یقین ہی نہیں آرہا کہ سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے خلاف ایسی جے آئی ٹی تشکیل دی ہے کہ جس میں ایجنسیوں پر مطلق بھروسہ ہی نہیں کیا گیا جبکہ نواز شریف کے خلاف محض مالی بدعنوانیوں کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی میں تو بڑے اہتمام سے انٹیلی جنس بیورو اور آئی ایس آئی جیسے اداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا ، لیکن مبینہ طور پہ چار سو سے زائد افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کردینے کے ملزم پولیس افسر راؤ انوار کے جرائم کی تحقیقات کے لیے بننے والی جے ٹی آئی کے پانچ ارکان میں ایجنسیوں کو باہر رکھا گیا ہے اور اس کا سربراہ سندھ پولیس کے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان ہیں ، اسی سندھ پولیس کے کہ جس سے ابھی بھی راؤانوار ایس پی کی حیثیت سے منسلک ہیں اور جو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے ماتحت ہے کہ جس کے گرو گھنٹال آصف زرداری کو مبینہ طور پہ راؤانوار کا کھلا ڈلا سرپرست قرار دیا جاتا ہے کہ جنہوں نے درجنوں نہیں سینکڑوں شکایات کے باوجود پورے دس برس تک اس بدنام زمانہ پولیس افسر کو ایک ہی ضلع یعنی ملیر میں متعین رکھا تھا اور پہلے بھی سپریم کورٹ سے ان کے خلاف ایکشن لینے کے حکم کے باوجود راؤانوار کو وہاں دوبارہ سے متعین کردیا گیا تھا۔
اس پولیس افسر راؤ انوار کو آصف زرداری کے گھناؤنے مالیاتی مفادات کی تکیل کے لیے ایک مرکزی مہرہ بتایا جاتا ہے اوراسی کو زرداری کے بہت دیرینہ دوست اور پراپرٹی کنگ ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن کے لیے زمینوں کو اونے پونے حاصل کرکے ان کے سپرد کرنے کا ذمہ داربھی باور کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی نہایت حیرت ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ابھی چند روز قبل راؤ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہروں کے باوجود اور اس قدر گھمبیر صورتحال میں بھی آصف زرداری نے راؤ کو مرد کا بچہ قرار دینے کا شرمناک بیان جاری کرکے 400 سے زائد مقتولین کے اہلخانہ اور سارے ملک کے عوم کومشتعل کردیا تھا اور اس کی تائید میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے بھی ایک خوشامدانہ تائیدی بیان دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کا اس قدر طوفان آجانے کے بعد بھی راؤ انوار کو صرف معطل ہی کیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے احکامات کو اس قدر لمبی مدت تک للکارنے والے اوربار بار طلب کیے جانے کے باوجود قریباً دو ماہ تک مفرور رہ کر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی شدید ترین توہین کرنے والے اس بےلگام پولیس افسر کو پولیس سے سبکدوش کرنے کا انتہائی قانونی و مطلوب قدم ابھی تک نہ تو سندھ حکومت نے اٹھایا ہے اور نہ ہی اس اہم نکتے کی جانب سپریم کورٹ نے کوئی توجہ دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی عام شہری سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو اس بری طرح چیلنج کرتا تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی نرم رویہ اختیار کیا جاتا؟۔ جبکہ ہوا یہ ہے کہ اس کے اکاؤنٹس تک بحال کرکے آئین اور قانون کوروند ڈالنے والے راؤ انوار کے ساتھ تو ‘حسن سلوک’ کی حد ہی کردی گئی ہے ۔! یہاں میرا چبھتا ہوا دوسرا سوال یہ ہے کہ راؤ انوار کو آئی ایس آئی کے سپرد کرکے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنے کے بجائے اسی نیک نام سندھ حکومت کے تھلے لگی سندھ پولیس کے حوالے کیوں کردیا گیا ہے کہ جس نے اس رسوائے زمانہ شخص کے دس برس میں کیے گئے سنگین ترین جرائم سے یوں چشم پوشی کی ہے کہ یہ سب افسران اس چشم پوشی کےبالیقین برابر کے شریک مجرم ہیں ،
لہٰذا اگر یہاں میں یہ شک کروں کہ کیا سندھ حکومت کو جوابدہ سندھ پولیس کے افسران واقعیٖ زرداری کے اس دوست کو کراچی میں رکھ کے اس کے ساتھ غیر جانبدارانہ اور قابل بھروسہ تفتیش کرسکیں گے تو کیا یہ ایک بےتکا اور بےبنیاد سا سوال ہے ؟؟
Facebook Comments
PAKISTAN>NO LAW,no justice,NO MORAL,no sense & NO HUMANITY>MY COMPLAINT NO A33-INP/0000065/17 MINISTRY>PRODUCTION ISLAMABAD>SINCE FEB 17,( I RETIRED>30 04 2015& STILL NOT PAID ME MY OWN PF BUT UP TO 30 06 2015 233 RETIRED HAVE BEEN PAID THEIR PF ) WHERE I GO FOR JUSTICE ?