• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • موٹر سائیکل چلانے والی بیٹیوں کا احترام کریں/ثاقب لقمان قریشی

موٹر سائیکل چلانے والی بیٹیوں کا احترام کریں/ثاقب لقمان قریشی

میرا بچپن راولپنڈی کے علاقے ٹینچ بھاٹہ میں گزرا ہے۔ ہمارے بچپن میں افغان جہاد چل رہا تھا۔ جس جوان لڑکے سے مستقبل کے بارے میں سوال کرتے تو جواب شہادت کا حصول ہوتا تھا۔ سینماؤں پر سلطان راہی کی گنڈاسے والی پنجابی فلمیں چلا کرتی تھیں۔ پی ٹی وی کے ٹاک شوز میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب اور قاضی حسین احمد صاحب کو مدعو کیا جاتا تھا اور یہ بڑے فخر سے طالبان کو اپنے مدرسوں کے طالب علم قرار دیا کرتے تھے۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو کشمیر کا جہاد شروع ہوگیا۔ اس وقت ہر جوان کشمیر جاکر شہادت کا منصب حاصل کرنا چاہتا تھا۔

جرنل ضیاء کے دور میں ویڈیو کیسٹوں کی دکانیں تو ہوا کرتی تھیں لیکن دکانداروں کو وی سی آر رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ دکاندار چھپ کر لوگوں کو وی سی آر دیا کرتے تھے۔ لوگ رات کے وقت چادروں میں لپیٹ کر وی سی آر لاتے تھے۔ پھر سب مل کر ساری رات فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ ملک میں ہر طرف شدت پسندی عروج پر تھی۔

لیکن ہم شروع سے ایسے نہیں تھے۔ والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ ضیاء دور سے پہلے انھوں نے محلے کی لڑکیوں کے ساتھ گروپ بنا رکھا تھا۔جو سینما جاکر فلمیں دیکھا کرتا تھا۔ سینما کا ماحول بہت اچھا ہوا کرتا تھا۔ کبھی ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ضیاء صاحب کے دور سے پہلے کی فلمیں، ڈرامے اور موسیقی کی محفلیں آج بھی دیکھیں تو وہ بڑی متوازن اور روشن خیال نظر آتی ہیں۔

اس دور کی مذہبی انتہا پسندی کا سب سے زیادہ نقصان خواتین کو اٹھانا پڑا۔ گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگی، زبردستی برقعہ پہننے پر مجبور کیا گیا، لڑکیوں کی تعلیم اور نوکری کرنے پر پابندیاں لگائی گئیں۔ہماری خواتین اس وقت سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ لیکن آج تک کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

دو سال قبل کرونا وائرس کا سخت لاک ڈاؤن چل رہا تھا۔ ہم “پچاس فیصد” عملے کی پابندی کی وجہ سے ایک دن چھوڑ کر دفتر جایا کرتے تھے۔ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک صبح میں پشاور روڈ سے گزر رہا تھا کہ   اچانک میری نظر ایک سکوٹی پر پڑی۔ جسے ایک نوجوان لڑکی چلا رہی تھی۔لڑکی نے برقع پہن رکھا تھا اور بڑی شان سے منزل کی طرف جارہی تھی۔ میں اپنے شہر میں پہلی مرتبہ کسی لڑکی کو موٹر سائیکل چلاتا دیکھ رہا تھا۔ اس لیے یہ منظر میرے لیے بہت معنی رکھتا تھا۔

آج کل ہمیں بہت سی لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی نظر آتی ہیں۔ جو مردانہ ذہنیت کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ اوباش نوجوان ان کا پیچھا کرتے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے نظر آتے ہیں۔ چند روز قبل ایک دوست قاضی عبدالباسط سے اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ قاضی صاحب اپنے بچے کو موٹر سائیکل پر سکول چھوڑنے جایا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص مردانہ لباس میں بچوں کو سکول چھوڑنے آتا ہے۔ کبھی ہیلمٹ نہیں اُتارتا۔ میں شش و پنج کا شکار تھا کہ یہ شخص ہیلمٹ کیوں نہیں اُتارتا۔ ایک روز وہ شخص قاضی صاحب کے ساتھ اپنا موٹر سائیکل پارک کرنے لگا۔ اس سے موٹر سائیکل سنبھالا نہیں گیا۔ موٹر سائیکل گرنے لگا۔ تو قاضی صاحب نے آگے بڑھتے ہوئے اسے پکڑ لیا۔ غلطی سے قاضی صاحب کا ہاتھ اسکے ہاتھ سے لگا تو انھیں محسوس ہوا کہ یہ مرد نہیں بلکہ خاتون کا ہاتھ ہے۔ قاضی صاحب نے کچھ دیر بعد گارڈ سے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہے تو اس نے بتایا کہ یہ ایک خاتون ہیں۔ انکے شوہر باہر ہوتے ہیں۔ وین کا کرایہ نہیں دے سکتیں اس لیئے موٹر سائیکل پر بچوں کو سکول چھوڑنے آتی ہیں۔ شروع شروع میں زنانہ لباس میں آتی تھیں۔ مردوں کی چھیر چھاڑ کی وجہ سے مردوں کا حلیہ اختیار کر رکھا ہے۔ قاضی صاحب کہتے ہیں اس دن کے بعد سے موٹرسائیکل چلانے والی خواتین کی عزت ان کے دل میں مزید بڑ گئی ہے۔

ہمارے ملک کی خواتین چار دہائیوں سے گھروں میں قید ہیں۔ افغان جہاد سے قبل یہ آزادنہ گھروں سے باہر بھی نکلتی تھیں۔سینما جاتی تھیں، پکنک کیلئے تفریحی مقامات پر اکیلی جایا کرتی تھیں۔ اب چار دہائیوں کے بعد یہ مجبوری کے تحت گھروں سے باہر نکل رہی ہیں۔ افغان جہاد نے سب سے زیادہ ہمارے معاشرے کو متاثر کیا ہے۔ ہماری خواتین نے بھی دوسرے ممالک کی خواتین کی طرح گھروں سے باہر نکل کر معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کرنا تھا۔ افسوس کہ ہماری خواتین کے حقوق مذہبی انتہا پسندی کی نذر  ہوگئے۔

مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ستائے معاشرے میں کچھ خواتین نے ہمت کر کے اہم امور کیلئے گھروں سے باہر نکلنا اور موٹر سائیکل چلانا شروع کیا ہے۔ جنھیں ہماری بھر پور سپورٹ کی ضرورت ہے۔ آج اگر ہم نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو یہ مایوسی کا شکار ہوکر پھر سے گھروں میں قید ہو جائیں گی۔ جس کی وجہ سے گھر کا سارا بوجھ مرد کے کندھوں پر آجائے گا۔ جسے وہ اٹھا نہ پائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اکیسویں صدی میں جینے کیلئے جدید دور کے تقاضوں کو اپنانا ہوگا۔ خواتین ملک کی آبادی کا پچاس فیصد حصہ ہیں۔ جب تک یہ معیشت میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گیں اس وقت تک ہمارے گھروں میں اور ملک کے حالات میں تبدیلی ناممکن ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply