کشمیر بنے گا پاکستان؟ ۔۔۔۔ انعام رانا

پندرہ اگست کو لندن کے ٹریفالگر سکوائر میں جب کچھ پاکستانیوں کو حیرت کا دھچکا لگا تو میں فقط مسکرا پڑا۔ کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات کے خلاف کشمیری سٹوڈنس کی جانب سے احتجاج کیا گیا جہاں بہت سے با ضمیر انڈینز بھی شریک تھے جو کشمیر میں ہونے والے غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک پہ احتجاج کر رہے تھے۔ ایسے میں کچھ پاکستانی دوست جب پاکستان کا جھنڈا لئیے ہوے آئے تو معاملہ بگڑ گیا۔ انڈین دوستو کو تو اعتراض تھا ہی مگر جب بہت سے کشمیری دوستوں کو بھی اعتراض ہوا تو پاکستانی دوستوں کو حیرت کا دھچکا لگا اور ہلڑ بازی ہوئی۔
سال تھا دو ہزار دو کا جب واصف نے بتایا کہ نیلم وادی شاید بیس برس کے برے حالات کے بعد کھل گئی ہے۔ چنانچہ ہم تین دوست رک سیک اٹھائے کشمیر دیکھنے نکل پڑے اور وادی نیلم کے آخری گاوں تاؤ بٹ تک گئے کہ جہاں سے کشن گنگا دریائے نیلم کا نام اختیار کرتا ہے۔ بیس برس بعد کیل سے آگے جانے والے شاید ہم پہلے غیر فوجی پاکستانی تھے،گو جگہ جگہ گرفتار ہوے مگر بالآخر تاؤ بٹ تک پہنچے۔ اس سفر کے دیگر مشاہدات اپنی جگہ مگر بائیس برس تک کشمیر پہ سرکاری بیانیہ سننے والے اک نوجوان کیلئیے بڑا دھچکا وہ جذبات تھے جو وادی والوں کے پاکستان کیلئیے تھے۔ غربت ایسی تھی کہ فقط پانچ سو روپے ایک گھر کو آپکا مکمل میزبان بنا سکتے تھے، حسرت ایسی تھی کہ ہمارے لئیے معمولی شے کو بھی وہ للچا کر دیکھتے تھے۔ اکثر لوگ حالات پہ شکوہ کناں تھے، فوج کے رویوں اور حکومت پاکستان کی توجہ سے مایوس تھے۔وہ فقط پتھر مارنے کی دوری پہ موجود ہندوستانی کشمیر سے اپنا تقابل کرتے تھے کہ ہندوستان تو کشمیر میں اتنی ترقی کر رہا ہے اور ہمیں پاکستان نے غریب رکھا ہے۔طالب علم کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ کشمیر بنے گا پاکستان مظفرآباد سے پیچھے ہی کہیں رہ جاتا ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں اک دن اک دوست نے رابطہ کیا جو سرینگر سے کچھ دن کیلئیے لندن آئے تھے اور کسی مشکل کا شکار تھے۔ انکی خدمت کی اور دوران گفتگو اُس پار کے کشمیر متعلق بہت کچھ جاننے کو ملا۔ اندازہ ہوا کہ سید علی گیلانی و ہمنوا تو شاید دل سے کشمیر بنے گا پاکستان پکارتے ہیں مگر باقی اس نعرے کو فقط اک چھیڑ کے طور پہ برتتے ہیں۔ نوجوان کشمیری دوست نے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کی بات کرنے سے چڑتا ہے سو ہم اپنے احتجاج میں پاکستانی پرچم لئیے آزادی اور کشمیر بنے گا پاکستان یا پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الاللہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ بلکہ آجکل تو ہم نے داعش کا جھنڈا بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ انکو خوب زچ کریں۔ پوچھا کہ بھائی پھر پاکستان کے متعلق چاہتے کیا ہو؟ کہا کہ کشمیر ایک آزاد ملک تھا اور آزاد ملک ہی ہونا چاہیے۔ ہاں آزادی ملنے کے بعد ہم طے کریں گے کہ پاکستان سے ہمارا رشتہ کن بنیادوں پہ ہو گا۔ میں اس ملاقات کے بعد کشمیر بنے گا پاکستان کے سرکاری بیانئیے سے کافی حد تک باہر نکل آیا تھا۔
باسو بابو(اصل نام بتانا مناسب نا ہو گا) گلاسگو یونیورسٹی میں میرے دوست بنے اور وہاں دفاعی موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ انتہائی تھنڈے مزاج اور چیزوں کو عملی طور پہ دیکھنے والے۔اک دن کشمیر پہ کسی گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ کشمیر کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟ “انعام بابو کشمیر برصغیر کی چھت ہے، پانی کا منبع ہے، معدنیات کا خزانہ ہے۔ یہاں بیٹھ کر پورا برصغیر کیا چائنہ اور افغانستان تک قابو آ جاتا ہے۔ کشمیری جانتے ہیں کہ انکی علاقائی پوزیشن کیا ہے اور انکو فائدہ بھارت پاکستان سے نہیں عالمی طاقتوں سے ملے گا۔ اب بھارت یا پاکستان یا چین یہ کبھی گوارا نہیں کریں گے انکے گھر کی چھت پہ امریکہ آ کر بیٹھ جائے۔ بلکہ میرا ماننا ہے کہ اگر کبھی بھارت کو لگا کہ کشمیر اسکے ہاتھ سے نکل ہی جائے گا تو وہ اک آزاد ملک کشمیر کے بجائے اسے پاکستان کے زیر تسلط دیکھنا پسند کرے گا۔” باسو بابو کی باتیں حیرت انگیز تھیں مگر جوں جوں معاملات آگے بڑھ رہے ہیں سمجھ آتی جا رہی ہیں۔
مترو، کشمیر یا ایک آزاد کشمیر پاکستان تو نہیں بنے گا۔ لیکن زرا رکئیے، کیا ہم کشمیریوں کی حمایت انکو فقط پاکستان کا حصہ بنانے کیلئیے کرتے ہیں؟ اگر کبھی پلیبیسائیٹ ہوا (جو شاید کبھی نا ہو) اور کشمیریوں نے تین موجود آپشنز میں سے بھارت یا پاکستان کے بجائے آزادی پہ مہر لگا دی تو؟ کیا آپ کشمیریوں کو یہ حق دیں گے کہ وہ ایک آزاد ملک بنیں اور اپنے فیصلے خود کریں؟ اگر آپ کشمیر کو فقط پاکستان ہی بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ماننا ہو گا کہ آپ بھی بھارت کی مانند فقط کشمیر کی زمین اور اس سے جڑے مفادات کیلئیے ستر سال کشمیر کشمیر کرتے رہے،مانئیے کہ آپ بھی بس کشمیر کی کلی کے نئے باغبان بننے کے چکر میں ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کشمیر ی کو اہمیت دیجئیے۔
اس وقت کشمیری مصیبت کا شکار ہیں۔ قریب دو ہفتے سے وہ انسانی حقوق کی شدید پامالی سہتے ہوے گھروں میں مقید ہیں۔ پورا کشمیر ایک جیل بن گیا ہے۔ بیمار اور بچے دوا دارو اور دودھ سے محروم ہیں تو مرد و خواتین خوف کا شکار۔ ہر بارہ اشخاص پہ اک فوجی تعینات ہے اور کشمیر کی “کشمیریت” چھیننے کی مکمل تیاری ہے۔ مودی سرکار کشمیر چھوڑ اب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان لینے کی باتیں کر رہی ہے اور ہندوتوا نے بھارت میں ننگا ناچ شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں اپ کو کشمیریوں کیلئیے آواز بطور ایک انسان اور مسلمان اٹھانا ہو گی، اپنا یہ موقف برقرار رکھنا ہو گا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ بین الاقوامی مظاہروں میں دوست پاکستان کے بجائے اگر کشمیر کے جھنڈے کو ہی اٹھائیں تو بہتر ہے۔ اس وقت شدید ضرورت ہے کہ ہم کشمیر کیلئیے اپنی آواز بلند رکھیں مگر “کشمیر بنے گا پاکستان” کے لالچ میں نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر، اسلام کے نام پر، پاکستانیت کے نام پر۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”کشمیر بنے گا پاکستان؟ ۔۔۔۔ انعام رانا

  1. اگر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا تو, پاکستان کھبی نہیں چاہے گا کہ کشمیر آزاد ہو, ریاستی نظام رئلسٹ اپروچ کے تحت چلتے ہیں, اس میں بس مفاد دیکھا جاتا ہے, ایموشنز یا جزبات کی یہاں کوئی وقعت نہیں ہوتی, اور پاکستان,انڈیا یا چین کیونکر اپنے ریجن میں ایک بار پھر امریکہ کو پیر جمانے کا موقع دیں گے؟ رہی بات انسانیت اور مسلمانیت اور جذبات کی تو یہ میرا اور آپکا کام ہے. ریاست یا سکیورٹی اداروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں, اگر ہم بھی کوسٹ بینیفٹ انالائسز کریں تو ریاستی فیصلہ درست ثابت ہوگا, اداروں کی پالیسی قومی سالمیت کیلئے ہوتی ہے اور عام عوام کی سوچ سے بہت پرے ہوتی ہے.

  2. آپ کا تجزیہ متوازی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عملا کیسے کشمیر ایک ایک علحدہ ملک بنے گا۔۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ
    1۔ اقوام متحدہ میں انڈیا کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد میں پاکستان اور انڈیا دو فریق ہیں ۔۔ حق خود ارادیت پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کیلئے ہی استعمال ہوسکتا ہے ۔ تیسرا آپشن موجود نہیں ۔۔
    2۔ پاکستانی لوگوں کو ایک طرف رکھیں ۔۔ کشمیریوں کی اکثریت کا نعرہ ہے کشمیر بنے گا پاکستان ۔۔ سردار محمد عبد القیوم سے لے کر آج تک آزاد کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں کا یہی موقف ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے جھنڈے بھی خود کشمیریوں نے اٹھا رکھے تھے نہ کہ پاکستانیوں نے۔
    خود کشمیریوں میں یہ اختلاف ہے کہ الحاق ہونا چاہیے یا علحدہ ملک۔
    3۔ اس وقت صرف پاکستان کشمیریوں کا واحد وکیل ہے۔ ورنہ دنیا کا کوئی ملک کشمیری حکومت کو نہیں مانتا۔ پاکستانی فوج کے جوان کشمیریوں کی جان و مال کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ۔۔ خدا کیلئے کشمیری لوگ پہلے آپس میں اتحاد کی فضا قائم کریں ۔۔ پاکستان کی قربانیوں اور احسانات کی قدر کریں ۔۔ اگر پاکستان نہ ہو تو انڈیا ایک دن میں آزاد کشمیر پر قبضہ کرکے سب کا وہی حشر کرے جو ہندوستان میں آباد عام مسلمانوں اور خصوصا آج کل مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپبکشمیر کو آزاد ملک بنائیں ۔۔ لیکن یہ وقت پاکستان مخالف فضا قائم کرکے اپنے آپ کو کمزور کرنے کی نہیں بلکہ اتحاد و اتفاق کے ساتھ انڈیا کے ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر نے کی ہے۔۔

  3. جموں کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے قربانیاں دی ہیں. وہ ہندوستان اور پاکستان سے الگ وطن چاہتے ہیں. ان کی اپنی تاریخ اور ثقافت ہے. وہ کبھی بھی اپنی ہزاروں سالہ تاریخ مٹنے نہیں دیں گے. کشمیری آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی بقاء کی لڑائی بھی لڑ رہے ہیں. وہ کسی صورت میں بھی اپنی ریاست کی تقسیم قبول نہیں کریں گے.وادی نیلم سمیت پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے لوگ جموں کشمیر سے بھارتی افواج کے انخلا کے ساتھ ساتھ پاکستانی افواج کے انخلا کی بھی بات کرتے ہیں. پاکستان کو ایک آزاد خودمختار کشمیر کی حمایت کرنی چاہیے. یہ نہ ہو کہ مشرق اور مغرب کے بعد شمال میں بھی پاکستان کے مفادات کا مخالف آزاد ملک بن جائے. پاکستان کو خودمختار کشمیر کی حمایت کر دینی چاہیے. ورنہ وقت اپنا بدلہ لے لیتا ہے.

Leave a Reply