راہ آغاز:بچوں کے دوست۔۔محمد ذیشان بٹ

بچوں کی تربیت ہمیشہ سے ہی والدین کے لئے ایک بہت بڑا امتحان رہا ہے ۔آج کے مادہ پرستی کے دور میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے چکر میں ہم نے اپنے آپ کو اتنا الجھا لیا ہے کہ ہم اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے بھی غافل ہیں۔ بچوں کی جائز وناجائز خواہشات پوری کرنے کے لیے آہستہ آہستہ حلال اور حرام کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے اور امیدیہ رکھی جاتی  ہے کہ ہمارے بچے معاشرے کے اچھے مہذب شہری بن جائیں  ۔

یہاں ایک چھوٹا سا سوال ان والدین سے کہ جب آپ موٹر سائیکل یا گاڑی پر چھوٹے سے بچے کو بٹھا کر اشارے پر ایک منٹ کے لئے نہیں رک سکتے، کسی کی ایک گالی یا معمولی بدتمیزی کا جواب دس گنا بڑھا کر دیں گے۔ تو آپ کا بچہ قاسم علی شاہ کیسے بنے گا ۔؟

عام طور پر والدین اپنی گردن چھڑوانے کے لیے الزام بچے کے دوستوں پر ڈال دیتے ہیں ،یہ ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے اس کو خراب کیا ہے ،یہ تو پانچویں جماعت تک 90 فیصد نمبر لیتا تھا کسی سیانے نے صحیح کہا، خالہ جی یہ تو آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے نوے فیصد کہا ،ا ورآپ 110 فیصد بھی کہہ دیتیں  تو یہاں کون سا کوئی رزلٹ کارڈ دیکھ رہا ہے۔

اسی طرح سگریٹ نوشی، چھالیہ ،گٹکا، سنوکر تمام منفی سرگرمیاں اس کے دوستوں کی مہربانی ہے، میرا بیٹا تو اللہ تعالی کی گائے ہے، بہت ہی فرمانبردار ہے جو جدھر لگاتا ہے اس طرف لگ پڑتا ہے۔

چلو  بالفرض محال، ان سب باتوں کو مان بھی لیا جائے، تو والدین اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے، ان مسائل کا بہت ہی عملی حل ہمارے دوست اور بڑے بھائی ممتاز ماہر تعلیم جناب فیصل جنجوعہ صاحب جو کہ ایفا سکول لالہ موسیٰ کے پرنسپل ہیں ،نے دیا ،جو اس تحریر کی بنیادی وجہ بھی بنا کہ اگر دوست ہی انسان کو منزل دیتے ہیں اور بچہ دوستوں کی عادات کو اپناتا ہے تو آپ خود اپنے بچے کے دوست کیوں نہیں بن جاتے ؟

یہ ہے بھی بالکل فطرت کے قریب ہے  کہ  سب سے پہلے پچہ اپنے والدین کے ہی قریب ہوتا ہے ان کی لاپرواہی دوسروں کی طرف لے جاتی ہے۔ معاشرے میں عام دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ بچے زیادہ بگڑے ہوئے ہوتے ہیں جن کے  والدین میں ناچاکی ہو، یا دونوں ہی نوکری کرتے ہوں ،یا والد بیرون ملک ہو،یا چھوٹی عمر میں بچے کو ہاسٹل میں داخل کروادیا ہو ۔ بچے کی تربیت میں پہلے آٹھ سال بہت اہم ہوتے ہیں ۔ جو آپ اس کو بنانا چاہتے ہیں وہ بنا سکتے ہیں چاہے ڈاکٹر بنا لیں ، یا ڈاکو، یہ آپ   پر منحصر ہے۔

والدہ کا کردار زیادہ اہم ہے تحقیق سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ انسان کے اصول اکثر اس نے اپنے والدین سے ہی وراثت میں حاصل کیے ہوتے ہیں والدین سے بچوں کی دوستی کے لیے سب سے اہم ان کا اپنے بچوں کو وقت دینا ہے ان کی باتوں ،رائے اور خیالات کو سمجھنا ہوگا ۔ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور طریقے سے منانا ہو گا۔ بچوں کی دنیاوی اور دینی تعلیم میں دلچسپی لینی ہوگی ۔بچوں کو تخلیقی کام پر لگانا ہوگا۔ ان کے ساتھ کھیلنا انہیں جیتنا ہارنا پھر جیت یا ہار کے بعد محتاط ردِعمل دینا سکھانا ہوگا۔

اکثر معاشرے کے درمیانے طبقے کے والدین کو ہفتے میں ایک چھٹی ہوتی ہے اور وہ اسے اپنے دوستوں میں گزارنا چاہتے ہیں، تو پھر آپ کی طرف کی لاپروائی کے نتیجے میں  آپ کا بچہ بھی باہر دوست تلاش کرے گا اور جیسے کہ آپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں تو اس کو اس کے دوست خراب کرتے ہیں تو پھر یہاں آپ کو سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آپ کو اپنے بچے سے دوستی کرنی ہوگی الغرض آپ اپنے بچے کو کل جو بنانا چاہتے ہیں کہ وہ نمازی ہو، سچ بولے ،دھوکا نہ دے ،ایماندار ہو وہ آپ خود آج بن جائیں ، یقین مانیے آپ خود بھی اور آپ کی اولاد بھی اس معاشرے کا چلتا پھرتا صدقہ جاریہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک  بات تمام والدین کے لیے ۔اپنے بچے کے لئے اچھا مستقبل چھوڑ کے جانے سے بہتر ہے کہ آپ اس معاشرے کے لئے ایک اچھا انسان چھوڑ کر جائیں۔ ذرا نہیں مکمل غور و فکر کیجیے!

Facebook Comments

محمد ذیشان بٹ
I am M. Zeeshan butt Educationist from Rawalpindi writing is my passion Ii am a observe writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply