نظر وں کا خو ب استعما ل۔۔۔۔کو ئی ان سے سیکھے۔۔

نظر وں کا خو ب استعما ل۔۔۔۔کو ئی ان سے سیکھے۔۔

کہا جا تا ہے کہ ہر صحا فی کی یہ کو شش ہو تی ہے کہ وہ چیز پر نگا ہ ر کھے ۔۔کو ئی خبر اس سے نظرو ں سے پو شیدہ ہے ایسا کم ہی ہو تا ہے۔۔۔اور صحا فی کی کو شش ہو تی ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں ذ یا دہ سے ذیا دہ معلو مات لو گو ں کو مہیا کرے۔۔
آپ لو گ سوچ ر ہے ہو گ کہ آ ج میر ا ارادہ صحا فی بھا ئیوں پر لکھنے کا ہے مگر حقیقت ذرا مختلف ہے۔۔
میں با ت کر رہی ہو ں ہما رے ڈ رائیو ر حضر ات کی کیو نکہ ان کی بھی عا دت صحا فیوں سے ملتی جلتی ۔۔کیو نکہ کہ صحا فی اللہ کی دی ہو ئی صلا حیت ذہن اور قلم کا استعما ل کرتے ہیں۔۔اور ڈرائیو ر بھی اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑ ی نعمت آنکھیں ۔۔ان کا خو ب استعما ل جا نتے ہیں کہ کب کس عورت کو کس جگہ کتنے ٹا ئم تک گھو رنا ہے۔۔۔۔بس سوچ کا فر ق ہے۔۔کیو نکہ ان کی بھی یہی کو شش ہو تی ہے کہ کم سے کم وقت میں ذیا دہ سے ذیا دہ عورت کو تا ڑسکے ان کی نگا ہ سے عورت کا کو ئی بھی حصہ پو شیدہ نہ رہے جس کی وہ نظر وں سے اچھے طر یقے سے جا نچ نہ کر لے۔۔ مگر ان کی اس طر ح کی حر کت سے ایک عو رت پر کیا گز رتی ہے ۔۔اس کا اندازہ لگا نا بھی ان کے بس سے با ہر ہے۔۔

عو رت کو اسلا م میں بہت عز ت دی جا تی جبکہ کہ با قی معا شروں میں ایسا کچھ نہیں۔۔مگر جب عو رت کو عز ت کے نا م پر غلا غت بھر ی نظر وں کا سا منہ کر نا پڑ تا ہے ۔۔تب وہ جس کر ب سے گز رتی ہے یہ وہی جا نتی ہے۔۔

گا ڑی میں جب ڈ رائیو ر کسی عورت کو سیکنڈ سیٹ پر عز ت سے بیٹھا تا ہے تو وہ خو د کو مر وں کے مقا بلے میں بہتر سمجھتی ہے اور عو رت ہو نے پر فخر کر تی ہے۔۔مگر جیسے ہی گا ڑی چلتی ہے اور ڈرائیو ر حضرات فر نٹ کا شیشہ سید ھا اس پرٹھیک کرکے ایسی اشتیا ق بھر ی نظر وں سے اسے گھو رتا ہے کہ اسے الجھن ہو نے لگتی ہے۔۔اور کبھی کبھی خو د پہ شک بھی کہ کہیں میر ی شکل ایشو ریہ را ئے سے تو نہیں ملتی جو یہ اتنی انہما ک سے مجھے ہی د یکھے جا ر ہا ہے۔۔اور اگر کو ئی پر دے والی عو رت بیٹھ جا ئے تو اسے ان ڈ رائیو ر کی گند ی نظر یں یہ سو چنے پر مجبو ر کر دیتی ہیں کہیں پر دہ تو نہیں ہٹ گیا ۔۔وہ بیچا ریا ں خو اہ مخواہ سیٹ پر ادھر ادھر ہو تی ر ہتی ہیں۔۔کیو نکہ اگر ساتھ کو ئی گھر کا بند ہ بیٹھا ہے تو وہ اسے بھی نہیں بتا سکتی کہ کو ئی تما شہ نہ لگ جا ئے اور اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ سا رے رستے ان کو ڈ رائیور کی کر اہیت بھر ی نگا ہوں کا سا منہ کر نا پڑ تا ہے۔۔

ایک د فعہ مجھے بھی چھو ٹے شہر سے بڑ ے شہر کی جا نب سفر کر تے ہو ئے ایک ڈ رائیو ر نے یہ ا حسا س دلا یا کہ میں اگر مس ورلڈ یا مس یونیورس نہیں بھی تو مس پا کستا ن ضر ور ہو ں اور وہ مجھے اپنی نظروں سے ایسے خر اج عقید ت پیش کر ر ہا تھا اس طر ح تو کو ئی 14اگست پر پا کستا نی پر چم کو سلا می بھی پیش نہیں کر تا۔۔۔کچھ دیر تو میں نے بر داشت کیا پھر مجبو را اسے اپنی نگا ؤں سے گھو رتے ہو ئے وارننگ دی مگر نتیجہ وہی ڈھا ک کے تین پا ٹ۔۔۔میں نے خو د کے ایک کتا ب کے مطا لعے میں مصر وف کر لیا۔۔مگر اس کی حو س بھر ی نظر یں مسلسل مجھ پر تھی جس میں محسو س کر ر ہی تھی۔۔میر ے جسم پر چونٹیا ں سی ر ینگے لگی۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ ر ہی تھی کہ میں کیسے خو د کو اس کی منحو س نظر وں سے بچا ؤں۔۔کیو نکہ کہ وہ نظر یں جھپک بھی نہیں ر ہا تھا۔۔مجھے لگ ر ہا تھ اس کا کام اہم گا ڑی چلا نانہیں مجھے تا ڑ نا ہے۔۔پڑ ھی لکھی ہو نے کے با وجود میں نے اس وقت خو د کو ایک جا ہل عورت کی طر ح بے بس پا یا۔۔اور دعا کی یا اللہ جلد ی سے جلدی مجھے اور با قی گا ڑی والو ں کو خیر خیر یت سے منزل تک پہنچا۔۔کیو نکہ کہ جس طر ح اس ڈرائیو ر کی نگا ہوں کا فو کس راستے کے بجا ئے میں تھی ۔۔ مجھے ڈر تھا کہ اس کا کو ئی خطر نا ک نتیجہ ایکیسڈ نٹ کی صو رت میں سا منے آ سکتا تھا۔۔۔ میں نے دل میں ایک با ت طے کر تے ہو ئے خو د کو دوبا رہ مطا لعے میں غر ق کر لیا۔۔اللہ اللہ کر کے ہم صحیح سلا مت منز ل تک پہنچے ۔۔۔

گا ڑی سے اتر کر جب میں ڈرائیو ر سے اپنا سا مان لے ر ہی تھی تو میں نے خو ب کس کے ایک طما نچہ ڈ رائیو ر کے منہ پر دے مار ا طما نچے کی آ واز سن کر آ س پا س کے راہگیر کچھ دیر رکے اور پھر چل دیے مگر وہ ڈ رائیور رایسے حیران ہو ر ہا تھا جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہیں ۔۔اوراس کے اس سوال نے مجھے آ گ بگو لہ کر دیا وہ بڑ ی معصو میت سے پو چھ ر ہا تھا کہ با جی کیا ہو ا ہے۔۔جی چا ہ ر ہا تھا کہ دو چا ر تھپڑ ایسے ہی اور جھڑ دو ں اور کہوں کہ آ پ کی نظر وں کا شکر یہ ادا کر رہی ہو ں آخر کو سا را رستہ آ پ نے ہم سب کی جا ن کو خطر ے میں ڈال کر میرے چہر ے کو اتنی عز ت جو بخشی ہے۔۔مگر اپنے آپ پر میں جبر کر تی ہو ئی میں اپنا سا مان آ ٹھا کر ادھر سے چل پڑی۔۔اور سوچ ر ہی تھی کہ عو رتوں کو دیکھنا تو ان کا روز کا معمول ہے جس میں ان کو کوئی خر ابی نظر نہیں آتی۔۔اس لیے اسے احسا س نہیں تھا یا شا ہد اسے کسی نے احسا س دلا یا نہیں ہو گا۔۔۔ کہ ان کی اس تھو ڑے سے وقت میں عو رت پر پڑ ی گند ی نظر اس کو اند ر تک جھنجھو ڑ کر رکھ د یتی ہے۔۔۔

گھر پہنچ کر میں سو چ ر ہی تھی کہ ڈرائیو ر تو آرا م سے مصو ر بن سکتا ہے ۔۔کیو نکہ جتنے غو ر سے وہ عو رت کے چہر ے کاتین گھنٹوں میں مشا ہدہ کر لیتا ہے ۔۔وہ تو اسے آ رام سے تخلیق کر سکتا ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں بھی با قی عو رتوں کی طر ح اس وا قعہ پر لعنت بھیجنا چا ہتی تھی مگر یہ وا قعہ لعنت بھیجنے وا لا نہیں بلکہ قا بل سو چ ہے۔۔کیو نکہ ڈرائیو رز کی اس طر ح کی حر کتیں ان کا روز مرہ کا معمول ہیں مگر ان کی یہ گھٹیا حر کت ایک عو رت پر گہر ی چھا پ چھو ڑ جا تی ہیں۔۔
کا ش ہما رے ملک میں ڈ رائیو ر طبقے کو اگر ان کی اس حر کت کا احسا س ہو جا ئے تو شا ہد ہم عو رتیں بھی آ رام دہ سفر کا مزہ لے سکے۔۔

Facebook Comments

عاصمہ روشن
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ روشن نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کی ڈگری کیساتھ ساتھ اردو میں بھی ماسٹر کیا ہے اور ابھی ایم فل کی طالبہ ہے -پڑھنے اورلکھنے کی کوشش بچپن سے ہیں- غیر سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور اس وقت شعبہ صحافت سے وابستہ ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply