احسان فراموش۔۔روبینہ فیصل

ایڈیٹر نوٹ۔(نوائے وقت نے یہ کالم اس لئے مسترد کردیا کہ بھگت سنگھ ہمارا ہیرو نہیں ہے )
قرار داد ِ لاہو ر(پاکستان) تو 23مارچ40 19کو لاہور میں منظور ہو ئی تھی،جانتے ہیں؟ اس سے پہلے اسی لاہور میں 23مارچ 1931کو کیا ہوا تھا؟ جب لفظوں کی صورت قرادیں پیش ہو رہی ہو تی ہیں تو بہت پہلے کہیں خون کے قطرے بہہ چکے ہو تے ہیں۔
مورخ بڑا ظالم اور متعصب ہو تا ہے، وہ اپنی مرضی کی قینچی چلا تا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اپنے پیچھے اپنی قربانی کا ایسا بھوت چھوڑ جاتے ہیں جو، صدیاں گذرنے کے بعد بھی،کسی کے دل ودماغ میں آدھمکتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جب سب لوگ مطالعہ پاکستان میں قرارداد ِ پاکستان کے اہم نکات یاد کر رہے تھے، میرے سامنے تاریخ کی کتابوں سے نکل کر بھگت سنگھ آکھڑا ہوا۔ اس کے دائیں طرف سکھ دیو تھا اور بائیں طرف راج گرو۔۔

میرے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔ مجھے لگا، میرے جسم کا پو ر پو ر ان تینوں کا، اور ان سے پہلے پھانسی پر لٹکنے والے رام پرساد،اشفاق اللہ خان، روشن سنگھ اور راجندر ناتھ اور ایسے ہی بہت سارے شہیدوں کا مقروض ہے جنہوں نے مجھے آزاد وطن دینے کی خاطر اپنی جانیں گنوائی تھیں۔ غدر پارٹی کے وہ سارے قوم پرست میرے محسن نکلے جو مذہب، رنگ، نسل سے بالاتر ہو کر سب ہم وطنوں کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے اور میں کیسی احسان فراموش نکلی جو آج بھی سٹیٹیس،قومیت، فرقہ اور رنگ و نسل کی غلام رہی۔

بھگت سنگھ کا ہیرو۔۔ کرتار سنگھ جسے 19 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی تھی، اس نے میری آزادی کی خاطر پھندہ گلے سے لٹکایا تھا،اور میں سان فرانسسکو جا کر اسے چھوٹے سے غدر پارٹی کے بنائے گئے میوزیم میں ڈھونڈتی رہی۔۔ کر تار سنگھ تو میرے کانوں میں چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا: کہ میری پارٹی انگریز حکومت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا چاہتی ہے،کیونکہ یہ سرکار تشدداور نا انصافی پر قائم ہے،وہ لندن میں پھانسی کی سزا پانے والے مدن لال کا بیان دہرا رہا ہے:”جو ملک غیر ملکی سنگنیوں کی نوک سے دبا ہو ا ہے، وہ ہمیشہ حالت ِ جنگ میں ہو تا ہے ”

کرتار سنگھ!! کیا تمھیں پتہ ہے کہ تمھارے یہ الفاظ آج بھی relevantہیں۔۔۔نا انصافی اور عدم مساوات کا راج ہے، اور ہم آج بھی غلام ہیں،اور جو برطانوی پولیس کا مخبر،کرپال سنگھ، شمالی امریکہ کی غدر پارٹی میں شامل ہو گیا تھا، اورتم لوگوں کی بغاوت ناکام کروا دی تھی۔۔ وہ کرپال سنگھ مشروم کی طرح ہمارے ارد گرد پھیلا ہوا ہے، کوئی صدر،کوئی آرمی چیف، کوئی وزیر ِ تو کوئی سفیر اور کوئی صحافی۔ ان حالتوں میں۔۔ ہر طرف کر پال سنگھ ہیں، لیکن اب کرتار سنگھ پیدا نہیں ہو تے۔ اب کرتار سنگھ کو ہیرو ماننے والے بھگت سنگھ بھی پیدا نہیں ہوتے۔ مصلحتوں کی سیاست، صرف سیاسی میدان میں ہی نہیں ہر میدان میں ہو رہی ہے۔ بانجھ ہو ئی ہے تو بہادری اور سچائی کی کوکھ۔

1919 کے جلیاں والا باغ میں ہونے والے قتل ِ عام کی طرح، آج بھی عوام، حکمرانوں کے ہاتھوں ماری جا رہی ہے۔ باہر کے دروازے پر توپیں نصب کر دی جاتی ہیں،غربت اور بیماری کی اندھا دھند فائرنگ ہو تی ہے، اور عوام بن موت ماری جاتی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ آج کوئی ان غلاموں کے خون کو اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی صورت نہیں اتارتا، آج،ایسی لاشیں بے گور و کفن کھلے آسمان تلے پڑی رہتی ہیں، اور ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی بوٹی نوچ کر چلتا بنتا ہے۔ کوئی بھگت سنگھ، خون ملی مٹی کو بوتل میں بھر کر یہ قسم نہیں کھا تا کہ وہ ظالموں سے اس خون کا بدلہ لے گا۔۔بلکہ آج کا جوان سوچتا ہے وہ اس میں سے حصہ کیسے لے گا؟۔اور اب جنرل ڈائر اور ڈوائر بھی گورے رنگ کے نہیں ہو تے۔۔۔تب کے دور کی سچائی ان دونوں کی “پالیسی تھی”، اور آج براؤن جنرل ڈائر اور ڈوائر بھی بالکل انہی کے ہم شکل ہیں۔۔۔عوام آج بھی پیٹ کے بل چل رہی ہے۔ ہوائی جہازوں سے بمباری ہو تی ہے، کھلے عام گولیاں برسائی جاتی ہیں، فیکٹریوں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور انسان زندہ جل جاتے ہیں اورمسجدوں کے اندر جا کر نمازیوں کو مارا جاتا ہے۔ پہلے تیس کروڑ غلاموں اور بھکاریوں کا دیس تھا، آج تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔۔ مگر بھگت سنگھ کی سپیشیزمتروک ہو چکی ہے۔

جیل میں، بھگت سنگھ اور اسکے دوستو ں نے قیدیوں کے مساوی حقوق کے لئے بھی آواز ٹھائی اور بھوک ہڑتال کی۔جیتندر ناتھ داس کی موت ہند کی جنگ ِ آزادی میں ایک انقلابی بھوک ہڑتالی کی موت ہے۔۔ قائد اعظم نے دلی مرکزی اسمبلی کے اجلا س میں ان کے بارے میں کہا تھا: “بھوک ہڑتا ل سے مرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔۔۔”
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی انقلابی تحریک میں انوکھا پن یہ تھا کہ انہوں نے بہادری سے انگریز کی اسمبلی اور عدالت کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنا لیا تھا۔۔ ورنہ ان دنوں غلام، دھڑا دھڑ یونہی مارے جاتے تھے۔ہماری آزادی کے سانس ان سب قربانیوں کا صلہ ہیں۔۔ جسے ہم اپنی نا شکری اور احسان فراموشی کی وجہ سے مانتے نہیں ہیں۔

جب سے سان فرانسسکو کے میوزیم میں میری ملاقات بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سے ہو ئی ہے، اس کے بعد سے میں جب بھی جیل روڈ سے گذرتی ہوں، میں انہیں محسوس کرتی ہوں۔ 23 مارچ 1931 کوسنٹرل جیل کے باہر بھگت سنگھ کے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائی کوملاقات کا منتظر بیٹھے دیکھتی ہوں،مگر کو ئی ان کو ملاقات نہیں کر نے دے رہا۔ باپ کو یاد آتا ہے کیسے وہ بھگت سنگھ کو شادی کے لئے منا رہا تھا، اور وہ گھر چھوڑ کے بھاگ گیا تھا، یہ کہہ کر کہ:”میں نے اپنی زندگی مادرِ وطن کی خدمت جیسے اعلی مقصد کے لئے وقف کر دی ہے۔اس لئے میرے لئے گھر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں کو ئی کشش نہیں۔۔۔۔۔”

وہ تھابھگت سنگھ، ایک انقلابی، جو ملک و ملت کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا، جوانی میں بھی، خود کو محروم رکھا، اور یہ ہیں آج کے انقلابی، جو انقلاب، احتساب اور حساب، ہر ایک نام پر فلرٹ، سیکس اور شادی، ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری۔۔یوں لگتا جیسے وطن کی آزادی کے لئے نہیں ان کی شادیوں کی آزادی کے لئے جانیں قربان کی گئی تھیں۔
لاہور کی سنڑل جیل میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو کئی مہینے قید رکھا گیا تھا۔23مارچ کی شام تھی، بھگت سنگھ لینن پڑھ رہا تھا، برطانوی پو لیس نے ان تینوں کو جیل سے نکالااور پھانسی گھاٹ کی طرف لے گئے۔۔ وہ تینوں ڈرنے کی بجائے انقلابی گیت گانے لگے۔ کیونکہ انہیں یقین ِ کامل تھا کہ ان کی پھانسیاں، بے حس قوم کو جگا دیں گی۔۔ انہیں لگتا تھا، ان کی زندگی نہیں، ان کی موت سے انقلاب آئے گا، اسی لئے وہ ہتھیلی پر جان رکھے نعرے مارتے پھانسی گھاٹ کی طر ف جانے لگے:
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

Advertisements
julia rana solicitors

لاہور کی سنٹرل جیل سے لڑی گئی اس سیاسی لڑا ئی نے پو رے ہندوستان میں کھلبلی مچا دی تھی، مگر افسوس ریاکاری، تنگ نظری اور خود غرضی کی جیت نے ان بہا دروں کی قربانی ضائع کر دی۔ ایسا نہ ہو تا تو آج غلام پیدا ہو نے بند ہو چکے ہو تے۔ معاشی اور سماجی انصاف،نظر آچکا ہو تا۔اور ہماری شکلوں پر غلامی اور احسان فراموشی نہیں بلکہ غیرت اور آزادی کی چھاپ نظر آتی۔
افسوس!! ہم 23مارچ کو قرادادِ پاکستان کو تو ٹو ٹے پھوٹے، رٹے رٹائے طریقے سے یا د کرتے ہیں مگر اس آزادی میں جن جیالوں کا خون شامل تھا، اس سے اپنی نسلوں کو بے خبر رکھتے ہیں۔۔وہ سکھ نہیں تھا، وہ انسان تھا، لائلپور میں پیدا ہو نے والا، لاہور شہر میں پھانسی پانے والا۔۔ ہمارا اپنا بھگت سنگھ، جس نے ہم سب کی آزاد سانسوں کے لئے اپنی جان دی،میرے لئے کسی بھی قرارداد سے زیادہ اہم ہے کیونکہ محسنوں کو بھولنے والے، ایک دن خود بھی بے نام و نشان مٹ جاتے ہیں۔
سکھ دیو، راج گرو اور بھگت سنگھ!!ہمیں معاف کرنا ہم احسان فراموش ہیں۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”احسان فراموش۔۔روبینہ فیصل

  1. شکریہ روبینہ فیصل ضمیر کو جھنجھوڑ نے والی تحریر سلامت رہیں
    آج ہم جس مایوسی انارکی اور ذہنی انتشار کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے ہم اپنے بچوں کو 2018 سے1947 تک پاکستان کی تاریخ پڑھاتے ہیں پھر ایک دم قلابازی لگا کر عرب کی تاریخ پڑھانا شروع کر دیتے ہیں جس کے ہیرو محمد بن قاسم ٬خالد بن ولید اور ایسی طرح کے دوسرے لوگ ہیں جن کا اس دھرتی سے اور اس کی تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں رہا مگر ہم اس دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے اور اس دھرتی اور اس کے باسیوں کی آزادی کے لئے اپنی زندگی نچھاور کرنے والوں کو اپنے بچوں سے متعارف کرانے میں جھجک محسوس کرتے ہیں اگر ہم واقعی کیسی کامیابی کی طرف قدم بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں انڈیا اور پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے درمیان مشترک تاریخی اثاثوں پر بات کرنا ہو گی اگر آزادی کی لڑائی کی بات ہو تو کیسے ممکن ہے بھگت سنگھ ،جھانسی کی رانی اور ٹیپو سلطان کا ذکر نہ ہو یہ تینوں مختلف مذہبی پسے منظر رکھنے کے باوجود اس دھرتی پر بسنے والے تمام انسانوں کی آزادی کے لئے انگریزی استعمار کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے

Leave a Reply