ایک بھیانک منصوبہ۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

اس سال ہونے والے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی کے نریندر مودی کی جانب سے جب چناؤ جیتنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کا انتخابی نعرہ لگا یا گیا،تو یار لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے،ہم نے اُسی وقت اپنے کالم میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے،چناؤ جیت کر مودی نے اپنے اس انتخابی نعرے کو عملی شکل دے دی اور عین اس مہینے کا انتخاب کیا جب پاکستان اور بھارت دونوں اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں،یعنی دوسرے الفاظ میں مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے اگست کا انتخاب اس لئے کیا کہ کشمیریوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا جائے جو ہر سال 14اگست کو قیام پاکستان کا جشن مناتے ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستانیوں کے ملی اور دینی جذبات کو بھی ہوا دے دی۔

بھارت نے یہ قدم کوئی ایک دم نہیں اُٹھایا ،نہ ہی یہ منصوبہ بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کی ذہنی اختراع ہے،اس کے پیچھے کئی سالوں کا تجربہ اور ایک گہری سازش چھپی ہوئی ہے،جس کا ادارک کیے بنا ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کون سے مقاصدحاصل کرنا چاہتا ہے؟

90کی دہائی سے کشمیریوں کی آزادی کے لئے جدوجہدتیز ہونے کے بعد بھارت میں راج کرنے والی ہر حکومت خواہ اس کا تعلق کانگریس سے ہو یا بی جے پی سے ہر ایک نے اپنے تئیں کشمیریوں کی حق آزادی کی آواز کو دبانے اور بندوق کے زور پر کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا،لیکن بھارت کے ہاتھ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں آیا،سات  لاکھ فوج کو کشمیر میں تعینات کرکے بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے،کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ رواء رکھا جانے والا ہر ظلم،ہر زیادتی اور حریت قیادت کو قید وبند کی اذیت دینے کے بعد بھی کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،اسی لئے بھارت کو اس کے مغربی آقاؤں اسرائیل اور امریکہ  نے ایک نیا سبق پڑھایا کہ وہ اسرائیل کی طرز پر جو اس نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا یعنی آبادی کا تناسب مسلمانوں کے بجائے غیر مسلم آبادی کے حق میں کرے تاکہ اگر استصواب رائے کے وقت کشمیرکا فیصلہ اس کے حق میں آئے اور دوسری طرف بھارت عالمی رائے عامہ کو بھی یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائے کہ کشمیر میں تو اکثریتی آبادی بھارت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے چکی ہے،یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ تحریک آزادی نہیں بلکہ دہشت گردی ہے،اسکے لئے پہلا کام جو بھارت نے کیا وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا ہے اب اس کا دوسرا مر حلہ شروع ہو گا اور آنے والے کئی سالوں میں بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کواکثریت سے اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے غیر کشمیریوں کو وادی میں آباد کرنے کی غرض سے کشمیریوں کو ان کی زمینوں سے جبری طور پر بے  دخل کرنے،کشمیریو ں پر روزگار کے مواقع بند کرنے،جیسے اقدام کرے گا،کشمیر میں اس وقت تحریک آزادی کی برکت سے سماجی جرائم اور منشیات کے استعمال کی شرح بہت کم ہے،اب بھارت اپنی قابض فوج کے ذریعے نوجوان نسل کو بحالی مراکز میں برین واشنگ کرتے ہوئے انھیں منشیات کے استعمال کی  جانب لگا رہی ہے جس سے سماجی جرائم میں اضافہ ہوگا،یہ وہ اصل بھیانک منصوبہ جس کی جانب بھارت کو اسکے آقاؤں نے راغب کیا اورجس کو مودی نے اپنا انتخابی نعرہ بنایا اور 4اگست کو اس کو عملی جامہ پہنا دیا،یقیناً یہ سب ایک دن نہیں ہوا،اسرائیل اور بھارت اس پر پہلے سے ہوم ورک کرچکے تھے،لیکن چونکہ مودی کو سابق دورمیں لوک سبھا میں اتنی واضح اکثریت حاصل نہیں تھی لہذا اسکے لئے 2019کا انتخاب کیا گیا،جب مودی کی بی جے پی لوک سبھا میں بھاری اکثریت سے چناؤ جیت گئے،ہمارے ہاں زیادہ تر اس بات پر زور دیا جارہا ہے،کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے،بہت کم آوازیں ایسی ہیں جو اس بات کا ادارک کررہی ہیں کہ 370اور آرٹیکل 35اے ختم ہو جانے کے بعد اب بھارت کیا کرنے جارہا ہے اور اسکے کیا اثرات تحریک آزادی کشمیر پر مرتب ہو ں گے،یہی وہ اہم ترین سوال اور نکتہ ہے جس   پر ہمیں عالمی رائے عامہ اور خاص طور پر اقوام متحدہ میں آواز اُٹھانی ہوگئی۔

کتنےافسوس کی بات ہے کہ اتنی سنگین صورتحال میں غیر مسلم تو ایک طرف خود ہمارے قریب ترین مسلم ممالک جن کے مہمانوں کی چاکری میں ہمارے وزیر اعظم نے ڈرائیوری تک کی، انھوں نے بھی کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ کہہ کر جان چھڑا لی،ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی یہ بدترین مثال ہے،ان حالات میں جب کہ ہمیں ماسوائے چین کے کسی طرف سے اپنے حق میں آواز نہیں مل رہی،وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین ازخود کریں اورکشمیر کی آزادی کے لئے عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کی جانب دیکھنے کی بجائے غیرت مند اور غیور قوم کا عملی ثبوت دیتے ہوئے فیصلہ کریں،کیونکہ نہ تو کشمیر مشرقی تیمور ہے اور نہ ہی سوڈان،ورنہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر پر اپنا اجلاس بلانے کے لئے 50سال کا وقت نہ درکار ہوتا اور وہ بھی پاکستان نہیں بلکہ چین کی درخواست پر،خیالوں اور خوابوں کی بجائے حقیقت کی دنیا میں رہنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کی دنیا اور آج کی عالمی سیاست مکمل طور پر مذہبی اور اخلاقی بنیادوں کی بجائے مفادات کی بنیادپر چل رہی ہے،جس ملک کا کشمیرمیں مفاد ہے اس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا،باقیوں کو ہمارے مسائل سے کوئی سروکار نہیں،لہذا اب اپنے زور بازو کو آزمانے کا وقت ہے،تمام تر سیاسی اختلافات کو بھلا کر جسد واحد بن کر اپنی شہ رگ دشمن سے چھڑوانے کا وقت آگیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply