گیم چینجر۔۔۔ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ

ہم پاکستانی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنے سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں! اس سے ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک سابق کرکٹر نےاپنے سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔موصوف نے ایک کتاب لکھی ہے۔میڈیا میں اس کتاب کے متعلق بہت کچھ کہا اورلکھا جارہاہے۔یہاں میں روزنامہ جنگ مورخہ 7 مئی اسپورٹس کے صفحہ (11)سے ایک خبر من وعن تحریر کروں گا:
“ایسا لگتا ہے کہ شاہد آفریدی نے اپنی کتاب گیم چینجر کا مسودہ پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔اس میں کئی فاش غلطیاں مصنف کی کرکٹ سے عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہیں۔”
اس عدم دلچسپی کا مظاہر ہ موصوف نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرآباد کہنے کے بعد نہیں کیا بلکہ میری نظرمیں ان کا پورا کرکٹ کیرئر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ موصوف کو کرکٹ سے زیادہ اشتہارات ،ماڈلنگ ، کاروبار اورمیڈیا میں “اِن” رہنے کا شوق تھا۔
اگر موصوف کے ریکارڈز (اعداوشمار)دیکھے جائیں تو وہ کسی بھی طور پر چار سومیچز کھیلنے والے کھلاڑی نہیں نظرآتے۔وہ ایک واجبی سے کرکٹر نظرآتے ہیں جنہیں ایک اننگ کی کارکردگی اور غیرمرئی دباؤ کے تحت 398 ون ڈے میچز کھیلنے کا موقع مل گیا۔کرکٹ سے وابستہ افراد اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان پر بڑے طویل بیڈ پیچز آئے ہیں جن کے باوجود وہ ٹیم میں “اِن” رہے ہیں جب کہ ان کے برخلاف چند اچھے کھلاڑی ایک دو بیڈ پیچز کے سبب ٹیم میں اپنی جگہ سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ایک ادنیٰ سا بھی کرکٹ سینس رکھنے والا فرد بغیر کسی راکٹ سائنس کے یہ بات جانتا تھا کہ موصوف پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پندرہ بالز پر صرف پانچ رنز چاہیے ہوں اوربیٹنگ کریز پر جناب کھڑے ہوں تو بھی صرف دعائیں ہی میچ جتواسکتی تھیں۔کیونکہ وہ بال گرنے سے پہلے ہی تہیہ کرلیتے تھے کہ اس بال کو کہاں پھینکنا ہے ۔اب یہ بالر کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ وہ ان کے پری پلین شارٹ پر ہی بال پھینک دے ۔کوئی بھی سمجھدار بالر انہیں بآسانی ٹریپ کرلیتاتھا۔لہذاانہیں کسی بھی طور پر میچ وننگ کھلاڑی نہیں کہاجاسکتا۔سادہ الفاظ میں آفریدی صاحب رو میں (اگر قسمت ساتھ دے ) تو کچھ بھی کرسکتے تھے لیکن اس شعرکے بالکل برعکس تھے:
رومیں تنکے کی طرح بہنا تو کچھ مشکل نہیں
بات تو جب ہے کہ طوفانوں کے رخ موڑدے
یعنی مشکل حالات میں بہت جلد یہ اسٹریس سے باہر نکل جاتے بلکہ گراؤنڈ ہی سے باہر چلے جاتے اورپوری ٹیم کو سٹریس کا شکار کرجاتے تھے۔
ان کی کتاب سے متعلق میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کروں گا کہ ضروری نہیں کہ گڑھے مردے اکھاڑ کر بیچ چوراہے میں لٹکادیئے جائیں۔ ہر عیب ،کوتاہی، غفلت بلکہ جھوٹ جن پر پردہ پڑا ہو اسےسرِبازار بے نقاب کردیا جائے۔ سچ بولنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے وقت گزرجائے تولکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں اس پر پردہ ہی پڑا رہنا چاہیے ۔مثلاً اسپاٹ فکسکنگ کا اسکینڈل ہوجس سے ملک کی پہلے ہی بہت بدنامی ہوچکی ہے۔ یا پھرپہلی سینچری داغنے کے وقت عمر کا تعین ۔جس میں ایک ریکارڈ پاکستان کے نام ہے تو اس پرخاموشی اختیار کی جاتی ،ملک کی جگ ہنسائی اور رسوائی کی کیا ضرورت تھی۔خاموشی سے معاملہ چل رہا تھا ،سچ بول کر بدنما داغ ۔۔۔۔ جب کہ بیرونی دنیا میں پاکستان اورپاکستانیوں کا امیج ویسے بھی کوئی زیادہ اچھا نہیں۔
ایک جانب وہ اپنے والد اوربڑے بھائی کے کروڑوں کے نقصان پر دن رات دعا کرتا دکھارہے ہیں اوردوسری طرف اتنا غافل دکھارہے ہیں کہ بیٹا 3 یا 5 سال کا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے بیٹے کا ملکی قوانین کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس میں اندراج تک نہیں کراتے۔یہ خطا پھر ملکی اداروں کی ہوئی یا پھر ان کے والد مرحوم کی۔
ان کے علاوہ موصوف نے اپنی کتاب میں بہت سےقومی کرکٹرزپرانگلیاں اٹھائیں اوردیگر معاشرتی وسیاسی امورکو زیربحث لایا ہے۔ موصوف نے اس کتاب کی تصنیف سےملک وقوم کی کتنی خدمت کی اور شان بلند کی ہے! اس کا فیصلہ قارئین پر منحصرہے۔
آخر میں جناب ہاشم رضا جلالپوری کا شعر بغیر کسی تبصرہ پیش خدمت ہے:

Advertisements
julia rana solicitors

ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے
زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارہ کر کے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply