• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ولہلم رائخ پر خالد سعید صاحب کے ایک مضمون کی شرح۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

ولہلم رائخ پر خالد سعید صاحب کے ایک مضمون کی شرح۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

میرے ذی قدر استاد پروفیسر خالد سعید صاحب نے جن ماہرین نفسیات پر 1980 کی دہائی میں مضامین تحریر فرمائے تھے ان میں سے ایک آسٹریا میں پیدا ہونے والے ولہلم رائخ Wilhelm Reich بھی تھے، پڑھے لکھے افراد کی اکثریت ان کو ان کی مشہور کتاب Mass Psychology of Fascism کے حوالے سے جانتی ہے۔ نفسیات کے طلباء کے پاس بالعموم ان کی 23 کتابوں کی فہرست ہوتی ہے۔ خالد سعید صاحب نے دس کتابوں کی فہرست اپنی تحریر میں فراہم کی ہے جبکہ مضمون میں چار کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔

یہ بات بغیر کسی تردد اور تامل کے کہی جاسکتی ہے کہ رائخ کی اہم ترین کتاب وہی ہے جو آج تک ان کی وجہ شہرت ہے یعنی “فسطائیت کی نفسیات کی عوامی بنیادیں”۔فسطائیت یا فاشزم کی جو تفہیم آج ہمارے پاس موجود ہے اس کے لیے ہم بجا طور پر رائخ کے ممنون احسان ہیں۔ یہ بات ایک طالب علمانہ وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فاشزم کے نفسیاتی پہلو پر رائخ سے پہلے نہ کسی نے اتنی تفصیل سے سوچا اور نہ لکھا۔ رایخ وہ پہلا مفکر تھا جس نے اس صورتحال کی جانب تفصیل سے توجہ دلائی ہے جو کسی بھی معاشرے میں فاشزم کے جنم لینے اور فروغ پانے کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات جو رائخ نے بیان کی وہ غالباً فاشزم کی قدامت کا بیان تھا۔ عام گمان کے برعکس رائخ مسولینی کو فاشزم کا بانی خیال نہیں کرتا۔ آپ جانتے ہیں کہ عام طور پر فاشزم کو مسولینی کے نام اور اس کی قائم کردہ پارٹی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے فاشزم کی تعریف میں لوگوں کو بہت مغالطہ ہوا۔ انتہائی معصومیت کے ساتھ ہر برے، سخت گیر، اور بدمزاج شخص کو فاشسٹ کہا جانے لگا۔ اور تو اور اپنے موقف پر ثابت قدم افراد اور گروہ بھی فاشسٹ کہلائے جانے لگے۔ ہمارے ملک کے بے حیثیت، بے اختیار، اور بے بساط مٹھی بھر لبرل بھی فاشسٹ کے لقب کے حقدار ٹھہرے۔

اس سے پہلے کہ ہم رائخ کی بیان کردہ تفصیلات کا ایک اجمالی جائزہ لیں ذرا فاشزم کی تعریف پر نظر ڈالیے جو مختلف سکالرز نے معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اینتھونی جیمز جوز کی 1978 میں شائع ہونے والی کتاب Fascism in the contemporary world: Ideology, Evolution, Resurgence میں فاشزم کے تین پہلوؤں کو اس کی شناخت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ ذیل میں بیان کردہ نظریات سے وابستگی رکھنے والوں کے نقطہ نظر کو فاشزم کہا گیا ہے۔
1. عالمی سیاست ایک خطرناک کھیل ہے جس میں ہار اور جیت کا فیصلہ صرف اور صرف طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
2. چونکہ صرف طاقت ہی ہار اور جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے اس لیے ایک ملک کے لیے اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا از حد ضروری ہے۔
3. طاقت کے حصول کے لیے آئینی روک ٹوک، پارلیمانی نظام، اور سیاسی پارٹیوں کے اختلافی منشور غیر ضروری ہیں۔ ان کی بجائے مقاصد کو پیش نظر رکھنے والی ایک طاقتور اشرافیہ ہی ملک کو اس منزل تک لے جا سکتی ہے۔ ریاست سے بالاتر ہر شے بے معنی ہے۔
برطانوی مؤرخ روجر گرفن نے 1991 میں فاشزم کے تین اہم نکات بیان کیے تھے۔
1. ماضی کو دوبارہ زندہ کرنے کی خواہش اور خواب
2۔ عوامی مقبولیت رکھنے والا سطحی نیشنلزم جس میں اپنی قوم کو دنیا کی تمام تر اقوام سے بالاتر بنانے کا عزم اور ارادہ بیان کیا جاتا ہے۔
3. اخلاقی (خاص طور پر مالی کرپشن) گراوٹ کو قومی مسائل کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔
لارنس برٹ Britt نے 2003 میں ہٹلر، مسولینی، سپین کے جنرل فرانکو، انڈونیشیا کے صدر سوہارتو، برازیل کے سیلازار، یونان کے ڈوپولز اور چلی کے جنرل پنوشے کی طرز حکومت کے تفصیلی مطالعہ کے بعد مندرجہ ذیل 14 نکات کو بیان کیا ہے۔ بریٹ کے مطابق یہ چودہ نکات ان حکمرانوں میں ایک قدر مشترک کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
1. حد سے بڑھی ہوئی خوب الوطنی کا پرچار۔
2. انسانی حقوق کے تصور سے بیزاری، نفرت اور انکار
3. قوم کو متحد رکھنے کی کوشش میں دشمن اور قربانی کے بکروں کی مسلسل تلاش۔
4. ملک کے تحفظ کو فوج کی بالادستی سے مشروط کرنا۔
5. مردانہ رویوں کے لیے پسندیدگی
6. میڈیا پر مکمل کنٹرول کی خواہش
7. نیشنل سکیورٹی کو ہر شے پر فوقیت دینا۔
8. کارپوریشنز کا تحفظ
10. مزدوروں کی آواز کو دبانا
11. آرٹ اور دانش سے اجتناب
12. صرف سخت سزاؤں کے ذریعے جرائم کی بیخ کنی کا تصور
13. اقربا پروری اور کرپشن
14. مشکوک انتخابات کا انعقاد۔

فاشزم اور کلونیل ازم کے ایک عام طالب علم کے طور پر میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ اب یہ دونوں نظام افراد یا افراد کے گروہوں کے ذریعے پہچانے نہیں جاسکتے۔ مثلاً فاشزم کی شناخت کے لئے اب ہٹلر یا مسولینی ہماری مدد کو نہیں آئیں گے۔ اسی طرح کلونیلزم کی شناخت کے لیے برطانوی راج دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ اب یہ نظام بے چہرہ ہوچکے شناخت اب شخصیات کے ذریعے نہیں بلکہ ان نظاموں کے خصائص کے ذریعے ہوگی۔ اسی لیے اب ماہرین کی توجہ خصائص بیان کرنے پر ہے۔

فاشزم کے خصائص کے بیان کے بعد اب رائخ کی بیان کردہ فاشزم کی تعریف دیکھیے۔ اہم بات یہ ہے کہ رایخ فاشزم کی شروعات مسولینی سے بہت پہلے دیکھتا ہے اور ظاہر ہے اس نے یہ رائے ان خصائص کی بنیاد پر قائم کی ہے جو اس نے مسولینی سے پہلے کے معاشروں میں دیکھے۔ Mass psychology of fascism کے تیسرے ایڈیشن (جو انیس سو بیالیس میں شائع ہوا) کے مقدمے میں رائخ کہ یہ الفاظ موجود ہیں۔
“جب یہ کتاب پہلی مرتبہ شائع ہوئی اس وقت فاشزم کو ایک سیاسی پارٹی سے منسوب کیا جاتا تھا۔ جس کے دوسرے سماجی گروہوں کی طرح اپنے سیاسی نظریات تھے۔ اس رائے کے مطابق ہی یہ سیاسی پارٹی فاشزم کو طاقت اور سیاسی چالوں کے ذریعے اقتدار میں لانا چاہتی تھی۔ اس کے برعکس میرا تجربہ اور اقوام, مختلف نسلی گروہوں, مذاہب اور مردوں اور عورتوں کا میرا مطالعہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ فاشزم ایک عام آدمی کے عمومی کردار کا ایک منظم سیاسی اظہار ہے”

رائخ کے الفاظ میں “فاشزم اصل میں جبر کی بنیاد پر استوار ہونے والی تہذیب اور ایک میکانکی مگر پُراسرار تصورحیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ناآسودہ شخصیت کا جذباتی رویہ ہے”

فاشزم کو کسی ملک، علاقے، یا قوم تک محدود کرنا رائخ کے خیال میں تجزیہ کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ رائخ کی یہ رائے اس لحاظ سے بہت اہم ہے کیونکہ اس نے الناس علی دین ملوکہم (عوام بادشاہوں کے طور طریقے اختیار کرتے ہیں) کے فارمولے کو بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے اس کے خیال میں حکمران عوام کے عمومی ذہنی رویے کا عکس ہوتے ہیں۔ اسی مقدمے کی چند اور سطریں دیکھیے۔
“فاشسٹ ذہنیت ایک بالشتیے Little man کی ذہنیت ہے جو حالت غلامی میں حکمرانی Authority کے حصول کی ایک بے قابو خواہش رکھتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے خواب بھی دیکھتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ تمام ڈکٹیٹرز اسی طرح کے بالشتیوں میں پائے جانے والی رد عمل کی نفسیات کے مریض ہوتے ہیں صنعتی تسلط اور جاگیر دارانہ جارحیت اس سماجی حقیقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں”

چند اور سطریں دیکھیے۔۔
“بالشتیے بڑے لوگوں کی زندگیوں اور رویوں کا بغور اور مفصل مطالعہ کرنے کے بعد ان کو انتہائی بھیانک اور بگڑے ہوئے طریقے سے دوہراتے ہیں”

بالشتیا اس فاشسٹ معاشرے کو تشکیل دیتا ہے جس کے نتیجے میں ہٹلر اور مسولینی جیسے فاشسٹ رہنما جنم لیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر رائخ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ ہٹلر اور مسولینی معاشروں کو فاشسٹ نہیں بناتے یہ فاشسٹ معاشرے ہیں جو اس طرح کے رہنماؤں کو جنم دیتے ہیں۔ یہاں ہوسکتا ہے ذہنوں میں یہ سوال اٹھے کہ اگر فاشسٹ معاشرے نے مسولینی کو جنم دیا تھا تو اسی معاشرے نے اسکو اتنے دردناک انجام سے دوچار کیوں کیا۔۔۔۔۔ ذرا مسولینی کے انجام کو یاد کیجیے۔۔ کیا کوئی غیر فاشسٹ معاشرہ کسی بھی انسان خواہ وہ مسولینی ہی کیوں نہ ہو کو اس قدر بھیانک طریقے سے قتل کرکے اس کی لاش کے ساتھ وہ سلوک کر سکتا ہے جو مسولینی کے ساتھ ہوا؟ انسانی جان کے ساتھ جہاں جہاں یہ سلوک ہوا ہے وہ فاشسٹ رجحانات رکھنے والے معاشرے کے ہاتھوں ہی ہوا ہے۔
“بالشتیا” رائخ کے مطالعے کا ایک اہم موضوع ہے۔ خالد سعید صاحب نے رایخ کی کتاب Listen little man کا ترجمہ “سن او بالشتیے” کے نام سے کیا ہے۔ اس کے مطابق یہ بالشتیا فاشسٹ معاشرے کی ایک اکائی ہے جو فاشسٹ معاشرے کو تشکیل دیتا ہے۔ رایخ کی یہ کتاب اس بالشتیے کو مطالعہ باطن پر مجبور کرتی ہے۔ ذرا جلسے، جلوسوں، دھرنوں میں شرکت کرنے والوں۔۔ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے اردگرد موجود کرداروں۔۔۔ ان رہنماؤں کے حق اور مخالفت میں بحث کرتے، کف اڑاتے ہوئے عام انسانوں کو ذہن میں رکھیے۔۔۔ سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے سرعام ہونے والے قتل کے لرزہ خیز واقعے کی تفصیلات ذہن میں تازہ کیجیے۔۔۔ یاد کیجیے کہ وہ اژدہام جو خوف، اشتیاق، اور ترحم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ان بھائیوں کو انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنتے ہوئے خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور اپنے موبائل میں واقعے کو محفوظ کررہا تھا۔۔۔ اور پھر رائخ کی یہ سطریں پڑھیے۔ وہ بالشتیے سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
“تم نے لوگوں (یعنی رہنماؤں) کو بالشتیوں کی رہنمائی عطا کی اور تمہیں ہر بار یہی اندازہ ہوا کہ تمہارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے”
“تمہیں اس امر کا احساس ضرور ہوا ہوگا کہ تم نے اپنے جیسے بالشتیے کو اپنا استحصال کرنے پر مامور کر لیا ہے”

بالشتیے کے مذہبی رجحانات پر رائخ کا تبصرہ دیکھیے۔ “تم مذہبی رواداری اور برداشت مانگتے ہو۔۔۔ بہت خوب۔۔ مگر تم اس سے کچھ زیادہ مانگتے ہو تمہاری رواداری کی خواہش صرف تمہارے اپنے مذہب تک محدود ہے۔ مگر جب جب دوسروں کے مذہب کی بات ہو تو تم رواداری کا مظاہرہ نہیں کرتے، تمہاری اپنی عقل تمہارا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔۔۔ جب بھی تمہارے ذاتی خدا کے علاوہ کوئی اور خدا فطرت سے محبت کرتا ہے اور اسے سمجھنا شروع کر دے تو ایسے میں تمہیں ایک فوجی پارٹنر کی ضرورت پڑتی ہے جو دوسروں کے غیر اخلاقی رویوں پر انہیں سزا دے سکے”
(براہ کرم اس تحریر میں رائخ کی عبارتوں کے ناقص ترجمے پر معذرت قبول فرمائیں)

جیسا کہ عرض کیا جاچکا کہ یہ بالشتیا فاشسٹ معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ فاشسٹ معاشرہ اسی کے دم سے تشکیل پاتا ہے۔ لیکن یہ بالشتیا وجود میں کیسے آتا ہے رائخ نے اس سوال کا جواب بھی فراہم کیا ہے۔ خالد سعید صاحب نے اپنی تحریر میں قدرے تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ کے ذہن میں سگمنڈ فرائد کی مشہور کتاب Civilization and it’s discontents ہوگی۔اس کتاب میں فرائیڈ کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ فرد اور تہذیب کے مابین بنیادی جبلتوں (جنسی خواہش اور جارحیت) پر ایک کشمکش رہتی ہے،یہ کشمکش ہر تہذیب کے بنیادی اجزاۓترکیبی میں نہ صرف شامل رہتی ہے بلکہ تہذیب کی بقا میں بنیادی جبلی رویوں پر معاشرے کا کنٹرول بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ رائخ نے فرائڈ کے اس تصور سے اختلاف کرتے ہوئے میلی ناوسکی کے ان مطالعات کا حوالہ دیا ہے جو اس نے ایک ماہر بشریات کی حیثیت سے نیوگنی کے ٹروبرائنڈ جزائر میں رہنے والوں پر کیے تھے۔ میلی ناوسکی نے 1913 سے 1927 کے درمیان لکھی گئی اپنی کتابوں میں ٹروبرائنڈ کے جزائر میں اس وقت تک موجود مدرسری Matriarchal معاشرے کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔ اس کے مطابق ان جزائر میں موجود خاندانوں میں باپ کی بجائے ماں کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ معاشرے میں جنس کی بنیاد پر تفریق موجود نہیں تھی۔ جنسی تعلقات کی نوعیت آزادانہ اور بغیر کسی دباؤ کے تھی۔ نہ وہاں ہم جنس پرستی کا چلن تھا اور نہ فرائیڈ کا بیان کردہ Oedipus complex،جبکہ انہی جزائر سے سے ذرا کچھ فاصلے پر موجود ایمفلٹ جزائر پر ذہنی امراض بھی زیادہ تھے اور جنسی تعلقات پر دباؤ بھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں باپ کو خاندان میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ میلی ناوسکی کے مطابق خاندانوں میں باپ اور ماں کی حیثیت میں فرق معاشرے کی بنیادی ساخت کو بدل دیتی ہے۔ اس ضمن میں انڈونیشیا کے منانگ کابو Minangkabau لوگوں کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہاں مدرسری سے ملتا جلتا سماجی نظام موجود ہے اور مذہباً یہ لوگ مسلمان ہیں۔ رائخ نے میلی ناوسکی کی تحقیقات کے نتائج کو بنیاد بناکر فرائڈ کے خلاف یہ استدلال کیا کہ ٹروبرائنڈ کے جزائر پر تہذیب موجود تھی مگر یہاں تہذیب کے قیام کے لئے معاشرے اور فرد کے درمیان وہ کشمکش موجود نہیں تھی جس کی جانب فرائڈ نے اشارہ کیا تھا اور جسے تہذیب کے قیام اور بقاء کے لئے ضروری خیال کیا تھا۔ رائخ کے خیال میں یہ تہذیب نہیں بلکہ پدرسری سماج اور اس میں قائم ہونے والے خاندان میں باپ کی بالا دستی ہے جو فرد کے جبلی تقاضوں پر غیر ضروری قدغن لگاکر فرد اور معاشرے کے مابین غیر ضروری اور مریضانہ کشمکش کو جنم دیتا ہے۔ تضادات، تعقیبات Repression اور جبر سے عبارت پدرسری نظام بالشتیوں کو جنم دیتا ہے۔ رایخ شاید وہ پہلا نظریہ ساز تھا جس نے ذاتی ملکیت، پدرسری نظام اور فرد کی جنسی آزادی پر پابندیوں کے مابین تعلق کو وضاحت سے بیان کیا۔ اپنی کتاب “فسطائیت کی نفسیات کی عوامی بنیادیں” میں اس نے مارکس اور اینگلز کی مشترکہ تصنیف “خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز” ماہر بشریات لوئس مارگن کی کتاب “قدیم معاشرہ” Ancient society اور سوئس ماہر بشریات جوہان باخو فن Johann Bachofen کے مدرسری نظام پر خیالات کو ہم آہنگ کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حقیقت میں یہ سرمایہ دارانہ اور پدرسری نظاموں کی ملی بھگت ہے جس کی وجہ سے فسطائیت کا چلن معاشروں میں عام ہوتا ہے۔ اپنی اسی کتاب کے دوسرے باب میں رائخ پدرسری نظام میں بننے والے خاندان میں حاکمیت Authority کا تعلق فسطائیت سے جوڑ کر دکھلاتا ہے۔

رائخ کے اس کام نے تحکم پسند شخصیت Authoritarian personality نامی اصطلاح کو جنم دیا یہ اصطلاح ایک ایسی شخصیت کو بیان کرتی ہے جو مقتدر اور بااختیار طبقات کے لئے بے پناہ عزت اور احترام رکھتی ہے۔ ان کو لائق تقلید اور قابل اطاعت سمجھتی ہے۔ طاقت ور کی طاقت کو اپنی طاقت اور مضبوطی خیال کرتی ہے۔ طاقت ور سے وابستگی کو اپنی بقا کا ضامن گردانتی ہے۔ کمزور اور بے اختیار سے نفرت اور ان سے اجتناب برتتی ہے۔ اس موضوع پر ایڈورنو کی ضخیم کتاب آپ کو یاد ہوگی جس میں اس نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ ایسے لوگ مقتدر اور طاقتور طبقوں کا احترام نہ کرنے والوں کے لئے کس طرح کے جارحانہ جذبات رکھتے ہیں۔ ذرا اپنے معاشرے میں امیر، اولی الامر، اور سپہ سالار جیسے تصورات کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ عوام ان کے مرتبے اور ان کی اطاعت کے بارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک فوجی ایک سویلین کی نسبت زیادہ لائق احترام کیوں سمجھا جاتا ہے۔ سخت گیر حکمران ہمارے ایسے معاشروں میں کیوں پسند کیے جاتے ہیں۔ رائخ کے خیال میں اس سب کی وجہ پدرسری نظام میں باپ کا منصب ہے۔ یہاں وہ ہٹلر کے ختیار کردہ اس لقب (فیوہرر) کی مثال دیتا ہے جس کے معنی عظیم باپ کے ہیں۔ ( ہم بھی جب کسی کو عزت دینا چاہیں تو “بابا” کا لقب عطا کردیتے ہیں) رائخ کے خیال میں یہ عوامی مقبولیت صرف اسی شخص کو ملتی ہے جس کے نعرے ایک اوسط درجے کے انسان کی ذہنی سطح کے مطابق ہوں۔
گو رائخ نے اپنی کتاب میں بہتر مستقبل کو مدر سری نظام کی واپسی سے مشروط نہیں کیا ہے لیکن پدرسری نظام پر اس کی تنقید سے شاید یہ گمان گزرے کہ مدرسری نظام کا احیاء انسان کو موجودہ مشکلات سے نجات دے سکتا ہے۔ مدر سری نظام کو جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی وکالت کرنے والے دانشور ایک ایک فرضی معاشرہ خیال کرتے ہیں وہیں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے بعض خواتین و حضرات اسے عورتوں کی حکمرانی خیال کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ خاندان میں ماں کی برتر حیثیت سے عبارت ہے۔ رایخ کی خیال میں پدر سری نظام میں فسطائیت کا آغاز خاندان میں باپ کے کردار سے ہوتا ہے۔ خالد سعید صاحب نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
“خاندان میں باپ کی آمرانہ حیثیت اس کے سیاسی کردار کو منعکس کرتی ہے اور آمرانہ ریاست اور خاندان کے مابین پیچیدہ تعلق کو واشگاف کرتی ہے”

یہ حقیقت ہے کہ جب تک خاندان میں ماں کو مرکزی حیثیت حاصل رہی معاشرے میں فسطائی رجحانات موجود نہیں تھے۔ لیکن سرمایہ دارانہ اور پدرسری نظام کی پھیلائی ہوئی بساط میں انسان کے لیے کامیابی کا فقط ایک راستہ چھوڑا گیا ہے اور وہ ہے ایک “مردانہ وار” زندگی کا راستہ۔ آپ عورت ہیں یا مرد ۔۔۔کامیابی مردانگی میں ہے۔ کامیابی کے اس تصور نے ماں بننے کی کشش کو بتدریج کم کردیا ہے۔ جسکا نتیجہ ظاہر ہے کہ مدرسری کی جانب جانے والوں کے رستے کھوٹے کردیے گئے ہیں۔ اس صورتحال کا بنیادی سبب عورتوں کا ماں بننے سے بڑھتا ہوا انکار ہے۔

خاتمہ کلام کے طور پر یہ بات اصرار کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ رائخ تھا جس نے فاشزم کی تشخیص کا دائرہ چند افراد ہٹلر اور مسولینی وغیرہ سے ہٹا کر پورے معاشرے تک پھیلادیا۔ فاشسٹ رہنماؤں کی مقبولیت کا سبب بھی کھول کر بتا دیا۔ عوام میں فاشسٹ نامی بیماری کی علامات بھی گنوا دیں۔ پہلی مرتبہ 1933 میں شائع ہونے والی رائخ کی یہ کتاب آج بھی فاشسٹ معاشرے کی شناخت کے لیے سب سے اہم کتاب ہے۔ اس سے بعد میں آنے والوں نے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

رائخ کے تجزیہ کی طاقت اور اصابت اپنی جگہ مسلّم لیکن یہ بات بہرحال عیاں ہے کہ یہ تجزیہ سرمایہ دارانہ نظام کے پیچیدہ، پر پیچ، گنجلک اور پھیلے ہوئے تاروپود میں میں پھنسے ایک فرد کو اپنی حیثیت سے آگاہ تو کرتا ہے اس سے نکلنے کا راستہ نہیں دکھاتا۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply