کسان کے گھر سے اسکا اناج اُٹھا لو اور ساتھ باعزت لوگوں کو میڈیا پہ چور بنا کے پیش کردو تو بھی کوئی اُف تک نہیں کرتا۔کسی کی غیرت نہیں جاگتی۔شاید برترین حالات سے گزرتی کسی ڈکٹیٹرشپ میں یا بادشاہت میں بھی یہ حال نہ ہو کہ سرکار اپنے زور سے عوام کے گھروں پہ ڈاکے مار کے اناج اکٹھا کرے۔

سرکار کس حق سے یہ اناج اُٹھاتی ہے؟سرکار کا زور کیا لگا ہے گندم کی پیداوار پہ؟کھاد دی تھی؟پانی دیا تھا؟کسان کو ڈیزل یا مشین دی تھی ؟جب ریاستی اِن پُٹ صفر ہے تو یہ دھونس اور زبردستی کسان کا اناج اُٹھانے کا جواز کیا ہے؟

تاویل یہ دی جاتی ہے کہ اگر اناج ذخیرہ ہوگیا تو ملک میں غذائی قلت یا قحط پڑ جائے گا۔قحط تو پڑنا چاہیے،بھوک تو پڑنی چاہیے اس ریاست پہ۔زراعت اور کسان کے ساتھ جو سلوک یہ ریاست کرتی ہے اس کے بعد قحط سے خوف کیوں ہے؟یہ قحط تو تم خود پیدا کر رہے ہو،بلکہ کر چکے ہو۔قحط سے نپٹنے کا بس یہی ہنر تمہیں آتا ہے کہ کسان کے بھڑولے خالی کردو؟اس محنت کش کے جسکا پسینہ بھی ابھی خشک نہیں ہوا ہوتا کہ گندم اے سی صاحب کی زیرِ نگرانی کوئی ذخیرہ کرنے والا آڑھتی اُٹھا لے جائے۔تمہارے قحط کا ذمہ دار کسان نہیں،ریاست ہے۔تم نے کسان کو کیا دیا ہے؟یہ جو ٹُچے دانشور،جنکو آجکل کسان سے تکلیف اُٹھی ہوئی ہے ،جن کو زرعی ٹیکس بڑا ستا رہا ہے،وہ کوئی ایک قدم بتا دیں جو ریاست نے زراعت کی خاطر اُٹھایا ہو؟

ریاست کو خبر بھی ہے کہ سرگودھا کے کنو جن کا ڈھول ساری دنیا میں پیٹتے ہیں اسکا کیا حال ہوا ہے؟خبر بھی ہے کیسے زمیندار اپنا کنو توڑ کے بیچنے کے لیے ترلے کرتا رہا ہے؟کیسے مڈل مین اور ڈیلر پیسہ لے کے بھاگے ہیں ؟کیسے سبزی منڈیوں میں کسان سے زیادہ کمیشن ایجنٹ پیسہ بناتے ہیں؟کیسے گاؤں کے گاؤں زراعت سے تائب ہوکے زمینیں بیچ رہے ہیں؟تمہیں حق کیا ہے کسان سے زبردستی اناج اُٹھانے کا؟
یہ جو ملتان کے آموں کی کہانیاں کتابوں میں چھاپتے ہو اس کا حال پتہ ہے؟ڈی ایچ اے کہاں کہاں سے گزرا ہے تمہیں خبر ہے؟کیسےکارپوریٹ ایگریکلچر زمینداروں کو انکی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کر رہی ہے معلوم ہے؟نہیں معلوم ہوگا،کیوں کہ تمہیں صرف یہ خبر ہے کہ کسی یوٹیوبر نے تمہیں بتا دیا کہ کسان کی فی ایکٹر پانچ لاکھ کی فصل ہوتی ہے۔اور تم اپنا کیلکولیٹر اُٹھا کے ٹیکس لینے آگئے۔

جہاں قحط کے خطرات ہوں وہاں ریاست نئی زمینیں آباد کرتی ہے،کسانوں کو رعایتیں دیتی ہے،کسانوں کو ہنر اور مشینری دیتی ہے،یہاں ریاست صرف قبضہ کرنا جانتی ہے۔آدھی زرعی زمین پہ قبضہ کر کے سوسائٹی بنا دی،بقایا زمین سے جو فصل ہوئی اس پہ قبضہ کر کے سرکاری گودام میں ڈال دی۔ریاستی سوچ ہی قبضہ مافیا جیسی ہے۔قبضہ مافیا سے نپٹنے کے لیے زمینداروں کو وہی کرنا چاہیے جو ہم قبضہ کرنے والوں کے ساتھ کرتے ہیں،ٹانگیں توڑ دو ان کی۔

خیر قبضہ گروپ سے ٹکر بھی تب لے سکتے تھے اگر ہم میں سکت ہوتی یا ہم میں کوئی تگڑی آواز ہوتی۔ ہم کسانوں نے اپنے ساتھ خود ظلم کیا ہے،ہر بچہ جو چار جماعتیں پڑھ گیا اسے زراعت سے الگ کردیا،نتیجہ یہ نکلا کہ نہ زراعت میں جدت آئی،نہ دانشوروں کو جواب دینے کے لیے کوئی پڑھی لکھی سُلجھی آواز میسر آئی اور نہ ہم میں کوئی ایسا لیڈر پیدا ہوا جس کے پیچھے کھڑے ہو سکیں۔ہم اپنے بچےتیس ہزار پہ کلرک بھرتی کروا کے اپنا کسانی دھرم چھوڑ بیٹھے۔ہمارے جمہوری نمائندوں کو بھی خدا توفیق نہیں دیتا کہ کبھی اسمبلی فلور پہ ہماری بابت کوئی بات ہی چھیڑ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے نمائندے مسائل سے بے خبر ہیں،اور ہماری ریاست اندھی ۔میرے نزدیک ریاست ان ڈاکوؤں سے بھی بدتر ہے جو رات کے پچھلے پہر گھر والوں کو جگا کے ان کے سامنے انکی حیاتی کی جمع پونجی لے جاتے ہیں۔وہ ڈاکو ہوتے ہیں،انکا کام یہی ہوتا ہے۔مگر ریاست تو تحفظ دیتی ہے،ریاست کا کام اناج کا تحفظ ہوا کرتا ہے،ریاست کب سے ڈاکو بن گئی؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply