افغانستان لہو لہو۔۔گوتم حیات

افغانیوں کے قتلِ عام میں وہ کرائے کے مجاہدین بھی شامل تھے اور ہیں جو دوسروں کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح ایک طویل عرصے سے چل رہے ہیں اور اتفاق سے وہ پیدائشی اور نسلی طور پر افغان تھے اور ہیں۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی ان کی یہ شناخت نہیں چھین سکتا۔

ہم کیسے فراموش کر دیں وہ شب و روز جب یہ دہشت گرد ہماری بستیوں کو تاراج کرنے کے لیے مذہب کی من پسند تشریح کے ساتھ مسلط  کر دیے گئے تھے۔ انہوں نے معصوم لوگوں پر کیا کیا ستم نہیں ڈھائے، عورتوں   مردوں پر کوڑے برسانا، داڑھی کا سائز ناپنا، عورتوں کے سروں پر پردے کے نام پر گُھٹن زدہ چادروں کا انبار، خودکش بمباروں کے ذریعے جگہ جگہ دھماکے کروانا، موسیقی اور ہر اس چیز سے نفرت کا اظہار کرنا جو انسانوں کو خوشیاں فراہم کر سکے۔ بدقسمتی سے یہ سب کئی دھائیوں سے افغانستان میں ہو رہا ہے اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بھی ہو رہا ہے، جو جغرافیائی طور پر پاکستان کی حدود میں آتے ہیں۔ یعنی یہ سفاک خونی کھیل ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کھیلا جا رہا ہے۔

ہم لاکھ کہیں کہ وہ غیر ہیں، ان کا اسلام اور افغانستان کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں ،لیکن یہ سب محض ہماری خام خیالیاں ہیں، حقیقتاً وہ افغان ہی ہیں اور اتفاق سے مسلمان بھی، ان کی پرورش میں وہ مائیں اور باپ بھی برابر کے قصوروار ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو اس جنگ کا ایندھن بننے کے لیے یرغمالی طاقتوں  کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔

اگر جان کی امان پاؤں تو عرض ہے:
یہ قبائلی جنگجو تقسیم سے قبل اور اس کے بعد بھی کرائے کے قاتل ہی کے روپ میں بارہا ہمارے سامنے آتے رہے ہیں۔ تقسیم سے قبل کا المناک سانحہ “تھوہا خالصہ” تو یاد ہی ہو گا آپ کو اور پھر تقسیم کے فوراً بعد ان ہی قبائلیوں نے کشمیر میں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا اس پر ہندوستان و پاکستان کے بہت سے معتبر لکھاری لکھ چکے ہیں۔ ان قاتلوں نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے چل کر کچھ دھائیوں بعد باقاعدہ مذہب کا سہارا بھی لیا اور جہاد کے نام پر ایک ایسے کھیل کو اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی ہی قومیت کے معصوم لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔۔۔ شاید انہیں انسانی خون سے کھیلنے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ جب ان کے مدمقابل کوئی دوسری قوم، قبیلہ اور مذہب نہ رہا تو پھر انہوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔

آئے روز کابل و قندھار اور دوسرے شہروں میں ان ہی وحشیوں نے دھماکے کروائے، کابل اور دوسرے علاقوں کے بعد سوات میں بھی شریعت کا اعلان کیا۔ اپنی ہی قوم کو فکری طور پر ایسا اپاہج کیا کہ جس کی مثال تاریخ میں شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔

افغانستان کے اکثریتی علاقوں میں ابھی بھی عورتیں تنہا بازاروں تک نہیں جا سکتیں۔ انہیں شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت 87 فیصد افغان عورتیں ہر روز گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہیں۔ آسان الفاظ میں ان عورتوں کے لیے ان کے گھر بھی جہنم بنا دیے گئے ہیں اور بازاروں میں تو پہلے سے ہی درندوں کا قبضہ ہے۔ اتفاق سے یہ سب کے سب افغانستان کے ہی کلمہ گو باشندے ہیں۔ قتل ہونے والے بھی افغان اور قتل کرنے والے بھی افغان۔

گزشتہ سال افغانستان کی مشہور گلوکارہ آریانا سیّد نے “لعنت” کے عنوان سے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک میوزک ویڈیو ریلیز کی تھی جس میں انہوں  نے اُن تمام طاقتوں کو للکارا تھا، جو افغانستان میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، بنیادی طور پر یہ میوزک ویڈیو بہت ہی موئثر انداز میں افغان عورتوں کی مخدوش صورتحال کو بیان کرتی ہے لیکن اس کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ اس میں ہم افغانستان کی ایک مکمل جھلک ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

افغانستان کے یہ حالات کب بدلیں گے۔۔۔؟
کیا گزشتہ دھائیوں کی طرح آنے والی دھائیاں بھی ہمارے لیے یہی بربریت اور قتلِ عام لے کر آئیں گی؟
کیا امریکی فوجیوں کی افغانستان سے رخصتی کے بعد امن کا زمانہ آئے گا یا ایک اور تاریک دور کا آغاز ہو گا۔۔۔؟ ان ہی سوالات پر ہماری ایک معتبر لکھاری “زاہدہ حنا” نے اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم “امریکی فوج کی رخصتی” میں افغانستان میں جاری قتل وغارت گری کی اسّی سال کی ہولناک تاریخ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے شاہ امان اللّہ اور ملکہ ثریّا سے لے کر ڈاکٹر نجیب کے قتل اور پھر بعد کے برسوں کو نہایت ہی خوبی سے رقم کیا ہے۔ میں یہاں پر ان کے کالم کا آخری اقتباس نقل کر رہا ہوں۔ اس ایک اقتباس سے ہم افغان خواتین کے اُن مسائل کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو وہ اس وقت جھیل رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میڈم زاہدہ حنا لکھتی ہیں کہ
“ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی سرزمین سے غیر ملکی فوجوں کے نکل جانے پر خوشیاں منائیں یا اپنے اور اپنی بہنوں، بیٹیوں کے مستقبل کے لیے دعائیں کریں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں بہت خوش تھی کہ ہمارے اچھے دن آرہے ہیں لیکن اب میں نے تمام خوابوں کو گہری قبروں میں سلادیا ہے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply