• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان پُر امن ہے تو افغانی کیوں روتے ہیں ؟-حیدر جاوید سیّد

افغانستان پُر امن ہے تو افغانی کیوں روتے ہیں ؟-حیدر جاوید سیّد

افغانستان سے امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان اسٹوڈنٹ کابل پر کیسے قابض ہوئے، کس نے انہیں دوحا معاہدے کے برعکس قبضہ گیری کے لئے امداد فراہم کی یہ ساری باتیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے دائیں بازو کے دانشور، صحافی، معروف و غیرمعروف علماء اور سوشل میڈیا مجاہدین ہمیں بتارہے تھے کہ افغانستان میں امن و امان ہے۔ قانون کی بالادستی ہے۔ ڈالر کی قیمت پاکستان کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ پاکستانی روپیہ کابل میں ٹکے ٹوکری ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ نیک و صالح حکومت کی وجہ سے قدرتی وسائل (پٹرولیم) دستیاب ہورہے ہیں۔ ایک افغان ورکشاپ والے نے جدید طرز کی نئی گاڑی ایجاد کرکے ترقی یافتہ دنیا کے کارساز کارخانوں کے مالکان کو حیران بلکہ پریشان کردیا۔

عالمی موٹر کاخانوں کے مالکان اس مستری کے پیچھے شہریت اور ڈالرز لے کر پھر رہے ہیں لیکن وہ کہتا ہے میری ایجاد سے میرا وطن افغانستان ہی فائدہ اٹھائے یہی میری تمنا ہے۔

طالبان کی آمد کے بعد ترقی کے نئے دور میں داخل ہونے والے افغانستان میں تعمیر و ترقی انصاف، امن، اخوت، ایثار وغیرہ کی جو کہانیاں پاکستانی ہمدردوں نے منبروں سے سوشل میڈیا تک کے ذریعے پھیلائیں اس پر یقین کرنے والے ہمارے یہاں کروڑوں ہیں لیکن اسی عرصے میں (حالیہ عرصہ) تقریباً 8 لاکھ افغان شہری اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں داخل ہوئے۔

پاکستان نے ابتداً 5 لاکھ افغانوں کو پناہ دینے کا اعلان کیا پھر اقوام متحدہ امریکہ اور یورپی ممالک کے کہنے پر 6 لاکھ کو پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کردی لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 6 کی بجائے 8 سے 9 لاکھ افغان پاکستان وارد ہوئے۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔

برطانیہ نے صرف 783 افغان خاندانوں کی فہرست پاکستان کو دی جنہیں اس وقت تک پاکستان میں رکھنا ہے جب تک برطانیہ میں ان کی رہائش کا انتظام نہیں ہوجاتا ان میں سے 214 خاندانوں کے برطانیہ چلے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے بھی چند صد یا چند ہزار افغان شہریوں کی ایک فہرست پاکستانی دفتر خارجہ کو دی ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 9/11کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج کے ساتھ معاونین اور ترجمانوں کے طور پر کام کیا یا مقامی نوعیت کی دوسری خدمات سرانجام دیتے رہے۔

برطانیہ اور امریکہ کی فہرستوں کے حساب سے یہ تعداد چند ہزار بنتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جب امریکہ اور برطانیہ اپنے ہاں لے جانا ہی چند ہزار افغانوں کو چاہتے ہیں تو پاکستان پر یہ دبائو کیوں ڈالا گیا کہ کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد 6 لاکھ افغان شہریوں کو پاکستان پناہ دے؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ جن افغان شہریوں کو امریکہ برطانیہ اور دوسرے اتحادی ممالک نے پناہ دینی ہے ان کے قانونی معاملات طے کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی۔

کم از کم مجھے ایسے لگتا ہے کہ 6 لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان میں پناہ دینے کے لئے اقوام متحدہ سے دبائو ڈلوانے والے ممالک کابل پر طالبان کے قبضے کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔

یہاں باردیگر ساعت بھر کے لئے رکئے۔ افغانستان سے امریکہ و اتحادیوں (نیٹو) انخلا کے لئے امریکہ اور طالبان کے درمیان جو دوحا معاہدہ ہوا تھا اس معاہدہ کے مطابق مختلف الخیال افغان گروپوں کی ایک عبوری حکومت کم سے کم ایک سال کے لئے بننا تھی اسی عرصے میں عبوری حکومت ملک کا آئین بناتی بعدازاں انتخابات ہوتے انتخابات سے قبل افغان طالبان خود کو ایک سیاسی جماعت میں ڈھالتے اور انتخابات میں حصہ لیتے تاکہ افغان عوام ووٹوں کے ذریعے مستقبل کی قیادت کا انتخاب کرتے یہ نہیں ہوا بلکہ ہوا یہ کہ اچانک طالبان قندھار سے نکلے اس وقت کے افغان آرمی چیف نے (جسے اشرف غنی نے بر طرف کردیا) تحریری طور پر علاقائی کمانڈروں کو حکم دیا کہ طالبان سے لڑائی مول لینے کی بجائے انہیں آگے بڑھنے کے لئے محفوظ راستہ دیا جائے۔

اشرف غنی (اس وقت کے افغان صدر) نے الزام لگایا طالبان کو محفوظ راستہ دلوانے کی سازش کے پیچھے پاکستان ہے جو طالبان کو کابل کا قبضہ دلانا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اس کی تردید کی لیکن دنیا نے اس تردید پر یقین نہیں کیا، کیوں؟ سادہ سی وجہ ہے دنیا اندھی نہیں تھی افغانستان میں جو ہورہا تھا سب دیکھ رہے تھے۔

امریکی انخلا اور طالبان کی فتوحاتِ مسلسل کے ان دنوں میں افغان صورتحال پر میں نے 20 اقساط میں تفصیل کے ساتھ زمینی حقائق پڑھنے والوں کے سامنے رکھے۔ تب مجھ سے کہا گیا کہ “پوری ریاست، ذرائع ابلاغ اور اجتماعی دانش کے برعکس افغان منظرنامہ لکھنے سے تمہیں کیا ملے گا؟” عرض کیا اپنے حصہ کا فرض ادا کرکے روح کی سرشاری ملے گی۔ آنے والے دن آپ کی پالیسی کے کجوں کا جو انعام دیں گے وہ سب بھگتیں گے۔

مزید وضاحت کے ساتھ عرض کردوں اس وقت ہماری سول و عسکری قیادت کے سر پر خطے کا چودھری بننے کا بھوت سوار تھا۔ افغانستان میں بدلتے حالات اور بدلتی حکومتوں میں پاکستان کے لئے جو نفرت تھی وہ طالبان کے قبضے کے بعد بھی کم نہ ہوئی بلکہ افغان طالبان نے پاکستانی ٹی ٹی پی سمیت دوسری تمام پاکستان بیس مسلح تنظیموں کی سرپرستی شروع کردی۔

تعاون و سرپرستی کا یہ مرحلہ اصل میں ان تمام تنظیموں کا افغان طالبان کی امریکہ و نیٹو کے خلاف جدوجہد میں طالبان کے ساتھ شرکت کی بدولت ہی نہیں تھا بلکہ افغان طالبان کے ایک مرحوم امیر ملا منصور اور ٹی ٹی پی و دیگر پاکستانی تنظیموں کے درمیان 2016ء میں طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں افغان طالبان اقتدار ملنے کی صورت میں شرعی طور پر اس امر کے پابند تھے کہ وہ اپنے جہادی اتحادیوں کی نظام اسلام کے قیام کی جدوجہد میں ان سے عملی تعاون کریں۔

آپ پچھلے دو برسوں کے دوران افغان حدود سے ہونے والی دراندازیوں میں افغان طالبان کے علاقائی ذمہ داران کے کردار کو دیکھ لیجئے انہوں نے سرحد پر لگی باڑ کاٹنے سے لے کر دوسرے تمام امور میں ان جنگجوئوں سے تعاون کیا۔

یہی نہیں بلکہ ان گروپوں کو افغان اسلحہ منڈیوں سے امریکہ و نیٹو کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ و گولہ بارود اور دیگر معاون جنگی اشیا خریدنے کی سہولت دی۔

بہت ادب کے ساتھ پڑھنے والوں سے معذرت کہ بات اصل موضوع سے ہٹ کر چند حوالہ جات کی طرف نکل گئی لیکن یہ حوالہ جات بھی ازبس ضروری تھے۔ انہیں پھر سے ان سطور میں عرض کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جب بقول دیوبندی مکتب فکرکے علماء اہل دانش، عسکری نابغوں اور دیگر کے افغانستان اس وقت کرہ ارض کا مثالی ملک ہے تو پھر پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے علاوہ غیرقانونی طور پر مقیم سولہ سترہ لاکھ افغان شہری اپنے ترقی پذیر، انصاف اور امن والے افغانستان واپس جانے سے کیوں کتراتے ہیں اور انہیں واپس بھجوانے پر ان کے پاکستانی ہم خیال سیخ پا کیوں ہیں؟

افغان انقلاب ثورکے خلاف اسلامی مزاحمت خود افغانستان کے اندر سے اٹھی تھی۔ ہماری دانست میں یہ مزاحمت امریکہ کی پشت بانی میں اٹھوائی گئی تب سعودی عرب و کویت اور دیگر خلیجی ریاستوں وغیرہ نے ریالوں اور ڈالروں کے انبار لگادیئے۔ پاکستان کو اس جہاد کا بیس کیمپ بنایا گیا اس وقت پاکستان پر ایک غیرقانونی فوجی حکومت امریکی تعاون سے مسلط تھی۔ سوویت یونین کے خلاف نام نہاد اسلامی جہاد میں پاکستان کے ہزاروں لوگ کھیت ہوئے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی امریکہ نواز افغان پالیسی پر جنرل ضیاء کے دور اور بعد میں ہمارے ہاں کڑی تنقید کی جاتی رہی۔ بہرطور اصل مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ علماء و صحافیوں، دانشوروں اور سوشل میڈیا مجاہدین کے بقول افغانستان میں انصاف کا دوردورہ ہے، امن ہی امن ہے، ایجادات ہورہی ہیں، قدرتی وسائل دریافت ہورہے ہیں، مہنگائی پاکستان سے کم ہے، پاکستانی روپیہ کابل میں ٹکے ٹوکری ہے، ڈالر کی قیمت پاکستان سے کم ہے یہ ساری باتیں درست ہیں تو کم از کم ان سولہ سترہ لاکھ غیرقانونی افغان باشندوں کو واپس اپنے وطن جانا چاہیے اور بھجوانے پر سیخ پا ہونے کا تاثر دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات افغان طالبان کی مثالی حکومت کے گیت گاتے پاکستانی ہم خیال بھی رونا دھونا بند کریں انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ بے سروسامانی کے عالم میں رہنے والے اپنے وطن میں اپنے گھروں میں عزت کے ساتھ جابسیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply