زوجہ ماجدہ۔۔۔۔ارشاد بھٹی

ہر خاوند نے اپنی زوجہ ماجدہ سے یہ اقوال زرّیں یقیناً سن رکھے ہوں گے، آپ کے سارے بھائی چالاک، پتا نہیں آپ اتنے بے وقوف کیوں، آپ کے گھر والوں نے تو کبھی مجھے دل سے بہو تسلیم کیا ہی نہیں، یوں لگے جیسے میں تو کوئی فالتو چیز ہوں، کیا سوچ کر مجھ سے شادی کی تھی، شادی سے پہلے تو آپ ایسے نہ تھے، میں جیوں یا مروں، آپ کو اس سے کیا، کچھ پتا کتنے دن ہو گئے میرا حال پوچھے، پیار کی ایک بات کئے، آپ سے شادی کیا ہوئی میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی، یہ چند نمونے، ایسے بیسیوں جملے خاوندوں کو روزانہ سننا، سہنا پڑیں اور اگر یہ جملے سنتے ہوئے خاوند کے چہرے پر ناگواری کا شائبہ بھی آ جائے تو بس پھر ’پانی پت‘ کا یُدھ، بیویوں کے شکنجے میں اکثر خاوندوں کی حالت ایسی کہ ایک بیوی کی رات 12بجے آنکھ کھلی، دیکھا خاوند نہیں، کمرے سے باہر آئی، خاوند ٹی وی لائونج میں سر پکڑے بیٹھا، پوچھا: یہاں۔ اس وقت، ایسے۔ کیوں؟ خاوند بولا ’’تمہیں یاد ہے آج سے 14سال پہلے ہم چھپ چھپ کر ملا کرتے تھے‘‘، بیوی نے کہا: ہاں یاد ہے، خاوند نے کہا: یاد ہے ایک مرتبہ ہم بیٹھے تھے کہ اچانک تمہارے والد آ گئے، بیوی بولی: ہاں یاد ہے، خاوند نے کہا: یاد ہے تمہارے والد نے بندوق کی نالی میرے ماتھے پر رکھ کر کہا تھا، اگر تم نے میری بیٹی سے شادی نہ کی تو میں تمہیں 14سال کیلئے جیل بھجوا دوں گا، بیوی حیران، پریشان ہو کر ’’ہاں یاد ہے مگر بات کیا ہے‘‘ خاوند دکھی لہجے میں بولا ’’اُس دن جیل چلا جاتا تو آج میں نے آزاد ہو جانا تھا‘‘۔
بابا سیانا کہے ’’بیوی جتنی بھی بھولی، خاوند کیلئے کافی‘‘، دنیا بھر کے سیانے اُس خاوند کی تلاش میں جو کہے میری بیگم بھولی، زیادہ تر خاوندوں کے نصیب میں تو ایسی بیویاں کہ ایک بیوی ٹی وی دیکھتے اور مالٹے کھاتے موبائل سے سہیلیوں کو میسجز کر رہی تھی، دفتر سے آیا خاوند اپنا موبائل کچن میں چارجنگ پر لگا کر ابھی بیوی کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا، وہ اُٹھ کر کچن میں گیا، موبائل دیکھا، بیگم کا میسج تھا ’’مالٹے کھا رہی ہوں، نمک لانا بھول گئی، واپسی پر کچن سے نمک لیتے آنا‘‘، ایک بھلی مانس اپنی سہیلی کو سمجھا رہی تھی کہ مصیبتیں کبھی تنہا نہیں آتیں، کہنے لگی اب دیکھو نا دو ہفتے پہلے خاوند فوت ہوگیا اور کل موبائل کا چارجر گم ہوگیا۔

کہا جائے بیوی وہ سائنس جو کبھی سمجھ میں نہ آئے، کہا یہ بھی جائے، بیوی سائنس کا وہ مضمون جس میں جو فیل وہ میاں، سائنس سے یاد آیا، جب سے اپنے دوست فواد چوہدری سائنس کے وزیر ہوئے، سوشل میڈیا کے جگت بازوں کی موجیں، ایسی ایسی جگتیں، خدا کی پناہ، جیسے اگر پکوڑے دیکھ کر منہ میں پانی آ جاتا ہے تو پانی دیکھ کر منہ میں پکوڑے کیوں نہیں آتے، اس پر تحقیق کیلئے فواد چوہدری نے 3سائنسدانوں پر مشتمل کمیٹی بنا دی ٭ٹوتھ برش کرنے کے بعد دانتوں پر انگلی پھیرنے سے اگر کیچوں کیچوں کی آواز آئے تو سمجھ لیں، دانت صاف ہو گئے ٭انسان چاہے جتنا نہا لے پانی انسان کے اندر نہیں جاتا ٭ہم جوتوں کے بنا چل سکتے ہیں، جوتے ہمارے بنا نہیں چل سکتے ٭زمین سورج سے اتنی ہی دور ہے، جتنا سورج زمین سے دور ہے ٭پانی ابالتے وقت جو آواز آتی ہے، وہ جراثیموں کی چیخوں کی ہوتی ہے، دراصل اس وقت جراثیم این آر او مانگ رہے ہوتے ہیں ٭اگر آپ کے بچے مٹی کھاتے ہیں تو اُنہیں سیمنٹ کھلائیں تاکہ بنیاد پکی ہو ٭اگر جامن کے درخت کے نیچے گلاب کا پودا لگا دیا جائے تو اُس پودے پر گلاب جامن لگیں گے، یہ تو چند، ورنہ سوشل میڈیا فواد چوہدری سے منسوب تحقیقی بیانات سے بھرا پڑا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا زوجہ ماجدہ کا، بلاشبہ ابھی برکت کیلئے کہیں کہیں ایسے خاوند بھی موجود جو اپنی بیگمات سے پوری ڈالے ہوئے، جیسے ایک بیوی نے جب اپنے خاوند سے کہا ’’تمہاری ڈرائیونگ ایسی کہ موت کا فرشتہ ساتھ ساتھ ہی رہے تاکہ آنے میں دیر نہ ہو جائے‘‘ تو خاوند کا جواب تھا ’’تمہاری ککنگ ایسی کہ شیطان روز مجھ سے کہے ’’بھائی آج بسم اللہ پڑھ لینا، مجھ سے اب یہ بدذائقہ کھانے نہیں کھائے جاتے‘‘ یا جیسے وہ آدم خور شوہر جو اپنے بیٹے کے ساتھ شکار پر نکلا، ایک خوبصورت عورت نظر آئی، بیٹا بولا ’’ابا اس کو کھا لیتے ہیں‘‘ باپ بولا ’’نہیں بیٹا اسے گھر لے جاتے ہیں، گھر جاکر تمہاری ماں کو کھا لیں گے‘‘ مگر ایسے باہمت، بہادر، مستقل مزاج خاوند بہت کم، ورنہ تو ہر طرف بیگم راج، بڑے بڑے سورما گھر کی دہلیز کراس کرتے ہی خاوند بن جائیں، میرے دوست (ف) کی سنئے، ایک دن دکھی لہجے میں بولا ’’یار شاعروں، گلوکاروں کی باتوں کو سیریس نہیں لینا چاہئے‘‘ پوچھا کیوں، بولا ’’بیس سال پہلے نور جہاں کا یہ گانا سنا ’جدوں ہولی جئی لیندا اے میرا ناں، میں تھاں مر جانی آں‘ پچھلے بیس سال سے اپنی بیگم کے اردگرد انتہائی آہستگی سے اس کا نام لے رہا ہوں، مگر بیگم زندہ سلامت، تاحال مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلا‘‘۔

دوستو حیرانی یہ، شادی شدہ بھائیوں کی قدم قدم پر بیویوں کے ہاتھوں ’عزت افزائی‘ دیکھ کر بھی وطنِ عزیز میں اتنی شادیاں ہو رہیں کہ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں جہاں زیادہ شادیاں ہوں، لیکن بات وہی کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہ سیکھا، اسی لئے سب، سب کچھ جانتے ہوئے دھڑا دھڑ شادیاں کئے جا رہے، شوق سے کریں شادی، مگر دعا یہی کہ کسی کے ساتھ وہ نہ ہو جو میرے دوست (ن) کے ساتھ ہوا، آج بھی جب اس سے شادی کا پوچھا جائے تو افسردہ ہو کر کہے ’’کیا شادی۔۔۔ ہمیں تو ایسا ملاوٹ زدہ مال ملا کہ وہ صاحب یاد آئیں جو تیتر کا گوشت کھانے ایک ہوٹل گئے، کھانا کھاتے ہوئے انہیں شک گزرا کہ تیتر کے گوشت میں ملاوٹ، انہوں نے ویٹر کو بلا کر کہا ’’سچ سچ بتاؤ، گوشت میں ملاوٹ کی ہے‘‘ ویٹر بولا ’’صاحب سچی بات تیتر کا گوشت بہت مہنگا، نایاب، اس لئے اس میں گائے کے گوشت کی ملاوٹ کرنا پڑتی ہے‘‘ ان صاحب نے پوچھا ’’کتنی ملاوٹ کرتے ہو‘‘ ویٹر بولا ’’ففٹی ففٹی، ایک تیتر میں ایک گائے‘‘ کیوں۔۔ کیسا۔۔ سمجھداروں کیلئے اشارہ ہی کافی، لیکن یہ سمجھداروں مطلب کنواروں کیلئے، اگر آپ شادی شدہ، تو پھر یہ آپ کے کیلئے نہیں، جو ہونا تھا، ہو گیا، اب زوجہ ماجدہ انجوائے کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply