اور میں نم دیدہ نم دیدہ (20)-ابوبکر قدوسی

قباء کے راستے میں بہت خوبصورت مسجد جمعہ دکھائی پڑی ، وقت کی قلت کے سبب وہاں رکنا ملتوی کرتے ہوئے آگے بڑھے ، البتہ چلتے چلتے گاڑی سے اس کی تصویر بنائی ۔ یہ مسجد بھی مکمل سفید رنگ کی تھی اور رات کو روشنیوں میں یوں چمک رہی تھی  کہ جیسے سیپ سے نکلا موتی ۔
مدینہ طیبہ میں پہلی جمعہ کی نماز اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ، اور یہ نبی ﷺ کی ہجرت کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ ھاضمات جو کہ مدینہ میں مشہور جگہ کا نام ہے اسی جگہ لوگوں کو جمع کیا تھا اور نماز جمعہ پڑھائی تھی ۔

پھر جب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ سے نکلے تو پہلی نماز جمعہ اسی مقام پر پڑی جہاں بعد میں باقاعدہ مسجد بنا دی گئی ، جس کو مسجد جمعہ کہا جاتا ہے ۔ یہ مقام قبا اور مدینہ کے درمیان میں واقع تھا ۔سیدنا اسعد کی نماز جمعہ پڑھانے کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر جمعہ مکہ میں ہی فرض ہو گیا تھا لیکن حالات کے سبب مکہ میں جمعہ پڑھانا ممکن نہ تھا جبکہ مدینہ میں مسلمان جمعہ پڑھا کرتے تھے ۔ اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ہجرت کے سفر میں مدینہ پہنچے تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی جمعہ کا وقت ہو چکا تھا تو آپ نے نماز جمعہ ادا کی جہاں اب یہ مسجد قائم ہے جس کی تصویریں آپ دیکھ رہے ہیں ۔

مسجد قباء سے ہم کچھ دیر میں ہوٹل پہنچ گئے ۔ رات کے بارہ بجنے کو تھے اور صبح نماز کے بعد زیارات کے لیے نکلنا تھا ، سو آرام کے لیے میں تو فوراً لیٹ گیا ۔
ابھی فجر کی اذان میں خاصا وقت تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ، لیکن طبیعت میں الحمدللہ تازگی تھی ۔ کچھ ہی دیر میں اذان ہوئی اور میں مسجد کو چل دیا ۔ موسم میں خنکی تھی ، اس لیے میں نے ویسکوٹ پہن لی کہ کچھ تو بہتر رہے ۔ اور ایسا ہی ہوا کہ باہر تیز ہوا چل رہی تھی ۔ صبح کا خوشگوار موسم اور دل میں برسوں سے اترا جدائیوں کا موسم دونوں مل کر دل کی عجیب کیفیت کیے دے رہے تھے ۔ صبح صادق کا وقت تھا اور ابھی مسجد کے صحن کی سفید تیز روشنیاں ہر شے کو روشن کیے دے رہی تھی ۔اسی ہجر و وصال کے موسم کو دل میں لیے میں مسجد کے اندر داخل ہو گیا۔ چلتا گیا ، چلتا گیا حتیٰ کہ آخری صفوں پر پہنچ گیا ، صف بندی ہو چکی تھی ایک گہرا سکون میرے اندر اتر رہا تھا ۔ نماز پڑھ کے کتنی ہی دیر وہاں بیٹھا رہا ۔ میرے آگے طلباء کا ایک حلقہ قائم تھا جو حفظ کر رہے تھے ۔میں دیر تک ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ کیسے قسمت والے ہیں ۔جوار نبی میں بیٹھے قرآن یاد کر رہے ہیں ۔پھر میں بنا ارادے کے اٹھا اور جنت البقیع کی جانب چل دیا ۔ایک صاحب سے پوچھا کہ کون سا دروازہ کھلا ہے؟

انہوں نے نشاندہی کی تو میں ادھر چل نکلا ۔مرکزی دروازے پر خاصے لوگ جمع تھے لیکِن ایسا اژدہام نہ تھا کہ کوئی دقت ہوتی ، سب سہولت سے چلے جا رہے تھے ۔ قبروں کے بیچوں بیچ راستے بنے ہوئے ہیں لیکن اب کے انہوں نے یہ اہتمام کیا ہے کہ بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ والا راستہ آپ کے لیے کھلا ہے درمیان کی پگڈنڈیوں پر آپ داخل نہیں ہو سکتے۔ یوں ایک لمبا دائرہ بن جاتا ہے یہ قبرستان کسی حد تک دو حصوں میں تقسیم ہے ایک حصہ وہ ہے کہ جس میں ابھی تک تدفین کی اجازت ملتی ہے ۔ جب ہم چل رہے تھے تو دور اس حصے میں کچھ لوگ جمع تھے جو میت کی تدفین کے لیے وہاں آئے ہوئے تھے اور اپنی میت کی تدفین کر رہے تھے ۔ جبکہ قدیم حصے میں اب نئی تدفین نہیں ہوتی ۔ تمام لوگ طے شدہ راستے پر چل رہے تھے اور اپنے اپنے عقائد کے مطابق کچھ زیر لب اور کچھ تھوڑی سی بلند آواز کے ساتھ دعائیں کر رہے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ شیعہ حضرات کا ایک چھوٹا سا گروپ دبی آوازوں کے ساتھ اپنی دعائیں پڑھ رہا تھا ۔ جگہ جگہ محافظ بھی کھڑے تھے ایک جگہ پہ کچھ علماء کھڑے قبروں کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ ایک پاکستانی بزرگ میرے آگے آگے جا رہے ہیں انہوں نے کچھ چور نگاہوں سے اور کچھ احتیاط سے دائیں بائیں دیکھا اور جب جانا کہ کوئی محافظ قریب نہیں اور جو دور ہیں ان کی ان پر نگاہ نہیں تو انہوں نے جلدی سے تھوڑی سی مٹی مٹھی میں بھر لی ۔ لیجیے خاک مدینہ مل گئی ۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق اشیاء سے برکت کی دلیل تو ملتی ہے لیکن اس کے علاوہ کسی شے سے برکت کا حصول رکھنا کا عقیدہ رکھنا درست نہیں ، چہ جائیکہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ جو مٹی اٹھا رہے ہیں اس کی کیا تاریخی اہمیت و حیثیت ہے ؟

عثمانی ترکوں کے دور میں تک جنت البقیع میں اصحاب رسول امہات الرسول اور اہل بیت کی قبروں پر امارات تعمیر تھیں اور باقاعدہ قبے بنے ہوئے تھے جب سعودیوں کی حکومت ائی تو شاہ عبدالعزیز نے یہ تمام عمارتیں گرا دیں اور تمام قبروں کو کچا کر دیا اب تمام قبریں ایک جیسی کچی ہیں اس پر تب عالم اسلام میں کافی رد عمل آیا اور کچھ وفود تو شاہ تک بھی جا پہنچے یہ لمبا قصہ ہے لیکن اختصار کے ساتھ بتاتا چلوں کہ شان عبدالعزیز کا موقف یہ تھا کہ  آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے قبروں پر عمارتوں کا بنانا ثابت کر دیجئے سعودی حکومت اپنے خرچے پر پہلے سے زیادہ شاندار تعمیرات کر دے گی یہ وہ نقطہ تھا کہ جس کا جواب دینا کوئی ایسا آسان نہ تھا اور نہ  آج تک آسان ہے ۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو یہ تھا کہ جب  آپ نے مکہ فتح کیا تو سیدنا علی کو حکم دیا جو قبر پختہ ہے مسمار کر دی جائے اور جو ایک بالشت سے اونچی ہے اس کو زمین کے برابر کر دیا جائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنت البقیع کی قبروں پر واقع ان عمارتوں کے انہدام پر سب سے زیادہ احتجاج وہ گروہ کرتا ہے جو خود کو سب سے زیادہ سیدنا علی سے منسوب کرتا ہے ۔اور اللہ کا انتظام دیکھیے کہ مکہ میں فتح کے بعد رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کو سیدنا علی کے ہاتھ سے ہی تڑوایا تھا ۔اور کمال تضاد یہ ہے کہ جب بھی سیرت النبی میں فتح مکہ کا ذکر آتا ہے تو ہمارے سارے مسالک کے دوست یہ واقعہ بیان بھی لازم کرتے ہیں اور سوچتے ہی نہیں کہ جب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا علی کے ہاتھ سے قبروں پر بنی عمارات مسمار کروا رہے ہیں تو ہم یوں قبروں پر بڑی بڑی بلند عمارتیں کیوں تعمیر کر رہے ہیں؟

اور وہ قبریں بھی یقیناً وہ تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آبا و اجداد تھے کوئی چچا ہے تو کوئی دادا ہے ، کوئی تایا ہے تو کوئی پھوپھا ہے ، لیکن رسول نے سب قبریں تڑوا دیں ۔ جنت البقیع میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ایک بہت تکلیف دہ معاملہ یہ بھی ہے کہ ایک بدبخت گروہ کے افراد نے بارہا سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر پر جا کر توہین کی اور بد زبانی کی اس سبب حکومت نے زائرین کی قبرستان میں حرکت محدود کر رکھی ہے۔
چلتے چلتے قریباً نصف دائرہ مکمل ہو چکا تو میرے دل کی دھڑکن تھوڑی سی تیز ہو رہی تھی ۔ میرے بائیں ہاتھ وہ چھوٹا سا احاطہ تھا کہ جس میں امام مالک رحمہ اللہ کی قبر ہے اور ان اس کے جوار میں ہمارے مرشد و مخدوم علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی بھی قبر ہے ۔ وہ بھی عجیب ہی واقعہ تھا کہ ایک شخص لاہور میں ایک بم دھماکے میں زخمی ہوتا ہے علاج کے لیے ریاض لے کے جایا جاتا ہے اور قبر مدینے میں بنتی ہے ۔ خطیب ذی شان جناب عبدالمجید ندیم رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو کمال انداز میں بیان کیا انہوں نے اس کو قلم بند بھی کیا ، جو ان کے قلم سے لکھا میرے پاس موجود ہے ۔ اور علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کے سوانح پر مشتمل میری کتاب میں بھی شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ صاحب لکھتے ہیں :
” مدینہ طیبہ کی وہ پر کیف صبح کبھی نہیں بھولے گی جب باب جبرائیل پر ہماری ملاقات ہو گئی ۔ احسان الہی ظہیر نے میرا ہاتھ پکڑا اور قدر تیز قدموں سے جنت البقیع کی طرف چل دیے ۔ میں دل ہی دل میں سوچتا جا رہا تھا ” یہ وہابی قبرستان کیوں لے جا رہا ہے” ۔

جنت البقیع میں ہم دونوں امام مظلوم سیدنا عثمان بن عفان کے مرقد پر جا کھڑے ہوئے ، انہوں نے میری طرف دیکھا اور میں نے ان کی طرف دیکھا ۔ خاموش نگاہوں نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے ۔ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یادوں نے دل و دماغ پر جو کیفیت طاری کی اس کے اظہار کے لیے الفاظ قطعاً ناکافی ہیں ۔ دیر تک آنکھیں اشکبار رہیں ۔ پھر احسان الہی ظہیر بچوں کی طرح ہچکیاں لیتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا :
“شاہ صاحب یہ ملت اسلامیہ کا وہ عظیم محسن ہے کہ اس کے احسانات آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں، ان کا سب کچھ اسلام کے لیے تھا اور دیکھیے کیسے جنت البقیع کے ایک کونے میں دفن ہو کر خاموش ہو گئے ۔ یہ تو بعد میں توسیع ہوئی کہ یہ قبر وسط میں آگئی یہ سامنے والا حصہ تو ابھی شامل کیا گیا ہے جو آنے جانے والوں کے لیے دامن واہ کیے منتظر ہے ”
پھر اچانک علامہ احسان اللہ ظہیر قبلہ رو ہو گئے اور بھیگی آنکھوں سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے ۔ قبرستان سے ذرا ہٹ کے دعا کر رہے تھے :
” اے رب محمد جنت البقیع میں اتنی بڑی جگہ خالی پڑی ہے دفن کے لیے دو گز زمین یہیں عطا کر دیجیے ”

پھر ہم جنت البقیع میں مدفون صحابہ و اہل بیت رسول کے مقبروں پر تبصرہ تذکرہ کرتے ہوئے واپس لوٹ آئے ۔ جب مارچ میں بم دھماکہ میں وہ شدید زخمی ہوئے تو مجھے مدینہ طیبہ میں ہونے والی دعا کے لمحات و کلمات یاد آگئے کہ کہیں قبولیت کا وقت تو نہیں آگیا ۔ مگر کہاں لاہور کہاں جنت البقیع اللہ اکبر ایسی نقد قبولیت مشاہدے میں آئی کہ جو چاہا سو مل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے وہاں چلتے چلتے اپنے شہید باپ کے لیے دعائے مغفرت کی اور بھیگی آنکھوں سے آگے نکلتا گیا اور بوجھل قدموں سے اپنے ہوٹل کو چل دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply