شعری مجموعہ “چراغوں میں لہو” کا طائرانہ جائزہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

علم روشنی ہے جو تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی کو ختم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔جبکہ ادب زندگی کا عکاس ہے۔دونوں کی اپنی اپنی جگہ فضیلت و مقام ہے۔دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی قربت رکھتے ہیں۔
لکھنا پڑھنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور اس سے بڑھ کر تخلیقی منش ہونا ہجوم سے الگ کرتا ہے۔کتاب اور قلم کا صدیوں پرانا رشتہ ہے اور امید کی جاسکتی ہے  کہ جب تک دنیا قائم ہے یہ عمل جاری رہے گا۔ ہر تخلیق کار اپنے حصے کی شمع جلاتا ہے ۔ اپنے افکار و نظریات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے جو انسان کو تنہائی اور بوریت سے بچاتی ہے اورنئی سوچ عطا کرکے ادب سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔

کتابیں انسان کو زندہ رکھتی ہیں۔کسی بھی شاعر کا لکھا ہوا کلام صدیوں زندہ رہتا ہے بشرطیکہ اسے کتابی صورت دی گئی ہو۔اسے بحفاظت قارئین اور لائبریریوں تک پہنچا دیا گیا ہو تو وہ صدیوں کے لئے محفوظ ہو جاتی ہے۔

تاریخ اپنے اندر ماضی کی خوبصورت یادیں چھپا کر رکھتی ہے۔آپ جب بھی اسے یاد کرنا چاہیں وہ آپ کو ضرور ملے گی ۔آج میرے ہاتھوں میں جو کتاب ہے۔اس کا نام “چراغوں میں لہو” ہے۔ نام جتنا مختصر اور اپنے اندر جوہری توانائی رکھتا ہوں ۔ٹائٹل بھی اسی قدر جاذب نظر اور دلوں میں اتر جاتا ہے ۔ کتاب کا پس منظر غور و فکر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔واضح ہو “چراغوں میں لہو” کے شاعر جناب جیمز جان مخفی ہیں۔ گو انہوں نے ادب کی کئی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔البتہ ان کی سچی اور کھری پہچان شاعری میں مضمر ہے۔

ان کی شاعری پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس تخیل کی بلندی ، قلبی درد، ذاتی جذبات ، خارجی مشاہدات، زبان و بیان کی سادگی ، قومی درد ، نسلی تعصب ، سوزوگداز اور فلسفی سوچ کے نمونے موجود ہیں۔وہ اپنی شاعری میں اخلاقی دامن اور قلبی احساسات کو جس جرات ، پرسوز، اور آفاقی لہجے میں بیان کرتے ہیں۔وہ قابل ستائش اور قابل فخر ہے۔ اگر ان کے شعری مجموعہ کو پڑھا جائے تو ان کا کلام تاثیری، مثالی ، اچھوتا ، صوفیانہ اور درد و غم کے آثار میں لپٹا ہوا نظر آتا ہے۔ ٹائٹل پر لکھا ہوا ان کا یہ شعر دنیا کی فکری اور تعمیری آبیاری کرتا ہے۔

اجالے بانٹنے والو چراغوں میں لہو ڈالو
اندھیرے میں کہیں نہ یہ غرق سنسار ہوجائے

شعر اپنی فضیلت و کرامات میں آفاقی صداقت کا ترجمان نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنے کلام میں عداوت و محبت ، تعجب و جرات ، حرام و حلال ، جذباتی افکار اور فطری جذبات کی جو سوغات پیش کی ہے ۔

وہ ان کے پختہ شعور کی عکاسی کرتی ہے۔یقینا ًمناظرِ فطرت اور فطری جذبات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی قدرت کے قریب اور انسانوں کے کرب کو شدت سے محسوس کرتا ہو۔خدا نے اظہار کے لئے انہیں قلم کی جو وسعت بلوغت عطا کی ہے۔ وہ ایک نعمت خداوندی اور تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔وہ حقائق ، جزئیات اور خدوخال کو جس منطقی انداز سے شیریں زبان میں ڈال لیتے ہیں۔ وہ پھول بن کر اپنی خوشبو کا احساس دینے لگتا ہے۔جہاں قلب و ذہن اثر قبولیت کی بہت جلدی حامی بھر لیتا ہے۔

ان کی شاعری میں جو خاص نقطے اور شو شے ہیں۔
وہ آفاقی صداقتوں کی ترجمان بن کر نظر آتے ہیں۔یقینا ً ایک شاعر کا یہی حسن کمال ہے کہ وہ ان حقائق کو بھی بیان کر دیتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
ان کا اسلوب شگفتہ ، زبان میں سلاست و روانی ، ایجاز و اختصار ، فصاحت و بلاغت جیسے عناصر شامل ہیں۔
دنیا خواہشات کا گھر ہے۔اس سلسلے میں ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔

خواہشات کے اس حصار میں قیدی ہیں کتنے لوگ
ان قیدیوں کی مخفی رہائی تلاش کر

میں ان کے شعری مجموعہ” چراغوں میں لہو ” پر یہ محاورا کوڈ کرتے ہوئے اطمینان محسوس کرتا ہوں۔
* اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ * یعنی ہر شخص کی طبیعت اور دلچسپی جدا جدا ہے۔انسان کی زندگی میں تین چیزیں عروج و زوال کی ضامن ہیں۔رحم ،محبت اور کردار۔
ان تینوں کے گرد نقطہ عروج اور نقطہ زوال بنتا ہے۔

جب کوئی شاعر اپنے وسیع تجربے اور مشاہدے کی بنا پر اپنی شاعری کو حقیقت نگاری میں بدل لے تو اس میں خوش طبی ، اعلیٰ ظرفی ، مثبت سوچ ، حکیمانہ بصیرت اور درد و رحم جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔

جے جے مخفی کی شاعری معاشرتی، سماجی ،تہذیبی اور پسے ہوئے طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ اپنے مجموعہ کلام “چراغوں میں لہو” میں اپنی پہچان کو دھندلا نہیں ہونے دیتے۔
میں سمجھتا ہوں انقلاب برپا کرنے کے لیے مسلسل تحریک اور جدوجہد اہم پیمانے ہیں جن کے بغیر فتح کا تصور ممکن نہیں۔وہ ہماری توجہ کچھ یوں مبذول کرواتے ہیں۔
اس شعر میں ان کا شعری وصف دیکھیے۔

حیات فانی میں ایسا کمال کر جانا
تمام شہر کو روشن خیال کر جانا

جے جے مخفی کی شخصیت کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے انہیں سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ عرش سے تارے توڑنا سکھاتے ہیں۔کامیابی و کامرانی پر بات کرتے ہیں۔تاریکی میں چراغ جلاتے ہیں۔روشن خیالی کو بیان کرتے ہیں ۔انسانیت کے شیرازہ پر بات کرتے ہیں۔جدو جہد پر بات کرتے ہیں۔محنت پر ایمان رکھتے ہیں۔سچے جذبات کو شاعری کا نگینہ بناتے ہیں۔ ان کا فکر اور سوچ تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ وہ تعلیم ،محنت ، قابلیت ، جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں۔اگر یہ ہتھیار کسی خاندان سے لے کر قوم کے پاس نہیں تو انہیں زندگی میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آخر میں نمونے کے طور پر ان کی ایک غزل قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

ہم نے ہر سلسلہ ظلم وستم توڑ دیا
روز مرنے سے تو بہتر ہوا دم توڑ دیا

وہ سمجھتا تھا امانت ہے قلم نسلوں کی
جب نا لکھ پایا محبت تو قلم توڑ دیا

غم افلاس پہ ہم نے یہ ستم توڑ دیا
پی کے آنکھوں سے تیری ساغر و جم توڑ دیا

دعوٰی ہوش کیا ہم نے یہی جرم کیا
خوبرو مست نگاہوں کا بھرم توڑ دیا

Advertisements
julia rana solicitors london

اس طرح خود کو محبت کی سزا دیتے رہے
جو تیری سمت بڑھایا وہ قدم توڑ دیا!

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply