• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آتے جاتے موسم بھی اب محبت سے خالی ہورہے ہیں۔۔۔اسد مفتی

آتے جاتے موسم بھی اب محبت سے خالی ہورہے ہیں۔۔۔اسد مفتی

ہالینڈ کے سائنسدانوں نے وارننگ دی ہے کہ دنیا بھر کو بے ہنگم ماحولیاتی  آب و ہوا کی تبدیلیوں کے خطرے کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلیوں کا عمل ماہرین کے اندازوں سے بھی زیادہ تیزی سے جاری ہے۔
عالمی سطح پر سمندروں کے درجہ حرارت ،پانی کی سطح کی بلندی،آب و ہوا کی شدید تبدیلیوں اور برف پگھلنے کے عمل میں تیزی جیسے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا عمل دو سال قبل لگائے گئے اندازوں اور اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔بارشوں اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے قبل از وقت برف پگھلنے کے باعث مغربی یورپ کے کئی دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوگئی ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سطح سمندر میں لگ بھگ چار میڑ اضافہ کردے گا۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ماحولیات پر ایک ہزار سال تک اثرات ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔اور 2999 تک مغربی انٹارٹیکا میں برف کی چادر تباہ کن طور پر پھٹنے کا خطرہ ہے۔جرمنی میں دریا موزل/موصل کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اس کے کنارے آباد کئی چھوٹی موٹی آبادیاں زیرِ آب آچکی ہیں ۔
ماہرین کے مطابق سطح زمین کا مجموعی درجہ حرارت اس صدی کے اختتام تک لگ بھگ 4 سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گااور اس کی ایک اہم وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو سب سے بڑی گرین ہاؤس گیس ہے اور تیزی سے فضا میں بڑھ رہی ہے،اور ان سب آفتوں کے نتیجے میں نا صرف طوفان کی شدت میں اضافہ ہوگا بلکہ کرہ ارض پر حرارت چار گنا زیادہ ہوجائے گی۔۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات 95 فیصد تک درست ہے کہ سطح زمین پر حدت میں اضافے کی وجہ قدرتی تغیرات کی بجائے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہونے والی گرین ہاؤسسز گیس ہے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا میں تباہ کن طوفانوں کا سبب بن رہا ہے،اور سیلابوں ،دریاؤں اور سمندری طوفانوں و خشک سالی کے نتیجے میں کروڑوں افراد بے گھر ہوجائیں گے،اور یہ کرہ ارض ایک ایسا حیاتی تغیر اور خاتمہ دیکھے گا جو اس نے 65 ملین سال قبل اس وقت دیکھا تھا جب اس دھرتی سے ڈائنا ساروں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
ماہرین نے بتایا ہے کہ آئندہ عشروں کے دوران ماحولیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے جنوبی حصے کے 5 کروڑ انسانوں کو شمالی حصوں کی طرف ہجرت پر  مجبور کردیں گی۔
اس بڑے پیمانے پر ہجرت کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور ان کے نتیجہ میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی غذائی قلت ہوگی۔اس وقت افریقی ممالک سے لوگوں کی بڑی تعداد غذائی عدم تحفظ کے باعث مغربی یورپ کا رخ کررہی ہے۔
ہالینڈ کے ماہرین کا خیال ہے  کہ اگر نقصاندہ گیسوں کے اخراج پر بھی کسی نہ کسی طرح قابو پالیا جائے تو بھی دنیا کی قدرتی آفات کا امکان کم نہیں ہوگا کہ جنگلی حیات کی نصف سے زیادہ پناہ گاہیں اور اہم جنگلات تباہ ہونے سے چالیس کروڑ لوگ بھوک سے دوچار ہوجائیں گے کہ کرہ ارض کے شمالی حصے میں درجہ حرارت میں جتنا اضافہ ہوا ہے گزشتہ پندرہ سو برس میں نہیں ہوا تھا ۔جنگلی حیات کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ ہاتھی،شیر اور گینڈے کو شکاریوں سے زیادہ بدلتے موسم سے خطرہ ہے،عالمی حدت سے اضافہ اور تیزی سے ختم ہوتے جنگلات سے جانوروں کی کئی نسلیں ختم ہوسکتی ہیں ،جنگلی حیات کے ماہر ڈاکٹر رچرڈ لیکی جو کینیا میں وائلڈ لائف سروس کے سابق ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ جانوروں کو محفوظ کرنے کے لیے آئندہ پانچ برسوں میں کچھ نا کچھ کرنا ہوگا ،ورنہ اسی عالمی حدت کے نتیجے میں پرندوں ،ممالیہ،رینگنے والے جانوروں اور ابابیلوں کی نسلیں ختم ہوجائیں گی،انہوں نے کہا ہے کہ جنگلات کے خاتمے اور آبادی کے پھیلاؤ کے باعث جانوروں کے لیے نقل مکانی کے امکانات بھی کم ہوچکے ہیں ،
یادرہے یا یاد رکھا جائے کہ جن علاقوں  میں جنگلات کی بدترین آتشزدگی کی پیشنگوئی کی گئی ہے ان میں یوریشیا ،چین،روس،کینیڈا اور ایمزون شامل ہے۔دوسری جانب مختلف وجوہات کی بنا پر مغربی افریقہ ،جنوبی یورپ اور امریکہ کی مشرقی ریاستوں میں خشک سالی کا خدشہ ہے ،علاوہ ازیں افریقہ کے علاقے جو خشک سالی کا شکار ہیں وہ آئندہ برسوں میں مزید خشک اور گرم ہوجائیں گے ۔یہاں یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پانی زندگی کے لیے لازمی ہے اور اسکی مقدار میں کمی افریقہ پر تباہ کن اثرات ڈالے کی ۔ جہاں زیادہ آبادی دریاؤں کے پانی پر انحصار کرتی ہے کہ درجہ حرارت میں تبدیلی کے لیے کارخانوں ،گاڑیوں ،گھروں،جہازوں اور فیکٹریوں میں جلنے والے ایندھن سے خارج ہونے والی  کاربن ڈائی آکسائیڈ اہم رول ادا کرتی ہے اس لیے اس کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے،اس زہریلی گیس کا سب سے زیادہ اخراج سعودی  عرب اور سب سے کم سویڈن میں ہے۔سویڈن گرین ہاوسز گیسوں  سے  نمٹنے  کے لیے اقدامات سب سے زیادہ کیے گئے ہیں جس کے باعث وہ دنیا کا شفاف ترین آب و ہوا رکھنے والا ملک ہے،جبکہ صفائی نصف ایمان ہے کا اصول رکھنے والا سعودی عرب جس کی آب و ہوا دنیا میں سب سے زیادہ کثیف اور آلودہ ہے،یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پرفارمنس انڈکس کی رپورٹ ہے،
اسی طرح ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس 2018 دنیا بھر میں 950 قدرتی آفات ریکارڈ کی گئیں ،اس طرح گزشتہ سال 1980 سے لے کر اب تک کا بدترین سال ثابت ہوا ،اسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والے قدرتی آفات سے 2016 کے دوران 235 بلین کا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان 2009 کے مقابلے میں  تین گنا زیادہ ہے۔
آخر یہ  آپ سے گزارش ہے کہ مجھے”نقاد”مت سمجھیں ،میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ عالمی ماحولیات اور آب و ہوا میں حقیقی تبدیلی اور سنگین حالات واقع ہوچکے ہیں ،اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس میں ہونے والے اضافے کو ابھی تک روک نہیں سکے ،ایسا کیونکر ہوا؟
میں بھی سوچتا ہوں ،آپ بھی سوچیئے۔
چلتے چلتے اس موضوع پر میرا ایک شعرحاضرِ خدمت ہے
زمیں کو میں نے بچھایا بڑے سلیقے سے
اب اس کے ساتھ سمٹنا مجھے قبول نہیں!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply