• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • نامے میرے نام (مشاہیر کے خطوط کے آئینہ میں) رضیہ فصیح احمد/تحریر-گوہر تاج

نامے میرے نام (مشاہیر کے خطوط کے آئینہ میں) رضیہ فصیح احمد/تحریر-گوہر تاج

حال ہی میں ایک کتاب “نامے میرے نام” زیرِ  مطالعہ رہی ۔ یہ نامے دراصل ان مشاہیر کے خطوط ہیں جو اردوادب کی لیجنڈ رضیہ فصیح احمد کو لکھے گئے۔ ۱۹۴۸ءمیں رسالہ عصمت میں کہانی کی اشاعت سے اپنےقلمی سفر کے آغاز کے بعد سے ابتک رضیہ فصیح احمد نے ادب کی مختلف اصناف میں تواتر سے لکھا۔ناولز، افسانے، سفرنامے، ڈرامے، انشائیے، بچوں کا ادب اور شاعری۔ ۱۹۶۴ء میں پاکستان رائیٹرز گلڈ کیجانب سے انکے ناول “آبلہ پا”کو آدم جی ایوارڈ ملا ۔

رضیہ فصیح احمد کی شادی سترہ سال کی عمر میں ہوئی ، تین بیٹوں کی ماں بنیں ۔اولادوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اپنی ادھوری تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ ہی تواتر سے ادب تخلیق کیا۔ شوہرکی فوج میں ملازمت کی وجہ سے مختلف چھاؤنیوں میں زندگی گزاری لہٰذا اپنے ہم عصروں سے زیادہ تر بلمشافہ گفتگوکے بجاے خطوط کی صورت آدھی ملاقات پہ ہی قناعت کی ۔ پھر وقت نے جست لی ۔ہاتھوں کی جگہ مشینوں نے لی۔مگر یادگار دستی خطوط کا یہ ذخیرہ قیمتی سرمایہ کی صورت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔

کتاب “نامے میرے نام” میں شامل ۶۴ ہم عصر ادیبوں کے خطوط آئینے کی صورت ہیں جن میں ہمیں نا  صرف رضیہ صاحبہ کی پہلو دارشخصیت کا عکس نظر آتا ہے بلکہ مشاہیر کی جھلک کے ساتھ اس زمانے کی مشکلات اور پریشانیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو بطور قلمکار اور اردو رسالے کے مدیر ان کو لاحق تھیں۔ان میں احمد ندیم قاسمی، ابن انشا، انور عنایت اللہ، صہبا لکھنوی، شاہد دھلوی، جمیلہ ہاشمی، اختر جمال،عالی جی وغیرہ جیسے محترم نام شامل ہیں۔

ان ناموں میں سب سے زیادہ دلچسپ خطوط مجھے ابن انشا کے لگے۔ روایتی خطوط نگاری سے پرے، بےتکلفی اور بیساخستگی سے مزین مجھے دونوں ادیبوں کے بیچ “ادبی کیمسٹری” کے ملاپ کاخوشگواراحساس ہوا۔ دونوں میں ہی انشاپردازی کامشترکہ وصف ہے۔ انشا جی، رضیہ صاحبہ کی بسیارنویسی کا ذکر اور تحریر کی تعریف اس طرح کرتے ہیں”آپ کی رفتار تحریر میں جانتا ہوں۔ آپ کے لیے ایساافسانہ یا ڈرامہ یا مضمون لکھنا آسان نہیں جو ادنی ٰ درجے کا ہو۔ بعض لوگ اچھا نہیں لکھ سکتے، بعض بُرانہیں لکھ سکتے۔”ایک اور خط میں لکھا۔”آپ کے انداز تحریر میں ایک بات ہے جو بہت کم لوگوں میں ہے۔شگفتگی ، برجستگی اور ہیومر”۔

ابن انشا نے اپنی پہلی بالمشافہ ملاقات کا تاثر یوں لکھا۔”آپ ہمارے ڈھب کی آدمی ہیں۔سادگی اور تکّلف اورتملق سے عاری۔”خود اپنے متعلق خط کے جواب میں لکھتے ہیں۔”یہ سن کے خوشی ہوئی  کہ میں گہرا آدمی ہوں اور میرا رعب بیٹھ سکتا ہے۔ آئندہ میں بچوں کو ڈرانے کا کام (پارٹ ٹائم ) بھی کیا کروں گا۔”

“فنون” میں پہلی بار رضیہ صاحبہ کی تصویر اور تحریر دیکھ کر لکھا”مجھے تو آپ ہر لحاظ سے بھلی چنگی نظر آتی ہیں۔ پھر اس تحریر سے ایک سلگتی ہوئی  خواہش اور ناکامی کی بُو کیوں آتی ہے۔ بعض افسانوں سے بھی۔اب آپ کہہ دیجیے یہ باتیں کسی مرد سے نہیں کہی جا سکتیں ۔ ہے نا۔”

اچھے ادیبوں کی تحریر رسالے کی کامیابی کی وجہ سے مدیر کی کمزوری ہوتی ہے لہٰذا گاہے بگاہے انکی تحریر کی تعریف اور اگلی کہانی کی فرمائش، مدیران فرض سمجھ کے ادا کرتے ہیں۔جبھی “فنون” کے مدیراحمد ندیم قاسمی فرمائش کرتے ہیں ۔ ”تمنا ہےکہ اپنی ہر نئی  کہانی مکمل کرنے کے بعد فنون فوری طور پہ آپ کو یاد آجایا کرے۔” پھرکسی کہانی کے لیےلکھتے ہیں”کہانی کی تعریف ہو ہی نہیں سکتی جس معتدل نفاست سے آپ نے فطرت اور انسانیت کو ہم آہنگ کیا ہے وہ بے حد قابل قدر ہے۔”انشائیے کو انکے فن کا نیاپہلو قرار دیتے ہیں۔” اس پاۓ کے بہت کم انشائیے میری نظر سے گزرے ہیں۔”

ادبی رسائل کے زوال اور مالی زبوں حالی کا اندازہ قاسمی صاحب کے ۲۰۰۲ءمیں امریکہ بھیجے خط سےلگائیں۔ جس میں فنون کے شماروں کے ڈاک خرچ کے لیے مالی مدد کی ملتجانہ درخواست کی گئی ہے ۔”۔۔ورنہ یہ رسالہ جس نے چالیس برس تک اعلیٰ  ادب  و سلیقے سے پیش کیا دھڑام سے گر جاۓ گا۔”

ماہنامہ “افکار” کے صہبا لکھنوی نے بھی رسالے کی اشاعت کے حوالے سے لکھا “ ہم لوگ بھی صبر آزماحالات میں زندہ ہیں اور افکار کو وقت پر شائع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔”

مشہور ریڈیو ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر انور عنایت اللہ جو ڈان میں خادم محی الدین کے نام سے کالم لکھتےتھے،کے ذاتی نوعیت کے تفصیلی خطوط سے اندازہ ہوا کہ انکے بیچ ، راکھی باندھے بغیر ہی، بہن بھائی  کارشتہ قائم ہوگیا تھا ۔ دونوں کی ڈرامے میں گہری دلچسپی کے سبب ریڈیو کی ڈرامہ نشریات تخلیقی اظہارکا مشترکہ پلیٹ فورم تھا۔اسی دوستی اور قربت کے سبب انور عنایت اللہ نے انکی اوّل انعام یافتہ کہانی “ آنکھ کا کانٹا “ کا انگریزی میں ترجمہ کیااور انکے فن پہ مضامین بھی لکھے۔لہٰذا خطوط میں اپنےمحسوسات کا بِلا تکلف اظہار بھی کیا ہے۔ مثلا ً اب تو مجھے یہ احساس ہوگیا ہے کہ صرف لکھنے لکھانےسے کام نہیں چلتا۔ اردو ادب میں پنپنے کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں۔ ایک تو خوشامد اور دوسری ا  دیبوں کی سیاست میں سرگرمی سے عملی دلچسپی۔”

ایک جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ “ ہمارے نقاد آخر کب تک آپکا نام نہ لیتے ۔ میرا تو ایمان ہے کہ آپکا ادبی مستقبل یقیناً روشن ہے۔”

البتہ عالی جی کے خطوط پڑھتے ہوۓ مجھے مخلص دوستی سے  زیادہ رائٹرز گلڈ کی سربراہی  کی برتری کااحساس حاوی نظر آیا۔ خاص کر جب رضیہ صاحبہ نے گلڈ کی جانب سے ہارورڈ جانے والے ایک وفد میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی۔”۔۔ہمارے یہاں انگریزی دان لڑاکا قسم کی خواتین ادیبوں کی یوں بھی کمی ہے۔ میں گلڈ میں بڑی خوشی سے وفد وغیرہ کے معاملہ میں آپکا نام کمیٹی کے سامنے رکھ دیا کروںگا۔”

گو رضیہ صاحبہ کی وجہ شہرت نثر نگاری ہے ، شاعری اور مصوری نہیں لیکن خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ستر کی دہائی  میں ان پہ ایک طوفانی دورشوق مصوری کا بھی آیا تھا۔جمیل جالبی لکھتے ہیں”آپکے خط کاانتظار کر رہا تھا۔ پھر سوچا کہ آپ پکاسو پر مضمون لکھنے میں مصروف ہونگی یا تصویریں بنا رہی ہونگی۔”

ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی انکی شاعری کے بابت لکھتے ہیں”میں آپکو مشورہ نہیں دونگا کہ آپ شعرکہیں۔اردو کو اچھی نثر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں دس کروڑ میں سے ایک کروڑ شاعر ہیں۔ آپ اس ہجوم سے دور ہی رہیں تو بہتر۔”

ادبی اور فلمی دنیا میں اہم مقام رکھنے والے فضل احمد کریم کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ رضیہ صاحبہ نے انہیں فلمی کہانی کا خاکہ اور چار ناولز بھیجے تاکہ ان پہ فلم بن سکے۔جسے انہوں نے فلمی نقطہ نظرسے مکمل نہ جانتے ہوۓ قبول نہ کیا۔ہاں البتہ رضیہ صاحبہ کی بسیار نویسی پہ اس شبہ کا اظہار کیا کہ کہیں انہیں جلدی شہرت نے تو نہیں مائل کیا۔”بسیار نویسی کا لازمی نتیجہ زود نویسی ہوتا ہے اورزودنویسی فنکارانہ تخلیق کی سب سے بڑی دشمن ہوا کرتی ہے۔” رضیہ صاحبہ کی دلچسپ اور عام فہم تحریر کے مقابلے میں عینی آپا کے ناول”آگ کے دریا” کے متعلق لکھتے ہیں”پڑھنے بیٹھا تو گاڑی چلنے کا نام نہیں لیتی، قدم قدم پہ توڑے، گڈھے، غار، غریب ذہن کے پاؤں پہ موچ آگئی، اپنی کم سوا دی کا شدید احساس ہوا، اپنی جہالت اور بدذوقی پر لعنتیں بھیجیں اور چپ ہو رہا۔”

کئی خطوط انکی ادیبہ ساتھیوں نے بھی لکھے ہیں۔ جن میں جمیلہ ہاشمی ، اختر جمال، زاہدہ حنا، شکیلہ اختر وغیرہ شامل ہیں۔ان خطوط میں خواتین نے رضیہ فصیح احمد سے اپنی محبت اور خلوص کا والہانہ اظہار کیا ہے۔شکیلہ اختر لکھتی ہیں “تم بڑی سچی اور ہر خلوص انسان ہو ۔تم ایک کھلی کتاب ہو۔ ڈرامابناوٹ اور تصنوع نہیں۔” پھر کہیں لکھتی ہیں “تم نے ابھی تک اپنے آپکو اور اپنے ادب کی بلندیوں کو نہیں سمجھا۔ تم بہت بلند پایہ کی لکھنے والی ہو۔ تمھارے اندر اتنا انکسار ہے کہ چلتی پھرتی کہانی لکھنے والوں کو اونچا درجہ دے رہی ہو۔”۔” ناول نگار جمیلہ ہاشمی لکھتی ہیں۔ “تم زمانوں میں لکھتی ہو مگر تم سے جی ملا ہوا ہے ۔ یاد مت کرو مگر یاد آتی ہو۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

شکاگو میں مقیم رضیہ فصیح احمد کی طبیعت میں عمر کے اٹھاسی برس گذارنے کے بعد بھی نوجوانوں کاسا استعجاب اور تخلیقی لاوا پھوٹ رہا ہے۔ اسمیں کوئ دو راۓ نہیں کہ وہ ایک جینیوین قلمکار ہیں اور انکےاردو ادب پہ بہت احسان ہیں۔لیکن اب ہجرت کا المیہ کہیں کہ وہ تین دہائیوں سے وطن سے دور ہیں ، تومحسوس ہوتا ہے کہ جیسے انکے ہم وطنوں نے انہیں آنکھ سے ہی نہیں دل سے بھی اوجھل کر دیا ہے۔ہو سکتاہے کہ اس کتاب کا چھپنے والا دوسرا ایڈیشن (پہلا ایڈیشن ۲۰۱۳ء) اردو پڑھنے والوں میں انکی موجودگی اوراہمیت کا احساس جگا دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply