چودھویں پارے کا خلاصہ

اس پارہ میں سورة الحجر اور سورة النحل ہیں، اور دونوں مکی سورتیں ہیں۔
*سورة الحجر*
اس کا آغاز قرآن مجید کے ذکر سے ہوتا ہے کہ اس کی آیات نہایت روشن اور واضح ہیں۔ پھر قیامت کا ذکر ہے کہ عنقریب وہ دن آئے گا۔ کافر اس دن اپنے مسلمان نا ہونے پر حسرت کریں گے۔ لہذا ان کو ان کے حال میں مگن رہنے دو۔ ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوتا۔
پھر کفار کے نبی پر بعض اعتراضات کا ذکر کیا کہ آپ فرشتوں کو کیوں نہیں لاتے، اور آپ نعوذ باللہ مجنوں ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے یہ کتاب نازل کی اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
نبی کریم کو تسلی دی گئی کہ ہر قوم نے اپنے نبی کا ایسے ہی مذاق اڑایا۔ ان کو کوئی بھی نشانی دکھا دی جائے یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ حتی کہ اگر آسمان میں بھی چڑھا دیا جائے تواس کو بھی جادو کہیں گے۔
پھر فرمایا کہ اللہ نے آسمان، زمین، ھوا، بارش وغیرہ انسانوں کے لیے پیدا کیے، وہ پیدا کرنے اور مارنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔ اس کی نظر سے کچھ چھپا ہوا نہیں۔
پھر تخلیق آدم، فرشتوں کو سجدے کا حکم اور ابلیس کے انکار و تکبر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شیطان نے اللہ تعالی سے قیامت تک انسانوں کو بہکانے کی مہلت لی ہوئی ہے، وہ ملعون ہے، لہذا جو اس کے دام میں آئے گا اس کے ساتھ جہنم میں جائے گا۔ البتہ متقین کے لیے جنت ہے جہاں وہ ہمیشہ امن و سلامتی سے رہیں گے، ان کے سینے نفرتوں سے پاک کر دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اللہ غفور و رحیم تو ہے، لیکن اس کا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔
پھر سیدنا ابراہیم کے گھر فرشتوں کی آمد اور ان کو بڑھاپے میں اولاد کی خوشخبری دینے کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ان فرشتوں کا قوم لوط کی طرف جانے کا ذکر ہے۔ فرشتے نوجوان لڑکوں کے روپ میں لوط علیہ السلام کے پاس گئے۔ ان کی قوم فرشتوں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے لگی۔ سیدنا لوط کو پریشان دیکھ کر فرشتوں نے بتایا کہ ہم اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں۔ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان کی بے حیائی کے سبب ان پر پتھروں کی بارش کی گئی، زمین کا اوپر کا حصہ نیچے کردیا گیا۔
پھر اختصار کے ساتھ قوم شعیب اور ثمود کا ذکر آیا جو رسولوں کی تکذیب کے جرم میں سخت عذاب کا شکار ہوئے۔
اس کے بعد نبی کریم کو مخاطب کرکے درگزر کی تلقین کی۔ نیز فرمایا کہ قیامت ضرور آئے گی، یہ دنیا کھیل تماشا نہیں۔
آپ ہدایت کی کہ آپ کو سورہ فاتحہ اور قرآن مجید جیسی عظیم نعمت سے نوازا گیا ہے، لہذا جو دنیاوی متاع ان کو دیا گیا اس طرف نظر کریں اور نا ہی ان کے سلوک سے غمگین نہ ہوں۔ مسلمانوں سے نرمی برتیں، اور اعلانیہ دعوت دین پہنچائیں۔ پھر تسلی دی کہ ان مذاق اڑانے والوں سے نمٹنے کے لیے اللہ کافی ہے۔ نیز تسلی دی کہ ہم جانتے ہیں ان کی باتیں آپ کو غمگین کرتی ہیں۔ غم سے نمٹنے کے لئےرب کا ذکر،نماز اور آخری وقت تک عبادت سے کام لین۔ گویا یہ تین چیزیں بتا دیں کہ جو بھی غم کا شکار ہو وہ یہ نسخہ اپنا لے۔
*سورة النحل:*
اس سورت کی ابتدا کفار کو مخاطب کرکے ان کو عذاب اللہ کی آمد سے ڈرانے سے کی گئی، کہا گیا کہ اس کی جلدی نہ کرو یہ آہی گیا ہے، یعنی اس کا آنا یقینی ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں، وہ جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرما کر انسانوں کو خبردار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی نے زمین، آسمان، انسان اور مویشی پیدا کیے جن میں انسانوں کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اللہ ہی نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے پھل اور سبزہ اگایا۔ نیز دن، رات، سورج، چاند ستارے، سمندر، پہاڑ سب کچھ انسان کے فائدے کے لئے پیدا کیا۔ اور اسی لئے اس کو انسان کے لئے مسخر کردیا۔ تو کیا پیدا کرنے والا اور عاجز برابر ہوسکتے ہیں؟!
اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں، گنی بھی نہیں جاسکتیں، وہی اکیلا عبادت کا حقدار ہے، ظاہر و باطن سب جانتا ہے، وہ متکبرین کو پسند نہیں کرتا۔ متکبرین کی صفت یہ بتائی کہ وہ قرآن کو پچھلوں کا افسانہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے ساتھ ساتھ ان کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو انھوں نے گمراہ کیا۔
ان سے پچھلوں کو بھی اللہ نے ان کے جرائم کی پاداش میں ھلاک کیا، ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ البتہ متقین جو قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور اس کو خیر کا سر چشمہ مانتے ہیں ان کے لیے آخرت میں جنت ہے۔ جہاں فرشتے انھیں سلام پیش کریں گے۔
اللہ نے ہر امت میں اپنا رسول اپنی عبادت کے پیغام کے ساتھ بھیجا، طاغوت کی پیروی سے بچنے کی ہدایت کی۔ کچھ ہدایت یافتہ ہوئے اور کچھ گمراہ۔ لہذا زمین میں پھر کر ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
پھر کفار کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا اللہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، یہ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ اللہ نے جس طرح پہلے نبی بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں، اسی طرح یہ قرآن بھی نازل کیا، لہذا اس میں غور و فکر کریں۔
پھر بتایا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کے آگے سر بسجود ہے، اس کی اطاعت کرتا ہے، لہذا انسان کو بھی چاہئیے کہ ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کرے اور اسی سے ڈرے۔
اس کے بعد مشرکین کے بعض باطل تصورات کا ذکر کیا کہ یہ اللہ کی بیٹیاں بناتے ہیں اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوجائے تو وہ شرم کے مارے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ جو چیز اپنے لیے پسند نہیں اس کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، ان کے لیے بس جہنم ہی ہے۔
پھر اللہ نے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی جن میں بارش، چوپائے، کھجور و انگور وغیرہ ہیں۔ نیز شہد کی مکھی کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ پھر مزید نعمتوں کا بیان آیا کہ اللہ نے ہی پیدا کیا، رزق دیا، بیوی بچے دیے، پاکیزہ کھانا عطا کیا، آنکھیں کان اور دل دیے تاکہ شکر کیا جائے، رہنے کے لیے گھر اور پہننے کے لیے لباس دیا۔ پھر بھی انسان اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتا ہے جس کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ پھر مثالوں کے ذریعے واضح کیا کہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا ہی کامیاب ہے۔ پرندوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔
کہا کہ یہ کافر اللہ کی نعمت کو پہچان کر انکار کرتے ہیں۔ پھر نبی کو تسلی دی کہ آپ کی ذمہ داری حق پہنچانا ہے، اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اللہ نے ہر امت میں نبی بھیجے جو روز قیامت اپنی امتوں پر گواہ بنیں گے اسی طرح آپ بھی اپنی امت پر گواہ بنیں گے۔
یہ بھی بتایا کہ اللہ تو عدل و احسان کا اور رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیتے ہیں، بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتے ہیں، نیز عہد کو پورا کرنے کا حکم بھی دیا۔ خبردار کیا کہ اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچو، جو انسان کے پاس ہے سب فانی ہے، لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔ جو مومن نیک عمل کرے گا اس کے لیے دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی ہے اور آخرت میں بھی بہترین اجر ہے۔ پھر قرآن کی حقانیت کا ذکر کیا کہ یہ قرآن روح القدس آپ کے رب کے پاس سے لاتے ہیں، کوئی بندہ بشر آپ کو نہیں سکھاتا۔
پھر ایک بستی کی تمثیل بیان کی جس کے کفر کے بدلے اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اس سے مقصود یہ تنبیہ تھی کہ اگر باز نہ آئے تو تمھارا انجام بھی یہی ہوگا۔ اس کے بعد واضح کیا کہ اللہ نے مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام کیا ہے۔ اپنی طرف سے چیزوں کو حلال حرام قرار دینا سخت گناہ ہے۔ یہ اختیار صرف اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ لہذا اس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ البتہ جو غلطی کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے اس کے لیے اللہ غفور و رحیم ہے۔
پھر فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے فرمانبردار، موحد اور شکرگزار بندے تھے، ان کے طریقے کی پیروی کرو۔ یہ بھی حکم دیا کہ اللہ کے دین کی طرف حکمت اور اچھے طریقے سے بلانا چاہیے۔ اگر بدلہ لینا ہو تو اتنا ہی لو جتنا ظلم کیا گیا ہو، البتہ صبر کرنا زیادہ بہتر ہے۔
آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کی گئی اور کہا گیا کہ آپ ان کفار کے لیے غمگین نہ ہوں اور ان کے افعال سے اداس نہ ہوں۔ اللہ تعالی متقین و محسنین کے ساتھ ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply