پاکستانی دیت/محمد وقاص رشید

دورِ جہالت میں معاشرے میں دو طبقات تھے ایک اہِلِ ثروت دوسرے انکے احساسِ برتری کے شر کا شکار اہلِ غربت۔ یعنی وہی اشرافیہ اور “حقیریہ” (یہ اصطلاح ابھی ابھی ذہن میں آئی)۔ اشرافیہ کے ہاتھوں حقیریہ کی جان مال عزت کچھ محفوظ نہ تھااور لُٹ جانے پر دنیا کا قانون انکے حق میں دستبردار ہو جاتا تھا اور بے بس وبے سہارا آسمان کی جانب نمناک نگاہوں سے دیکھنے کے سوا کچھ کر نہ پاتے تھے۔

ایسے میں اسلام کا ظہور ہوا۔ خدا نے ایک ایسا نظام لاگو کیا جس میں انسانی جان کی حرمت کو یوں مقدم رکھا گیا کہ فرمانِ رحمت للعالمین ﷺ ہے کہ کسی مشرک کی جان ناحق لینے والا جنت کی بو بھی نہ پا سکے گا۔ آج ان رحمت للعالمین ﷺ کے پیروکار جنہیں زحمت للعالمین کہنا چاہیے وہ مخالف عورتوں کے حمل گرانے کی باتیں کرتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔

کسی بھی انسان کی جان ریاست و عدالت کے دائرہ اختیار میں صرف دو صورتوں میں لی جا سکتی ہے ایک ،اس پر کسی کی جان لینا ثابت ہو جائے ،دوسرا وہ دوسروں کے لیے فتنے کی حد تک خطرناک ثابت ہو جائے۔

اسلام نے کسی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا۔ اور اسکی حرمت کے تین درجات مرتب کیے۔
پہلا۔۔ “قصاص” مقتول کی جان کے بدلے قاتل کی جان

دوسرا۔۔ “دیت “اپنی مرضی و منشا سے خون کے بدلے خون بہا لے کر جان بخشی کرنے کااختیار۔

تیسرا۔۔ اپنے مرضی سے قاتل پر احسان کرتے ہوئے خون معاف کر دینا۔

جناب رحمت للعالمین  ﷺ نے ریاستی حکمران کی حیثیت سے فیصلے صادر فرماتے ہوئے اسی عدل و انصاف کے نظام کو نافذ کیا جسے سمجھنے کے لیے روزِ روشن کی طرح وہ الفاظ ہیں جو تاابد عدل و انصاف اور قانون کی عملداری کے لیے مشعلِ راہ ہیں کہ “میری بیٹی بھی ہو تو بھی قانون اسی طرح عمل پیرا ہو گا جس طرح کسی عام عورت کے لیے۔”

کہیں پڑھا تھا اگر خدا پورے قرآن کی جگہ اسکا مفہوم واضح کرنے کے لیے ایک لفظ نازل کرنا چاہتا تو وہ ہوتا “اعدلو”۔عدل کرو، عدل حق کی ادائیگی کا نام ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں مسلمان سیاسی طور پر اس لیے اکٹھے ہوتے ہیں کہ بقول انکے “اعدلو” کا اس نظام کے لیے انہیں علیحدہ وطن اور اسکی حکمرانی درکار ہے ،اور یوں پاکستان وجود میں آجاتا ہے۔ لیکن یہاں آغاز ہی سے اشرافیہ اور حقیریہ کے دو طبقات یوں جنم لیتے ہیں کہ گاہے محسوس ہوتا ہے جیسے اسلام کا نام تو محض لہو گرم رکھنے کا تھا اک بہانہ۔

آج اشرافیہ کا کوئی بد مست ریمنڈ ڈیوس کے روپ میں چار لوگوں کو قتل کر دے ، کسی ناظم جوکھیو کو بہیمانہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دے ، کوئی وحشتناک ترین سانحہ ساہیوال برپا کر دے ، کسی ٹریفک پولیس سارجنٹ کو کوئی اپنی گاڑی سے جان بوجھ کر کچل ڈالے ، کسی وی آئی پی پروٹوکول میں ہٹو بچو کی صدا کے ساتھ کوئی اسی کے خون پسینے سے خریدی گولی اس  کے سر کے پار کر دے یا کوئی شاہ رخ جتوئی کسی شاہزیب کی بہن کی عفت پر ہاتھ ڈالے اور روکنے والے اسکے بھائی کو اس جرم میں وہیں سزائے موت سنا دے ،یہاں پھر وہی عالم ہے کہ ریاست قاتل کی دولت کے گھنگرو باندھ کر ، اسکے اثرورسوخ کا سنگھار کر کے ، اسکی جاگیر کے کوٹھے پر اسکے نوٹوں کے اشاروں پر ناچنے لگتی ہے۔

شاہ رخ جتوئی کیس ہو یا کوئی اور ، مقتول کے لواحقین کی حق تلفی اور ظلم در ظلم کا سلسلہ ایف آئی آر ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور ہر ریاستی ادارے کی چوکھٹ تک جاری رہتا ہے۔

مجرم کے حق میں انصاف کے ہر ادارے کی دستبرداری مقتول خاندان کو اپنے پیارے کی لاش کی بولی لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ اور کہیں کسی طرف سے شنوائی نہ ہو سکنے پر دھونس ، جبر ، اور دھمکیوں کے نتیجے میں صلح کر لینے والے لواحقین اپنی قوم میں موجود تماش بین ذہنیت سے زخموں پر نمک چھڑکتے طعنے الگ سہتے ہیں۔

سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسے اسلام کے قانون کے مطابق “دیت” بتایا جاتا ہے۔
یعنی اشرافیہ سے تعلق رکھتا دولت کے نشے میں کوئی بد مست حقیریہ طبقے کی کسی کی بہن کی عزت پہ ہاتھ ڈالتا ہے اس لڑکی کے بھائی کے روکنے پر اسے قتل کر کے ایک خاندان کی زندگی میں بارود بھر دیتا ہے۔نام نہاد ریاستی قانون اس پر دہشتگردی کی دفعہ لگاتا ہے جس میں صلح نہیں ہو سکتی۔ پھر مجرم خاندان کو کھلا چھوڑا جاتا ہے جو ایف آئی آر میں سے دفعات نکالنے سے انصاف کے اداروں کو اپنے ساتھ ملانے سے مظلوم ماں باپ پر صلح کا دباؤ ڈالنے تک دس برس ہر حربہ آزماتا ہے اور غضب خدا کا کہ “اعدلو” کے نام پر بننے والی ریاست اور قوم کو اپنی دو انگلیوں کی وکٹری کی صلیب پر لٹکا کر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ہاتھوں “باعزت” کر دیا جاتا ہے۔

خدا کے حقیقی غضب کا عالم یہ ہے کہ اس نام نہاد ریاست میں ایک لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ، اسکے بھائی کو قتل کرنے ، اسکے خاندان پر دباؤ ڈال کر صلح کرنے اور پھر اس صلح کو اس مقدمے میں استعمال کرنے میں کہ جس میں دہشتگردی کی دفعہ شامل ہونے کے باعث صلح ہو ہی نہیں سکتی۔ اس سب کو اس اسلام کے قانون کی ڈھال حاصل ہے جو اترا ہی ان سب کی نفی کے لیے تھا۔ عدل و انصاف کے دینِ اسلام کی اس سے بڑی توہین بھلا کیا ہوگی کہ میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے علما دین اور قانون سازوں اور اسکے محافظوں کو دیت و قصاص کے خدائی قانون کی تفہیم و نفاذ پر سوچنا چاہیے کہ کہیں روزِ قیامت دورِ جہالت والے خدا کے سامنے یہ ہی نہ کہتے ہوں کہ اے منصف و عادل خدا ! یہ توہم سے بھی گئے گزرے تھے کہ ہم بھی یہ سب کچھ کیا کرتے تھے لیکن اتنا غضب تو ہم نے بھی نہیں ڈھایا کہ اسے تیرے دین کا نام کی ڈھال میں کرتے ہوں۔ ہم تب منصف و عادل خدا کو کیا جواب دیں گے کہ انصاف کا ترازو جسکی عدالت کے باہر نہیں اندر ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply