اعتراف جرم۔۔محمد اسلم خان کھچی

آل پارٹیز کانفرنس میں میں جناب محترم نواز شریف صاحب کی لائیو تقریر دکھائی گئی۔ پہلے تو میں موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دوں گا کہ انہوں نے ایک سزا یافتہ اشتہاری مجرم کو پاکستان کی سیاست پہ اپنے خوبصورت خیالات کے اظہار کا موقع دیا۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ تین مرتبہ کے وزیر اعظم کو اتنا موقع تو ضرور ملنا چاہیے کہ وہ اس قوم کو اپنے خوبصورت اقوال زریں  سنا سکے۔
جب بھی ن لیگ کی غلطیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت سے لوگ ناراض ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ ن لیگ عقل سے عاری جماعت ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پہ سوار ہو کے آئی اور ابھی تک انہی خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے کہ جنرل جیلانی صاحب قبر سے اُٹھ کے آئیں گے اور میاں نوازشریف صاحب کا سفر اقتدار دوبارہ شروع ہو جائے گا لیکن یہ بھی سب کو پتہ ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔

نواز شریف صاحب کی تقریر بڑی حیران کن تھی جس میں انہوں نے خود ہی اپنے تمام جرائم کا اعتراف کر لیا۔۔کہ پاکستان میں پہلے ہی فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ کس کی حکومت بنانی ہے۔

یہ ایک سنگین اعتراف جرم ہے جس میں نواز شریف صاحب ہمیشہ شریک جرم رہے۔
اس کا تو سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں ہمیشہ الیکشن کے نام پہ عوام سے فراڈ ہوتا رہا ہے۔

1988 سے لیکر 2013 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سازشوں سے اقتدار میں آتی رہی۔ اسی طرح عمران خان صاحب 2018 میں سازش سے اقتدار میں آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پہ آمریت مسلط رہی ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر تو پی ٹی آئی کی حکومت بھی جائز حکومت کے زمرے میں آتی ہے۔ اسے آپ ناجائز کیسے کہہ سکتے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا پہ نظر ڈالی جائے تو سپریم کورٹ کی سسلین مافیا والی کہانی سچ نظر آتی ہے کہ جب انکے مفادات کا ٹکراؤ ہو تا ہے تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
میاں شہباز شریف صاحب اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں۔
محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ باقائدہ عدالت سے سزایافتہ ہیں۔
امیر مقام ٹھیکیدار اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں اور ضمانت پہ ہیں۔
زرداری صاحب اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں۔
بلاول زرداری صاحب 4 سال کی عمر میں فیکٹریوں کے مالک بن گئے۔

مولانا صاحب پہ تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ کرسی اقتدار جانے سے باؤلے پن کا شکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پہ اس حکومت کو گھر بھیج دیا جائے لیکن کرپشن میں لتھڑی موجودہ اپوزیشن کی اخلاقی گراوٹ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ سوائے چند تقریروں کے کچھ نہیں ہو گا۔ آل پارٹیز کانفرنس ٹائیں ٹائیں فش ہوتی نظر آ رہی ہے۔

محترمہ مریم صاحبہ کا بیان کہ میاں صاحب کی تقریر نے سماں باندھ دیا۔ سن کے ہنسی کا دورہ پڑا کہ کونسا سماں۔۔؟

مجھے تو لگتا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہاتھ ہو گیا ہے۔ سپیچ رائٹر نے پیار پیار سے سب سچ اگلوا لیا ہے کہ ہم کیسے اقتدار میں آتے رہے ہیں ، کیسے سازشیں کرتے رہے ہیں ۔۔ آج تو میاں صاحب کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا کہ بدبودار نیب چیئرمین کا ہی سب کیا دھرا ہے۔

چیئرمین نیب کو کس نے لگایا۔۔۔ ؟
اور رہی کیسز کی بات تو جب پیپلز پارٹی کی حکومت آتی، وہ ن لیگ پہ کیس بنا دیتے اور جب ن لیگ کی حکومت آتی تو وہ پیپلز پارٹی پہ کیسز بنا دیتے۔۔۔ کیسز چلتے رہتے۔ مک مکا ہوتا اور باریاں لگتی رہتیں۔ یہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کبھی تیسری پارٹی بھی آ سکتی ہے اگر انہیں تھوڑا سا بھی اندازہ ہو جاتا کہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے تو یہ نیب کا  قصہ  تمام  کر کے جاتے۔

میاں شہباز شریف صاحب محترم بلاول بھٹو کو بغل میں بٹھا کے دھاڑ رہے تھے کہ پیٹ پھاڑ دوں گا۔ لاڑکانہ, لاہور اور کراچی کی گلیوں میں گھسیٹوں گا اور محترم بلاول صاحب تالیاں بجا رہے تھے۔

یار یہ کیسے لوگ ہیں۔ کیا ان کے سینوں میں   دل نہیں؟کیا انکے ضمیر نہیں ؟۔

ہمیں تو کوئی گھور کے بھی دیکھ لے تو  برسوں دشمنیاں نبھاتے ہیں لیکن یہ ایک طرف گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف گلے لگا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کبھی اس نعرے کو دفن کر دیتے ہیں۔ ابھی پچھلے سال محترمہ مریم بی بی جلسوں میں عمران زرداری بھائی بھائی کے نعرے لگا رہی تھیں۔ اب اچانک بلاول زرداری سے بھائی جیسی محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔

کیسے لوگ ہیں یہ ؟
کہاں سے آئے ہیں یہ لوگ۔۔۔؟
یقین نہیں آتا کہ کیا یہ پاکستانی ہیں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے ہیں۔۔۔ کیا کمال کے اداکار ہیں اور ہم بھی بہترین سامعین ہیں۔ انکی اداکاری دیکھ کے تالیاں بجاتے ہیں اور واہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہیں۔۔۔۔ کمال کے فلم رائٹر بھی ہیں۔ اتنی دلچسپ فلم ہوتی ہے کہ پانچ سال ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا اور ہم دم سادھے انکی اداکاری پہ عش عش کر اٹھتے ہیں۔
آل پارٹیز کانفرنس کا نتیجہ ملاحظہ کیجیے
شہباز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو ختم کر کے 1985 والی حالت پہ دوبارہ جانا چاہتا ہے۔
مریم بی بی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کے ڈراتی ہے لیکن وہ بھی اس نعرے کو دفن کر کے پرائم منسٹر بننا چاہتی ہے۔ یہ تو اللہ بھلا کرے حکومت کا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو باہر بھیج دیا ورنہ مریم بی بی اب تک میاں صاحب کو حوروں کے پاس بھیج چکی ہوتی کیونکہ اقتدار اتنی ظالم شئے ہے کہ مغلوں نے اپنے شیر خوار تک ذبح کرا دیئے تو نواز شریف کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا کے ہاتھ تو کسی بھی صورت میں کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ن لیگ پیپلز پارٹی کی سیاست اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے البتہ ش لیگ کا کوئی چانس لگتا ہے کہ شاید اگلے الیکشن میں اپر پنجاب کی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے،میاں صاحب نے جہاں اتنے سنگین جرائم قبول کیے،وہیں لگے ہاتھوں قوم سے اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگ لیتے تو شاید قوم انہیں معاف کر دیتی۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ میاں صاحب  مکمل لوزر رہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے ایک نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھتے اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کھیل سے نکال دیتے لیکن وہ ڈرا دھمکا کے دوبارہ وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں ۔
لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ پاکستان بدل رہا ہے اسٹبلشمنٹ بدل رہی ہے، ملک کو  ترقی کی را ہ پر  گامزن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لئے مجھے نہیں لگتا کہ یہ جرائم پیشہ عناصر دوبارہ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا   کر سکیں گے۔
آئندہ آنے والے سیشن میں ہی آل پارٹیز کانفرنس بکھر جائے گی اور ایک خاموشی سی چھا جائے گی ۔۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply