لاک ڈون میں اساتذہ کا استحصال۔۔۔آغرؔ ندیم سحر

وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمودکے لیے ایک کالم:
ملک بھر میں کرونا کی وجہ سے لاک ڈون کر دیا گیا اور یہ لاک ڈاؤن نہ جانے کب تک رہے کیونکہ حکومتی احکامات کے مطابق تعلیمی ادارے تو یکم جون تک بند رہیں گے، مگر لاک ڈاؤن کب ختم ہوتا ہے اس کی کوئی واضح ڈیڈ لائن نہیں دی گئی لیکن خیر ہمیں حکومتی احکامات کا مکمل احترام کرنا ہوگا ،کیونکہ ریاست ہمیشہ اپنے باسیوں کی جان او رمال کا تحفظ کرتی ہے۔

گزشتہ چند کالموں میں اگرچہ میں اپنے آج کے موضوع کا اشاروں میں ذکر کر بھی چکا لیکن آج مجھے اس بارے ایک الگ کالم کیوں لکھنا پڑا، اس کی وجہ اس موضوع کی سنجیدگی ہے ،کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوا وہاں ہر وہ نوکری پیشہ بھی متاثر ہوا جو پرائیویٹ ملازمت کرتا ہے،وہ چاہیے کسی فیکٹری یا دفتر میں ہے یا کسی نجی تعلیمی ادارے میں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب طرح کی صورت حال پیدا کر دی گئی اور خاص کر کے تعلیمی اداروں میں یعنی جو اساتذہ وہاں نوکری کرتے ہیں ،بنیادی طور پر وہ اساتذہ کم اور مزارعے زیادہ ہوتے ہیں۔مزارع کا کام ہم سب جانتے ہیں‘اس کاکام صرف حکم بجالانا ہے، چاہیے بیمار ہے یا مردہ،اسے باس کے حکم پر لبیک کہنا ہے اورنہ صرف باس کے اعتماد کو بحال رکھنا ہے بلکہ باس کے مزاج کا بھی خیال رکھنا مزارع کے بنیادی فرائض میں شامل ہوتا ہے۔

مجھے نجی تعلیمی اداروں میں رہتے ایک چیز کا اندازہ شدت سے ہوا اور وہ تھی عزتِ نفس۔یقین جانیں اگر پیٹ پالنے کے مسائل نہ ہوتے تو میں یہ بات بالکل واضح کرتا کہ آپ دیہاڑی کر لیں‘ریڑھی لگا لیں مگر کبھی بھی پرائیویٹ نوکری نہ کریں،بلکہ نجی تعلیمی اداروں میں تو بالکل بھی نہ جائیں، کیونکہ جس قدر اساتذہ کا استحصال پرائیویٹ اداروں نے کیا،مجھے تو اس شعبے کا نام لیتے ہوئے شرمندگی ہونے لگ گئی ہے۔آپ اس بات کا اندازہ اس واقعے سے لگا لیں‘کرونا ایک وبائی آفت ہے اور اس آفت سے یقینا ً دنیا کے دو سو ممالک متاثر ہوئے ہیں‘ترقی یافتہ ممالک نے اس دوران نہ صرف دیہاڑی دار طبقے کو ریلیف دیا بلکہ ہماری حکومت نے بھی بار بار ایک ہی بات کی کہ وہ طبقہ جو ڈیلی ویجز والا ہے یا پھر پرائیویٹ ملازمت پیشہ کا خیال کیاجائے۔

اب یہاں ہمارے تعلیمی اداروں کے مالکان یعنی جاگیرداری سوچ رکھنے والے  طبقے نے غریبوں کا کیسے خیال رکھا‘ایک معروف تعلیمی ادارے کے مالک نے مختلف برانچز سے راتوں رات اپنے اساتذہ کو فارغ کر دیا اور ساتھ ہی غریبو ں میں راشن بانٹنے کا اہتمام کر دیا گیا۔یعنی درجنوں گھروں کا چولہا بجھا کر غریبوں کو راشن دینا کہاں کا انصاف ہے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ حرام کی کمائی سے بنائی ہوئی کوٹھی پہ”ھذا من فضل ربی“لکھ دینا۔

اب یہ اساتذہ وہ طبقہ ہے جن کے بارے میں مَیں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ یہ صبح جاتے ہوئے گھر والوں کو بتا کر نکلتے ہیں کہ ہم چونکہ نجی ملازم ہیں لہٰذا ہمارے جانے کا وقت توصبح آٹھ بجے ہے لیکن ہماری واپسی کا انتظار مت کیجیے گا کیونکہ ہم نے چھٹی کے بعد کالج کے ساری انتظامی معاملات نمٹا کر آنا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ مختلف سکولوں میں جا کر بچے اکٹھے کرنے کی کمپین بھی کرنی ہے،کالج کے داخلوں کے لیے گھر گھر جا کر پمفلٹ بھی تقسیم کرنے ہیں۔بچوں سے کالج کی فیسیں لینے کا کردار بھی اساتذہ نے ادا کرنا ہوتا ہے۔نالائق اور کمزور بچوں کو رات گئے تک اعزازی لیکچر بھی استاد پڑھائے گا اور اگروہ بچے پھر بھی اپنی نااہلی سے فیل ہو جاتے ہیں تو بچے کو فارغ کرنے کی بجائے استاد کو ہی کالج سے نکال دیا جائے گا کیونکہ اس کے پڑھانے سے ایک سو نوے بچہ تو پاس ہو گیا لیکن باقی کے دس بچے ناکام ہو گئے لہٰذا اس کا مطلب ہے استاد ناکام ہے۔

اس ہفتے میں مجھ سے  پندرہ کے قریب مختلف اداروں سے فارغ کیے جانے والے پرائیویٹ اساتذہ نے رابطے کیے اور ایک ہی رونا تھا کہ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا‘اس میں ہمارا کیا کیاقصور ہے‘ہمیں ایک دم ملازمت سے فارغ کر دینے کا مطلب ہے کہ ہم دو مہینے نہ تو نوکری تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ تعلیمی ادارے بند ہیں اور نہ اکیڈمی اور ہوم ٹیوشن پڑھا سکتے ہیں کیونکہ کرونا کا خطرہ ہے یعنی اگلے چار سے پانچ ماہ یہ خاندان خالی ہاتھ ہو گیا۔آپ ظلم کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ اساتذہ کاکام صرف پڑھانا ہے اور تعلیمی ادارے پڑھانے کے سوا سارے کام اساتذہ سے لیتے ہیں اور پھر اس سے بڑا ظلم یہ کہ کئی تعلیمی اداروں میں انتہائی ناکام اور نااہل آدمی بطور ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بٹھا دیا گیا یعنی آپ یوں سمجھیں کہ بکریوں کی رکھوالی کے لیے شیر کو بٹھا دیا گیا اور اب شیر تو اپنا کام دکھائے گا(آپ اس کے علاوہ کوئی اور مثال بھی دے سکتے ہیں)خیر میں اپنے اس کالم کے ذریعے اس سرمایہ دارطبقے سے گزارش کروں گا کہ اب تو خدا کا خوف کھائیں‘یہ وبا حقیقت میں آپ جیسوں کے لیے نازل ہوئی‘غریب طبقہ تو مفت میں مارا گیا۔آپ دولت کے سر پہ جس طرح غریب کا اور خاص کر کے استاد کا استحصال کر رہے ہیں‘یہ وبائی ہلاکتیں آپ کے لیے نازل ہوئیں، مزید ہوتی رہیں گی اور اگر اب بھی آپ نے اس سے سبق نہ سیکھا تو یقین جانیں خدا کا عذات بہت سخت ہے۔

یقینا ًیہ کالم وزیر تعلیم شفقت محمود اور حکومتی مشینری کے دیگر لوگوں تک پہنچے گا سو میں اس کالم کے توسط سے حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ تعلیمی ادارے تو بند کر دیے گئے مگر خدارا نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے دیہاڑی دار طبقے(میں اساتذہ کو بھی دیہاڑی دار کہتا ہوں کیونکہ یہ بے چارے مہینے میں ایک چھٹی بھی کر لیں تو ان کا ایک دن کا اعزازیہ مار لیا جاتا ہے سو یہ بھی ڈیلی ویجز والے ہیں)یا فور کلاس عملے کا استحصال ہونے سے بچایا جائے۔لاک ڈاؤن ہونا یا تعلیمی ادارے بند ہونا، اس میں اساتذہ یا پرائیویٹ ملازمت پیشہ لوگوں کا کیا قصور ہے۔اگرچہ یہ کالم صرف نجی تعلیمی اداروں کے لیے لکھا گیا مگر ایسی صورت حال کا سامنا ہر دوسرے پرائیویٹ ملازمت پیشہ کو ہے کیونکہ بطور صحافی ان دنوں درجنوں ایسے واقعات سننے کو مل رہے ہیں کہ کس کس فیکٹری اور کس کس ادارے سے یا کس کس دکان سے کتنے ملازم فارغ کر دیے گئے اور یہاں تک کہ ایک ماہ کا نوٹس تک نہ دیا گیا کہ وہ کہیں اور نوکری تلاش کر لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں ذاتی طور پر ایک ایسے ادارے کا شکار ہوا جہاں سے چھوڑے ہوئے مجھے ایک سال ہو گیا مگر میرے پیسے ابھی تک نہیں دیے گئے اور وہی مالک آج غریبوں میں راشن بھی تقسیم کرے گا اور کرونا فنڈ کے نام پر مزید تعلیمی ادارے بھی بنائے گا۔میں ذاتی طور پر ریاست اور حکومت کے ہر فیصلے پر عمل کرنے پہ یقین رکھتا ہوں مگر جب مجھے علم ہوا کہ نجی اداروں میں کام کرنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تو واقعی دل دکھا اور سوچا کہ تعلیمی ادارے کھلے رہتے‘کم از کم لوگوں کا روزگار تو چل رہا ہوتا۔ میری حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ خان صاحب جیسے بار بار دیہاڑی دار کا خیال کر رہے تھے‘ایسے ہی نجی اداروں میں کام کرنے والوں کا بھی خیال کریں۔ یہاں اشارہ کرتا چلوں کہ جن علاقوں سے اساتذہ کو نکالا گیا ان میں لاہور‘گوجرانوالہ‘راولپنڈی‘پتوکی‘گجرات اور فیصل آباد شامل ہے اور اگر اس موضوع پر تحقیق کریں گے تو درجنوں ادارے اور شہر اس زد میں آئیں گے سو حکومت اس پر سختی سے نوٹس لے تاکہ اس دیہاڑی دار طبقے کا بھی چولہا جلتا رہے جو قوموں کے معمار ہیں‘قومیں استاد بناتا ہے اور خود استاد بے چار بھوکا سونے پر مجبور ہے‘یہ سسٹم صرف فرعونوں کو ہی کیوں نوازتا ہے‘کیا یہ ریاست استاد کو اس کا کھویا ہوا وقار نہیں دے سکتی؟یقین جانیں جس ریاست اور قوم کے پاس استاد کا احترام نہیں‘دنیا اس کی تذلیل کا تماشا دیکھتی ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply