• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • میر تقی میر کے کلام کی دورِ حاضر کے ساتھ مطابقت/سیّد عبدالوحید فانی

میر تقی میر کے کلام کی دورِ حاضر کے ساتھ مطابقت/سیّد عبدالوحید فانی

؂ ریختے کے تمھی استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

میر صاحب تو اب اس جہانِ فانی میں نہیں رہے لیکن ان کے سخن کا راج آج بھی اسی رنگ ڈھنگ سے سخن فہم اور شائقینِ ادب کے دلوں پر جاری و ساری ہے آج بھی میر کا نام و کلام بے اختیار لبوں پر “آہ” لانے کا سبب بنتا ہے۔ اور آج بھی ان کا کلام نئی نسل سے محوِ گفتگو ہے اور انھیں موجودہ زمانے میں (پرانے انداز سے) ان گنت نئے نئے اصول عشق سکھاتا ہے، اسرار ورموز کے دروازے کھولتا ہے اور علم و دانش کا سبق دیتا ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ کلامِ میر اہلِ فہم اور عشاق کے لیے قال و حال کا ایک بے مثال درس گاہ ہے۔ جہاں اربابِ ذوق اور مبتلائے عشق دونوں برابر اور مسلسل مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی، میر کا کلام سنتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ہے اور مجازی معشوق کے بجائے ان کی شاعری سے عشق ہونے لگتا ہے۔ کچھ اسی موضوع پر میر ایک شعر میں اپنے کلام کے دیوانوں کی طرف یوں مخاطب ہے:
؂ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
اگر یہاں پر رونے سے ایک خاص قسم کا تعجب مراد لیا جائے۔ وہ تعجب جو کسی کو پہلی بار ہی میں گہری حیرت میں مبتلا کر دے، تو پھر دوسرے مصرعے میں “آگے آگے دیکھیے”، مزید مطالعۂ میر کی طرف راغب کرتا ہے۔ یعنی کہ تو (قاری) تو کچھ اشعار پڑھ کر ہی رونے نے لگا ہے اور اس کے طلسمی در و بست سے خود کو آزاد نہیں کر پا رہا۔ اب تُو آگے آگے پڑھتا رہ اور پھر دیکھ کیا ہوتا ہے۔

اس تیزی سے گزرتے ہوئے زمانے اور دن بہ دن بڑھتی مادی مصروفیات میں بھی ایک شاعر سخن آزمائی کے دوران غالب کا یہ اعتراف ہر گز نہیں بھولتا کہ “اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا”۔ جس نے تین سو سال قبل اپنے ذخیرۂ الفاظ کی دلکش بندش سے ایسی ایسی فصیح و بلیغ اور دل پذیر اشعار لکھے جن کی نظیر ان سے پہلے بہت کم ہی دیکھنے ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس حقیقت کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کرنی ہوگی کہ میر صرف ایک خاص زمانے یا علاقے تک قید نہیں ہے، بلکہ ہر زمانے میں ان کے کلام نے اپنا سکہ بٹھایا۔ چاہے وه مصحفی ہو یا غالب، یا پھر ناصر کاظمی، سب کسی نہ کسی پہلو میں میر سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ آج کا شاعر بھی اگر میر کے کلام سے واقفیت نہ رکھتا ہو تو اسے حلقۂ ادب شناس میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
میر تقی میر تین صدی پہلے کا شاعر اکیسویں صدی میں بھی اردو ادب میں خدائے سخن کے مقام پر قائم و دائم ہے اور اس درمیان کے ماہ و سال میں کوئی ایسا شاعر نہیں آیا جس نے یہ خطاب اپنے حق میں میر صاحب سے بزورِ سخن اپنایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تب بھی کہا تھا اور آج بھی ان کا کلام اس دعوے ناطق ہے:
؂ بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا

میر کے کلام پر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں ان کے کلام کا انتخاب کس حد تک کار آمد ہے اور کیا ان کی شاعری کا کوئی عملی پہلو بھی ہے؟ اس کا ایک آسان سا جواب ہے جو معیشت کے پہلو سے کار آمد ہے۔ یعنی کہ ماڈرن اکنامکس کی مارکیٹ جس کا تصور ایک صدی پہلے دیا گیا تھا، اسے میر نے اپنے زمانے میں ایک شعر میں بڑے نہایت خوبصورت انداز میں سمجھایا:
؂ یوسف کی اس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ
ایسی متاع جاتی ہے بازار ہر طرح
اس شعر میں میر صاحب نے کیپیٹلزم اور تمام مارکیٹ فورسز کو لپیٹا ہے۔ اور اس کے برعکس ایک اور شعر میں انھوں نے لفظ معیشت کو معاشی یا تجارتی لین دین کے بجائے معاشرتی یا انسانی احساسات کی لین دین کے لیے بطور محاورہ استعمال کیا ہے:
؂ ہائے ستم ناچار معیشت کرنی پڑی ہر خار کے ساتھ
جان عزیز گئی ہوتی کاش اب کے سال بہار کے ساتھ

میر کے کلام کا زمانہ حال سے مطابقت کے پہلو کو سمجھنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے جن سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کے پست حالی سے دوچار تھا۔ موجودہ زمانہ بالکل اسی انداز کے عوامی مسائل، انتشار اور افراتفری کا سامنا کر رہا ہے۔ اور مستقبل کا تعین کرنا بھی مشکل ہے۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل آفرین شاعر ہے یعنی وہ اپنے زمانے کے علوم و فنون سے تو مطابقت رکھتا ہی ہے، لیکن اس کے برعکس وہ اپنے زمانے میں ہوتے ہوئے آگے کے زمانوں کا ہوتا ہے۔ ان کے کلام کا طلسم ہر صدی میں کارِ عمل ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور رکھتا ہے۔

؂ امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھیں کی دولت سے
اگرچہ اس زمانے میں سرمایہ دارانہ نظام کا باقاعدہ کوئی نفاذ نہیں تھا۔ مگر اس شعر میں میر نے ایک روایتی رومان پسند شاعر کے برخلاف (جو ہر وقت اپنے افسانوی تصورات میں کھویا ہوا ہوتا ہے) حقیقت پسندی کا دامن تھامے ہوئے اس طرف بھی اپنے تخلیقی فن کا توجہ راغب کیا ہے۔ اس شعر کو موجودہ زمانے کے سرمایہ داروں کی خدمت میں شکوہ آمیز تنقید کی صورت میں پیش کرنے کے لیے بہترین انتخاب قرار دیا جا سکتا۔ اس میں مروجہ عالمی سیاسی و معاشی نظام کا ہو بہو عکاسی کی گئی ہے۔ جہاں ایک خاص طبقے نے آفاقی مادی تسلسل کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ آج بھی غربت و امیری کی متضاد گروہ بندی کی وجہ سے ایک طبقے کی دولت میں افراط دوسرے طبقے کی دولت میں تفریط کا باعث بنتا ہے۔ میر نے اسی سرمایہ دارانہ ملوکیت کے مستفیض شدہ حامیوں کے لیے امیر زادوں کا نام مختص کیا تھا۔ جن کی دولت میں فراوانی کے سبب کو انھوں نے خود کو غربت اور فقیری سے منسوب کیا ہے۔ زمانۂ جدید میں اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹر نیشنل اور سول رائٹس ڈیفینڈرز جیسے بےشمار تنظیمیں انسانی حقوق کے حصول اور بالادستی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کا یہی مقصد ہے کہ کسی بھی طریقے سے انسانیت کی پامالی کو روکا جائے اور انسانی عظمت کو فروغ دیا جائے۔ اس پہلو پر میر کے بہت سے اشعار ملتے ہیں۔ بلکہ یہ ان کے شاعری کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے۔ انھوں نے اعلیٰ انسانی اقدار کو بڑی کثرت سے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ اس رنگ کی جھلک جگہ جگہ پر ان کے کلام میں ملتی ہے۔ جس کے لیے اکیسویں صدی میں منصوبے تیار کے جاتے ہیں اور پھر ان کی نفاذ یقینی بنانے کے لیے مختلف ممالک میں دن رات ہاتھ پاؤں مارے جاتے ہیں۔ اسی انسانی اقدار کی تقدم کے حوالے سے میر کا ایک شعر ہے:
؂ آدمی کو ملک سے کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انسان کی

اس کے علاوہ موجودہ وجودیت، اخلاقیت، اقدار اور انسان نوازی (ہیومنزم) کے فلسفیانہ نظریات کا ایک اہم رخ یعنی انسانی تقدس و حرمت کے تعین و تشخص کی فوقیت معلوم کرنا ہے۔ جو کہ جدلیاتی مادہ پرستوں، تجربیت پسندوں، اشتراکیت پسندوں اور معتقدینِ انسانیت کے درمیان طویل عرصے سے زیرِ بحث آرہی ہے۔ اسی بحث کے تناؤ کو کم کرنے یا بالکل ختم کرنے کے لیے میر نے اپنے انداز میں تین سو سال قبل ہی اپنے اشعار میں کہا تھا:
؂ مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
؂ باوجود ملکیت نہ ملک میں پایا
وہ تقدس جو ہے حضرتِ انسان کے بیچ
اس کے ساتھ ساتھ میر صاحب ایک شعر میں ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ جس میں وہ پیدائشِ انسان کو خداوندی بخشش سمجھتا ہے۔ جسے وہ یوں بیان کرتا ہے:
؂ میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا

Advertisements
julia rana solicitors london

میر کے کلام کا دورِ حاضر کے ساتھ موافقت ایک داخلی موضوع ہے۔ اس کے مختلف پہلو ہیں۔ اور ان پر مختلف انداز سے تنقیدی بحث کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے کچھ پہلوؤں کو میں نے اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میر کے تمام رخوں پر بحث کرنے کے لیے کئی دفاتر در کار ہوں گے۔ میر کو سمجھنا حالاتِ حاضرہ کو سمجھنے کے مترادف ہے۔ ان کا سخن زندگی کے کسی نہ کسی شعبے سے کوئی نہ کوئی مطابقت ضرور رکھتا ہے۔ مگر اس سے آگاہ ہونے کے لیے میر کی ادبی اور عمرانی زندگی سے واقف ہونا چاہیے اور ان پر مضبوط گرفت اور گہری نظر ہونی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply