بدلتے طالبان اور پاکستان۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

افغانستان پاکستان کے لیے ہمیشہ سے ایک مشکل ملک رہا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ ہم متاثر ہوتے ہیں۔ آج بھی چار ملین افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسندی سے لے کر منشیات کا سیلاب افغانستان کی ہی دین ہے۔ افغان جہاد نے ہمارے ترقی کرتے معاشرے کی جڑیں کاٹ دیں اور اسے انتہاء پسندی کی پٹڑی پر چڑھا دیا۔ ہم مفت میں افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت دیتے ہیں اور وہ مال جو ٹیکس فری افغانستان بھجوایا جاتا ہے، وہ بارڈر کے اس پار پہنچتے اور بعض اوقات درمیان سے ہی پاکستانی مارکیٹ میں آجاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ پاکستان کی مقامی مارکیٹس اس ٹیکس چوری کے سامان سے بھر جاتی ہیں، جس سے اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہو جاتا ہے۔ ہماری گندم سے لے کر یوریا تک ہر چیز افغانستان سمگل کر دی جاتی ہے۔ افغانستان پاکستان کا واحد ہمسایہ ہے، جو ہماری اپنی سرزمین پر دہشتگردی اور سمگلنگ کو روکنے کے لیے لگائی جانے والی باڑ کی مخالفت کرتا ہے بلکہ اسے روکنے کے لیے تشدد کا راستہ اپناتا ہے۔ اسی طرح افغانستان کی طرف سے ہمیں سفارتی مقابلہ بازی کا سامنا بھی رہتا ہے۔

پاکستان نے طالبان کی پہلی حکومت کو ناصرف تسلیم کیا تھا بلکہ دوست ملکوں کو بھی اسے تسلیم کرانے پر آمادہ بھی کیا تھا۔ امریکی قبضہ کے دوران پاکستان نے طالبان کی بھرپور حمایت کی، تاکہ افغانستان میں ایک دوست حکومت کا قیام ممکن ہوسکے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد اب طالبان کی حکومت آچکی ہے۔ امید یہ تھی کہ اب افغانستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آئیں گی۔ فوری طور پر آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید صاحب نے کابل کا دورہ کیا، جس پر پاکستان کو شدید بین الاقوامی دباو کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جب طالبان سے کہا جاتا ہے کہ ہم نے امریکی قبضے کے دوران تمام تر مخالفتوں کے باوجود آپ کی حمایت کی اور امریکی اور نیٹو کے دباو کو برداشت کیا اور اس میں بہت زیادہ ملکی مفادات کو بھی قربان کیا تو طالبان کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے ملک کے مفادات میں امداد دی اور ہم نے اپنے مفادات میں یہ امداد قبول کی۔ اب ہمارے مفادات کے تقاضے کچھ اور ہیں اور ہم اب ان تقاضوں کے مطابق عمل کریں گے۔

اب طالبان اپنے پتے آہستہ آہستہ شو کر رہے ہیں۔ ان سے کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کریں تو انہوں نے کاروائی کرنے سے انکار کیا اور پاکستان اور طالبان کے درمیان ثالثی کے کردار کی بات کی اور یہ مذاکرات جاری ہیں۔ ان میں ٹی ٹی پی کی عجیب شرائط ہیں، جس میں وہ کہہ رہے کہ فاٹا میں انہیں ایک علاقہ دیا جائے، جہاں وہ مستقل رہیں، ان پر کوئی قانون نہیں چلے گا، وہ اپنی مرضی سے اسلحہ جمع کریں گے اور اپنی مرضی سے تجارت کریں گے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان پر بارڈر سے آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ ان مطالبات پر ذرا غور و فکر کیا جائے تو یہ وہی مطالبات ہیں، جو اشرف غنی کی حکومت کرتی تھی اور اب ٹی ٹی پی کے ذریعے افغان طالبان کر رہے ہیں۔ یہ تو ریاست کے اندر ریاست بنانے والی بات ہے۔ طالبان پاکستان پر دباو بڑھا رہے ہیں کہ انہیں ایک قانونی حکمران کے طور پر تسلیم کیا جائے، مگر پاکستان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان اسی وقت طالبان حکومت کو تسلیم کرے گا، جب پوری دنیا اسے تسلیم کرے گی۔

طالبان نے انڈیا کے ساتھ روابط بڑھا لیے ہیں، پہلے قطر میں ملاقات ہوئی اور اب انڈین سفارتکاروں نے دو جون کو افغانستان کا وزٹ کیا ہے۔ اس وزٹ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ طالبان اور انڈیا تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ممکنہ طور پر انڈیا جلد طالبان حکومت کو تسلیم کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ طالبان اپنی افواج کی انڈیا میں تربیت کے حوالے سے بھی مثبت رائے رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے یا میڈیا پر ایسے ہی اڑایا گیا کہ پاکستان کو دباو میں لایا جائے اور پاکستان انڈیا کی مخالفت میں اس سے پہل کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ طالبان افغانستان کے حکمران ہیں، وہ اپنے پتے بڑی تیزی سے کھیل رہے ہیں، اب وہ پاکستان پر دباو بڑھا رہے ہیں کہ پاکستان بذریعہ واہگہ افغان سامان کو افغان ٹرکوں پر انڈیا جانے دے اور انڈین سامان کو انڈین ٹرکوں پر افغانستان جانے دے۔ اس سامان کی کسی قسم کی کوئی تلاشی نہ لی جائے، ہمیں تجارت کرنے کے لیے یہ روٹ دیا جائے۔ پاکستان اس معاملے میں اپنے سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر یہ بات کرچکا ہے کہ ہم اس سامان کو چیک کریں گے اور جب یہ ٹرک پاکستان کے انفراسٹکچر کو استعمال کریں تو اس سامان پر تھوڑا ٹیکس بھی لگایا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

افغانستان کی بیرونی تجارت کی شہ رگ پاکستان کے ہاتھ میں ہے، افغانستان اس انحصار سے نکلنا چاہتا ہے۔ مقابل میں افغانستان کچھ دینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے بین الاقوامی سطح پر کوئلے اور آئل کے مہنگے ہونے کی وجہ سے افغانستان سے کوئلے کی درآمد کی بات کی تو ایک طالبان رہنماء نے کہا کہ پاکستان کی قمیض اتنی پھٹ چکی ہے کہ اسے افغانستان کا کوئلہ رفو نہیں کرسکتا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ریاست بن جانے سے پہلے بہت سی باتیں نعروں کے طور پر کی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد ان کو عملی جامہ پہنانا نہیں ہوتا۔ طالبان بھی بالکل مفادات کی خارجہ پالیسی بنا اور چلا رہے ہیں اور یہ ہر ریاست و حکومت کا حق ہے۔ اب ہمیں بھی ریاست کی پالیسیوں کو جذبات کی بجائے حقائق و ریاستی مفادات کے پیرائے میں دیکھنا ہوگا۔ اب افغانستان میں امن ہوچکا ہے، لہذا چار ملین افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کو یقینی بنانا ہوگا، تاکہ وہ وہاں سکون سے رہیں اور بارڈر کو منظم کرنا ہوگا اور ساتھ میں ویزہ پالیسی کو مربوط بنانا ہوگا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ نے ہمارے خزانے کو کھربوں کا نقصان پہنچا لیا ہے، اب اس پر بھی مناسب ٹیکس کا نفاذ ہونا چاہیئے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply