• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اپنے بیٹے کے نام ایک کھلا خط ( نوجوان لڑکوں کے والدین کی نذر)-محمد وقاص رشیدد

اپنے بیٹے کے نام ایک کھلا خط ( نوجوان لڑکوں کے والدین کی نذر)-محمد وقاص رشیدد

میرے بیٹے !

جوانی کے عہد میں پہلا قدم مبارک۔ دلچسپ مرحلہ ہے میں پیچھے مڑ کے تجھے اس عہد میں خوش آمدید اور اسے الوداع ایک ہی وقت میں کہہ رہا ہوں میرے لعل۔ ایک تحریر تیرے لیے سنبھال رکھی ہے۔ اپنے دوستوں کو بھی پڑھانا میرے بس میں ہوتا تو تیرا کوئی ہمعصر رہ نہ جاتا لیکن پیارے ساری کہانی بس میں ہونے اور رہ جانے کے درمیان معلق ہے۔

بیٹے ! تیری عمر سے آج تلک ایک تحریر مختلف شکلوں میں اکثر نظروں سے گزرتی ہے کہ بیٹیوں کو گھر سے نکلتے یہ آداب سکھائیے ، درج ذیل نصیحتیں کیجیے۔۔۔۔

گھر سے باہر اونچی آواز میں بولنا اور ہنسنا نہیں ہے۔

باہر جاکر نگاہیں ہمیشہ جھکا کر رکھنی ہیں۔

– نیچے سے کوئی چیز رکوع کی حالت میں نہیں اٹھانی۔

– سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے مردوں کی نظروں سے بچنا ہے۔

– لفٹ میں غیر مردوں کے ساتھ سفر نہیں کرنا۔

– لباس ،خوشبو ، میک اپ وغیرہ میں فلاں فلاں احتیاطیں۔

– فٹ پاتھ یا راہداری پر چلتے ایک طرف سمٹ کر چلنا ہے۔

– گھر سے باہر کسی مرد سے غیر سنجیدگی سے بات نہیں کرنی۔ وغیرہ وغیرہ

جانِ جگر !  ایک بیٹی کا باپ ہو کر مجھے اس بات کا زیادہ احساس ہے کہ مجھے اس سماج میں عورت کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے اسکی گود میں پلتی انسانیت کو سہمانے کی بجائے مرد کے اس احساسِ برتری کو ختم کرنا ہے جو اس سہمائے جانے کی وجہ ہے۔

بات سمجھیں چندا ! جنس انسانی فطرت کی صنفی پہچان ہے۔ عہدِ شباب میں ایک فطری ضرورت بھی ۔ لیکن جہاں بچے محض اس ضرورت کی تکمیل کے نتیجے میں ایک اتفاقی پیداوار ہوا کرتے ہیں وہاں والدین ہونا بس ایک اتفاقیہ عمل ہوتا ہے۔ ایک بھیڑ چال۔ وہاں والدین ہونا نظامِ فطرت کے سب سے کلیدی دو عہدے داروں اور کرداروں کا نام نہیں ہوتا جن کے ہاتھوں سماج نے پروان چڑھنا یوتاہے۔

احساسِ ذمہ داری کا یہ فقدان عدم تربیت کے نتیجے میں انسانی رویوں میں عدم توازن پیدا کرتا ہے۔ صنفی عدم توازن کے شکار گھر ظاہر ہے اسی قسم کا سماج پیدا کرے گا کہ گھر سماجی ورکشاپ ہوا کرتا ہے۔

اب جب بیٹوں کی تربیت نہیں کی جاتی بلکہ عملاً جو کچھ ایک لڑکا دیکھتا ہے وہی تربیت کہلاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باہر بھیجتے ہوئے لڑکی کے سامنے عملی طور پر یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ بیٹی کیونکہ مرد کو تربیت تو کُجا  باقاعدہ ایک احساسِ برتری عطا کیا گیا اس لیے اسکے نتیجے میں تمہارا گھر کیا باہر کیا ہر جگہ ایک سہمی ہوئی مخلوق دکھائی دینا ضروری ہے اور اس پر ایک لڑکی کی فکر کو قید کرنے کے لیے اپنی خود ساختہ گھڑی گھڑائی مزہبی تفہیم کا بند باندھ کر اس احساسِ کمتری کو مقدس بنا دیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلہ

سو بیٹے جانی ! بات یہ ہے کہ میں نے زندگی میں خود کو سب سے زیادہ ایک باپ کے روپ میں دیکھا ، پرکھا اور سوچا ہے۔ میں جسمانی یا مادی حیثیت میں باپ بننے سے پہلے فکری اور روحانی طور پر ایک باپ بنا تھا۔ میری نظر میں باپ ہونا زمین پر خدا کا خلیفہ ہونا ہے۔ بچے کو اتفاقیہ پیدا کرنے سے بلا تربیت پروان چڑھانے سے بڑا سماجی جرم میرے نزدیک کوئی نہیں اور مجھے یقین ہے کہ اسکا سوال ہو گا۔ میرے نزدیک اگر میری عدم تربیت کا خمیازہ کسی کی بیٹی کو بھگتنا پڑے تو یہ پدری عہدے کی سب سے بڑی توہین ہے۔ شکر خدا کا کہ تو اسکا گواہ ہے میرے یار۔ پرسوں پہلے دن جب تو نے مجھے کالج بس میں کسی لڑکے کے ایک لڑکی کی جانب غیر مناسب رویے پر اسے جا کر منع کیا تو میں کیا بتاؤں تجھے کہ مجھے تجھ پر کتنا فخر محسوس ہوا۔ جیتا رہ اور یونہی جیتا رہ یار۔

انسانی فطرت کی ہر ضرورت کو خدا پاکیزگی کی کسوٹی سے گزارتا ہے۔ مثال کے طور پر جنس کی بھوک کے ساتھ پیٹ کی بھوک بھی ایک شے ہے۔ ہمیں بھوک لگتی ہے تو کیا ہم گلی کے کتوں کی طرح ہر شے کو سونگھنے لگتے ہیں نہیں ہم دستیاب طیبات کی طرف رخ کرتے ہیں اسی طرح جنس کی بھوک میں بھی اشرف المخلوقات کو یہی رویہ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ یاد رکھ بیٹے جس مرد کو دیکھ کر کسی کی بیٹی کو رستہ بدلنا پڑے اس میں اور اس گلی کے کتے میں کوئی فرق نہیں بلکہ شاید وہ بہتر ہو گا کہ وہ اشرف المخلوقات نہیں کہ اس کے ماں باپ اسے بتاتے سکھاتے۔ اس نے اپنے ماں باپ کو ایسا ہی کرتے دیکھا تو ان انسان نما حیوانوں نے اپنے ماں باپ سے کیا سیکھا ؟

سو میری تکمیل کرتے فرشتے سُن ۔ دل کے کانوں سے سُن میرے بیٹے۔

-تجھ پر بھی حیا اتنی ہی فرض ہے جتنی کسی بھی لڑکی پر۔ اور یاد رکھ کہ کسی کی کھلی بے حیائی بھی تجھ پر خدا کے اس حکم کی تنسیخ کا اجازت نامہ نہیں۔

– گھر سے باہر اونچی آواز میں ہنسنا یا بولنا نارمل قسم کی انسانی حرکات ہیں جو یقیناً تیری بہن بھی اپنے دوستوں میں کیا کرتی ہے۔ ان آوازوں سے کسی بھی قسم کی منفیت کشید کرنا وحشت ہے۔

– گھر سے باہر نیچی نگاہیں صرف عورت کی ذمہ داری نہیں مرد کی بھی اتنی ہی ہے۔ خدا نے تجھے تاڑنے والی ہراساں کرتی نگاہوں سے منع کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ مردوزن کی نگاہوں کا چار ہونے سے محض جنسیت کے معانی اخذ کرنے والے ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔

– سکول ، کالج ، یونیورسٹی ، دفتر یا مردوزن کے اختلاط کی دوسری جگہوں پر کسی راہداری پر ، سیڑھیوں پر ، فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے بھی اگر کوئی عورت متجاوز حد تک محتاط ہے تو مرد کو اپنے تربیتی گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

– لباس ، خوشبو ، میک اپ ، رنگین لباس یہ عورت اور خدا کا معاملہ ہے ان میں سے کسی بھی شے کی خودساختہ تعریف کے ذریعے عورت کے کردار کے متعلق سوچنا بھی بذاتِ خود سب سے بڑی بد کرداری ہے اور بیمار الذہنی ہے۔

میرے لختِ جگر ! بات یہ ہے کہ میرا فرض ہے تجھے تربیت دینا اور اس تربیت میں جنسی تربیت ایک اہم حصہ ہے۔ بیٹا ! جب آدم و حوا نے اس باغ سے وہ شجرِ ممنوعہ کا پھل کھایا تو ان میں جنسیت تب جاگی تھی۔ یہ جنسیت تخلیقِ انسانی کا باعث ہے۔ اس میں فطری لطافت و ذہنی تسکین کا سامان خدا نے رکھ دیا۔ ایک فطری ضرورت جس سے انسانی افزائشِ نسل ہوتی ہے اس پر خدا نے حیا کا پہرہ بٹھایا۔ یہ حیا مردوزن کے لیے بالکل ایک سی فرض ہے۔ یہاں مردوں کی آنکھوں پر بنے قدرت کے بے وزن فطری پردوں کی بے عملی کی قیمت عورت اپنے وجود پر غیر فطری دبیز پردوں کی صورت ادا کرتی ہے۔ اگر تو بھی کسی کی بیٹی سے یہ قیمت وصول کرنے والوں میں سے ہوا تو وقت کی قسم میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گا۔

بیٹے کبھی ذاتی عمل کی کھوٹ کی ڈھال اجتماعیت کو مت بنانا یہ بڑی بد نیتی ہوتی ہے اور خدا نیتوں پر فیصلے کرتا ہے۔ یہ پورا سماج بھی چاہے شر کی طرف ہو تو تجھے خیر کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہے۔ میں تجھے ہر طرح کے ازالے سے آزاد کرنے کی نیت کرتا ہوں مگر میرا ایک حق ہے تجھ پر اور وہ یہ کہ تیری وجہ سے کبھی کسی کی بیٹی کے دل میں خوف نہ آئے۔

میں چاہتا ہوں کہ تو صدیوں سے چلتی اس فرعونیت کے خلاف موسی بنے کہ تیری نسل کی ہراسانی سے دور ایک بااعتماد اور پروقار لڑکی تیری بیٹی کی ماں بن کر اس سے کہے سر اٹھا کے چل بیٹی اور تیرے بیٹے سے کہے میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اگر تیری وجہ سے کسی کی بیٹی کی آنکھوں میں وہ خوف اترا جو گلی کے کتوں کو دیکھ کر آتا ہے۔۔۔۔۔۔خدا تیرا محافظ ہو فیضان۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” تیرا باپ”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply