عقیدتوں بھرا کاروبار۔۔انعام رانا

خاکسار وکیل تو جیسا تیسا بھی ہے مگر اس بات پہ ہمیشہ نازاں رہا کہ الحمداللہ میرے کلائنٹس نے ہمیشہ مجھ پہ اعتماد کیا۔ کیس ہار بھی گئے تو مجھ پہ اعتماد قائم رکھا۔ اب اس صورت میں کلائنٹس کی جتنی بھی قدر ہو سکے میں کرتا ہوں، وکیل بن کر چھری نہیں پھیرتا، کام محنت سے کرتا ہوں، سٹاف کے  لیے  واضح پالیسی ہے کہ بِنا اچھی کسٹمر سروس وکالت کا کوئی تصور ہماری فرم میں نہیں ہے۔ ایسے میں اگر کبھی “فائل ٹرانسفر ” کی کوئی درخواست آئے تو مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں کوئی کمی رہ گئی اور اسے بہت سیریس لیتا ہوں۔

جب خواجہ (فرضی نام) کی فائل ٹرانسفر  کی درخواست آئی تو ان کو بلا لیا۔ کہا حضرت وکیل بدلنا  آپ کا حق ہے لیکن ہم سے کیا کوتاہی ہوئی یہ لازمی بتائیے تاکہ  آئندہ  بہتری کی گنجائش پیدا کی جائے۔

وہ بولے نہیں رانا صاحب میں  آپ سے بہت خوش ہوں ،وجہ کچھ روحانی ہے۔

ہیں؟ ۔۔۔بھائی مطلب اب فائل ٹرا نسفر  کے بھی خواب آنے لگے کیا؟

بولے، نہیں دراصل میں ایک معروف بزرگ کا مرید ہوں اور “کہے فقیر” نے لندن میں فلاں صاحب کو اپنی جگہ دعا کے لیے  مقرر کیا ہے۔(میری قسمت کہ وہ “صاحب دعا” وکیل بھی ہیں)۔ میں دعا کرانے گیا تھا تو انھوں نے کہا ہے کہ کام  آپ کا ہو جائے گا مگر موجودہ وکیل سے قسمت میں نہیں ہے سو آپ فائل میرے پاس لے آئیں۔

لو بھائی انا للّٰہ، جہاں فقیروں کے خلیفہ وکیل بن کر سرفراز کرنے لگیں وہاں مجھ جیسے خاکیوں کی کیا مجال کہ  پَر بھی ماریں، سو فائل حوالے کر دی۔

کچھ دس ماہ بعد خواجہ واپس تشریف لائے کہ رانا صاحب میرا کام نہیں ہوا، الٹا خراب ہو گیا ہے۔ پہلے تو مذاق کیا کہ “خواجہ جی راجپوتوں کا دامن جس نے چھوڑا اس نے پھر کہیں مراد نا پائی کہ آخر میں بھی تو ایک ممکنہ نبی رام جی کی اولاد ہوں”۔ خواجہ نے پھسپھسی سی ہنسی ہنس کر کہا ،کر لئو جی مذاق، میں تے فقیر دی کہی لگیا سی۔ سوا سال لگا مجھے کیس دوبارہ سیدھا کرتے کرتے اور الحمداللہ اس ہفتے بالآخر خواجہ نے مراد پائی۔

سجنو، اس قصے میں غلط کیا تھا؟ کلائنٹ کا کیس کسی اور وکیل کے پاس لیجانا غلط نہیں ہے، وکیل کا کسی دوسرے وکیل سے خود کو بہتر بتا کر کلائنٹ پٹانا بھی غلط نہیں ہے، اور اس وکیل کا کیس ہار جانا بھی کوئی ایسی ابنارمل بات نہیں ہے۔ اس سب میں غلط “مذہب/روحانیت اور اسکے زور پہ لی گئی پوزیشن” کا غلط استعمال تھا۔ یعنی آپ اپنے دنیاوی مفاد کو مذہب اور عقیدت کے ساتھ ایسے نتھی کر دیں کہ عقیدتمند مجبور ہو جائے۔

ہمارے لیے بہترین اسوہ سیدی رسول کریم ﷺ  کی ذات اکمل ہے۔ آپ نے بہت بار سنا ہو گا کہ سید کو  زکوۃ  صدقہ نہیں لگتا۔ کبھی سوچا ہے کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ دور نبوی ﷺ  میں صدقات و زکوۃ   ایک ریاستی ٹیکس تھا ،جس سے ریاست مدینہ کے معاملات چلائے جاتے تھے، ریاست کے غربا کی مدد کی جاتی تھی۔ سیدنا رسول کریم ﷺ  بطور سربراہ ریاست و نبی اس قدر محتاط تھے کہ اس آمدنی کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے  ناجائز قرار دے دیا۔ روایت ہے کہ سیدنا حسن ع کے دہن مبارک سے صدقہ کی کھجور انگلی سے نکال دی۔ امہات المومنین ع و اہل بیت اطہار ع کا تمام تر خرچہ اس آمدنی سے چلتا تھا جو مال غنیمت میں بطور حصہ ملتی تھی یا وہ کہ جسکے متعلق قرآن نے کہا کہ بِنا جنگ کیے ملی یہ جائداد فقط رسول کریم ﷺ  کی ہے ،تاکہ وہ اپنے اہل بیت اور غربا و مساکین پہ خرچ کریں۔ “اپنی مذہبی و سیاسی پوزیشن” کے حوالے سے ایسی احتیاط کی مثال  آپ  کو شاذ ہی ملے گی۔ اسی وجہ سے آپ لاکھوں صحابہ میں سے سیدی رسول اکمل ﷺ  کے تربیت یافتہ سو دو سو صحابہ کا رویہ دیکھیے، ایسا ہی شدید احتیاط کا ملے گا۔ سیدنا عمر رض کا سیدنا ابوبکر رض کو خلیفہ بنتے ہی کاروبار نہ  کرنے کا کہنا اسی تربیت کا نتیجہ تھا۔ مولا علی ع کا اپنے دور خلافت میں بیت المال میں جھاڑو مار کر سونا اس ہی تربیت کا کمال تھا۔

ہم نے مانا کہ ہم اس دور میں ہیں جب سماج ہر پہلو سے پستی کا شکار ہے۔ ہمارے خواص و عام بہترین لوگ نہیں رہے۔ لیکن جو بھی مذہب کا نام لیوا ہو، داعی ہو، مبلغ ہو، اس کے  لیے  احتیاط کی شرائط عام مجھ جیسے مسلمان سے بہت کڑی ہوں گی۔ چنانچہ ایک عام سے شہد کو کوئی اسلامی شہد کہہ کر بیچے تو وہ آپ کی عقیدت کا استحصال کر رہا ہے۔ کوئی اپنا کپڑا لتا آپکی عقیدت کے زور پہ بیچے تو غلط ہے۔ بہت سے دوست اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ “یہ تو جی چاہتے ہیں کہ مولوی بس چندہ مانگے”۔ نہیں صاحب، کاروبار اور ترقی مولوی کا اتنا ہی حق ہے جتنا عام انسان کا۔ میری تو دِلی خواہش ہے کہ “مولوی” کاروباروں کی جانب آئیں تاکہ مساجد کاروباری ذہنیت سے آزاد ہوں۔ تاکہ مدرسہ کا مہتمم ایک غریب مولوی کا استحصال نہ  کر سکے کیونکہ اس بیچارے کو اور کچھ آتا ہی نہیں اور مہتمم یا کئی بار مسجد کمیٹی کی زیادتی کے باجود اسی کام پہ لگے رہنے پہ مجبور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن کاروبار اپنی پراڈکٹ کے محاسن پہ کیجیے ناکہ عقیدت و مذہب کو استعمال کر کے۔ جب آپ یہ اعلان فرما دیں کہ “میرا کاروبار دراصل مدارس کا خرچ چلانے کے  لیے  ہے” تو آپ نے یہ پیغام دیا کہ “مجھ سے خریدنا اسلام و مدارس کی خدمت ہو گی”۔ اب آپ دو لاکھ والا حج اپنی معیت میں پانچ کا کروائیں یا اپنی سادگیوں کے درس کے برعکس پانچ سو والا ایک کرتا چاہے پانچ سو کا ہی بیچیں یا مہنگا، آپ نے عقیدت اور عقیدت کو استعمال کرتے ہوے نا صرف دیگر کاروباری حضرات کے ساتھ غلط کیا بلکہ گاہک کا استحصال کر لیا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply