• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اے مظلومان ِسری نگر میں صرف ” دور” سے دیکھ پاتا ہوں۔۔۔ محمد حسین کھرل

اے مظلومان ِسری نگر میں صرف ” دور” سے دیکھ پاتا ہوں۔۔۔ محمد حسین کھرل

اے مظلومان ِ سری نگرکاش کشمیرمیرے وطن عزیز کا حصہ ہوتا۔ تو راہ چلتے ہوئے تم بچوں سمیت یوں بے دردی سے نہ مارے جاتے۔تمہیں گھروں یا بازاروں سے اٹھا کر لاپتہ نہ کیا جاتا۔ بوڑھے والدین عقوبت خانوں سے تشدد زدہ لاشے نہ وصول کرتے۔ ماورائےعدالت مار ڈالنے کے بعد تمہاراجرم نہ تلاش کیا جاتا۔ جوان بچےکی میت پر بوڑھی ماں یہ بین نہ کرتی کہ ، قتل تو کرتے ہو، خدارا بعد از قتل تذلیل نہ کرو۔ لاپتہ والدین کی تصویریں اٹھائے معصوم بچے سڑکوں پر منتظر بیٹھے نظرنہ آتے۔ ریاستی محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئےبھائی کے جنازے پر،جوان بہن کو مجمع سے پر امن رہنے کی تلقین نہ کرنی پڑتی۔ ریاستی جبر اور ظلم و بربریت کے یہ مظاہر تمہارے ساتھ روا نہ رکھے جاتے ۔ اے مظلومان ِ سری نگرکاش کشمیرمیرے وطن عزیز کا حصہ ہوتا
بچہ والدین کے پہلو میں یا بندہ اپنے گھر میں خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔ اپنے گھر میں یا گھر سے باہرکہیں بھی خطرہ محسوس ہو ،تو بچاؤ کیلئے ذہن میں پہلا خیال ریاستی محافظوں کا آتا ہے۔ آنا بھی چاہیے۔ کہ آخرہمارےبچوں کا پیٹ کاٹ کر ریاست ان محافظوں کو پالتی ہے۔ لیکن اگر یہ ریاستی محافظ ہی خطرہ کی سب سے بڑی علامت محسوس ہونے لگیں؟ عدم تحفظ کا احساس بڑا دکھ ہے۔ مگراپنے ہی محافظوں سے عدم تحفظ کا احساس؟ دنیا کے معلوم دکھوں میں بہت بڑا دکھ ۔ ۔ مجھے ریاستی جبر کا نوحہ مزید نہیں پڑھنا ۔ میرے الفاظ تمہارے درد کا مداوا نہ ہو سکیں گے ۔ البتہ میرے دکھوں کو بڑھاوا ضرور دیں گے ۔
ہندوستان کے وردی پوش سپاہیوں کو خبر ہو، کہ عدم تحفظ کا احساس دلوں سے خوف مٹا دیتا ہے۔ ڈری ہوئی تو بھینس بھی خطرناک ہوتی ہے۔ آج ریاستی محافظ کو میں نے اپنے ہی عوام کے سامنےکپڑے سے چہرہ ڈھانپےکھڑے دیکھا ہے۔
اے اہل کشمیر صرف تم ہی نہیں ۔ برما،شام ،فلسطین امت کے ہر فردکا درد میرے جگر میں ہے۔ہر مظلوم کے ساتھ میں کھڑا ہوں۔ یہاں تک کہ میں نے جمعۃالمبارک کا دن مستقل ان مظلوموں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیلئے مختص کر دیا ہے۔ ہر مظلوم کا دکھ ،میرا دکھ ہے۔ تم پر ڈھائے گئے مظالم پر میں اس قدر رویا ہوں ، کہ میری بینائی چلی گئی۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میں صرف “دور “سے دیکھ پاتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply