ترکی کی فوجیں شام میں ۔۔ثاقب اکبر

اہل شام کے امتحانات ابھی ختم نہیں ہوئے، ایک نیا محاذ گرم ہو گیا ہے۔ ترکی نے شام کے شہر عفرین میں اپنی فوجیں داخل کر دی ہیں۔ جب کہ دو روزقبل 20جنوری2018 کو ترک فوج نے کہا تھا کہ اس کے جنگی طیاروں نے شام کے شمال میں کالعدم کردستان ورکررز پارٹی سے منسلک کرد ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ یاد رہے کہ کرد جنگجو 2012سے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ ترکی پہلے ہی کردوں کے خلاف مکمل فوجی آپریشن کی دھمکی دے چکا ہے۔
22جنوری 2018کو سیرین آرمی نے ترک فوج کی حمایت سے شام کے ایک اور شہر منبج میں بھی کارروائیاں شروع کیں  ۔ یہ شہر ترکی کے شمال مشرقی صوبے حلب میں واقع ہے۔ یہ شہر بھی 2014سے شامی کردوں کے قبضے میں چلا آرہا ہے۔
نیٹو میں ترکی کے نمائندے احمد بیرات نے کہا ہے کہ نیٹو اراکین ترکی کی جانب سے اس حملے کی حمایت کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی اگر ترکی کے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں تو انھیں نیٹو کے لیے اپنی رکنیت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔

شام کی سرزمین پر یہ نیا معرکہ امریکا کے اس اعلان کا نتیجہ ہے کہ وہ شام میں ترکی کی سرحد پر متعین کرنے کے لیے 30ہزار کرد ملیشیا کو تربیت دے رہا ہے ۔ امریکا پہلے ہی شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جنگ میں شامی کرد ملیشیا کی حمایت سے کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ رقہ میں داعش کے خلاف کارروائی شام کی کرد ملیشیا وائی پی جی (کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس) ہی کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے استعمال کیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ وائی پی جی ترکی کی علیحدگی پسند کرد تنظیم کے پی کے کا لازمی جز ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرد جنگجوؤں کو بہت جلد کچل دیا جائے گا۔ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے فوجی کارروائی کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام کے اندر تیس کلو میٹر گہرا محفوظ زون قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ترکی کی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ترک فوجیں پانچ کلو میٹر تک شام کے اندر داخل ہو چکی ہیں۔ جب کہ کرد جنگجو تنظیم وائی پی جی کا کہنا ہے کہ انھوں نے عفرین میں ترک فوج کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔

عالمی سطح پر ترکی کے اس اقدام کی عموماً مخالفت کی جارہی ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد نے ترکی کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ ژان ایو دریان نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلائیں گے۔ شام نے امریکا کی طرف سے سرحدی افواج کی تشکیل کی بھی مخالفت کی ہے۔شامی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ان کی سالمیت، علاقائی خود مختاری اور اتحاد پرحملہ ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
امریکا کی طرف سے کرد افواج کی تشکیل پر روس کی طرف سے بھی مخالفت کی جا چکی ہے۔ ترکی کے شام میں حملے کے بعد روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف اور امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کی اس حوالے سے ٹیلی فون پر بات بھی ہوئی ہے۔ دونوں نے ترکی کی فوجی مداخلت پر منفی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ تاہم روس نے واضح کیاہے کہ امریکا نے انقرہ کو اس حملے کے لیے خود تحریک دی ہے۔ شام میں روسی فوجی بھی علاقے میں موجود ہیں اور مختلف علاقوں میں روسی کمانڈر انھیں ازسرنومتعین کر رہے ہیں۔

امریکی سیکرٹری ڈیفنس جیمز میٹیس کا کہنا ہے کہ ترکی نے حملے سے پہلے امریکا کو خبردار کیا تھا۔ایران کے چیف آف آرمی سٹاف میجر جنرل محمد باقری کا کہنا ہے کہ ترکی کے شام میں ملٹری آپریشنز سے شام کی قومی سلامتی، حاکمیت اور آزادی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ انھوں نے ترک چیف آف آرمی سٹاف سے 21 جنوری کو ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کو یقین دلانا چاہیے کہ وہ شام کی سرزمین کے کسی حصے پر قبضہ نہیں کرے گا۔ترکی کے وزیراعظم کے معاون بکر بوزداغ نے اس سلسلے میں وضاحت کی ہے کہ ترکی شام کی داخلی سلامتی اور قومی حاکمیت کا احترام کرتا ہے اور کہا ہے کہ فوجی کارروائی کے دوران میں اس اصول کو پیش نظررکھا جائے گا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس معرکے میں برطانیہ کا نقطہ نظر امریکا سے مختلف ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ کے ترجمان نے 20جنوری2018کو اعلان کیا کہ ترکی کا یہ قانونی حق ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائے۔صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ترکی کی طرف سے حکومت مخالف عسکری شدت پسندوں کی شام میں حمایت کا سلسلہ شروع ہی سے جاری ہے۔ ترکی آج بھی بشارالاسد کو کسی مسئلے کے حل میں شریک کرنے کے لیے آمادہ نہیں جب کہ بشار الاسد نے ترکی کے نئے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عفرین میں ترکی کی جارحیت انقرہ کی طرف سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا تسلسل ہے۔
ایک طرف سے ترکی کی طرف سے فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف امریکا سمیت تمام ملکوں کا ردعمل زبانی کلامی ہے۔ زمینی طور پر ابھی کسی ملک کی طرف سے کوئی کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ داعش کے خلاف کارروائی کو ایک طرح سے عالمی تائید حاصل تھی جب کہ ترکی جیسی فوجی طاقت کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔

ایران جس نے داعش کے خلاف بشار الاسد کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی، کی طرف سے زمینی طور پر ترکی کے خلاف معرکہ آرائی کا حصہ بننا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف روس کے ساتھ شام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایران کی موجودگی میں ترکی کئی امور میں ہم آہنگی کر چکا ہے جن میں سے ایک شام کی علاقائی سالمیت کی حفاظت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے میں کیا روس کوئی عملی اقدام کرے گا یا نہیں۔ البتہ ہماری رائے میں اس کا امکان بہت کم ہے۔ اس کے لیے روس اور دیگر ممالک زیادہ تر سفارتی ذرائع پر انحصار کرنے کی کوشش کریں گے۔
روس کی طرف سے یہ بات مسئلے کو سمجھنے میں خاصی مددگار ہے کہ شام میں ترک فوج کی نئی مداخلت کے لیے امریکا نے تحریک کی ہے۔ یہ بات خاصی معنی خیز اور گہری ہے۔ اس امر کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امریکا جانتا ہے کہ ترکی کرد مسئلے پر بہت حساس ہے۔ کئی دہائیوں سے کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف ترکی کی مرکزی حکومت جنگ آزما ہے۔ ترکی کس طرح سے اس بات کو ٹھنڈے پیٹوں قبول کر سکتا ہے کہ اس کی سرحد پر ایک نئی طاقتور کرد فوج کھڑی کر دی جائے۔ امریکا کو معلوم ہے کہ ترکی ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف گرم ردعمل دے گا۔ کیا اس طرح سے امریکا ترکی کو کسی نئے فوجی مسئلے میں الجھانا چاہتا ہے؟

دوسری طرف داعش کی شام میں شکست کے بعد ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ اب امریکا کی شام میں موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ ترکی کو شام میں الجھا کر اور دیگر ملکوں کو بھی اس مسئلے کا نئے سرے سے حصہ بنا کر کیا امریکا شام میں اپنے باقی رہنے کا جواز پیدا کرنا چاہتا ہے؟ یہ سوال اپنے اندر ایک جواب رکھتا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ شام میں امریکا کے آنے کے مقاصد ابھی پورے نہیں ہوئے بلکہ اس میں شک نہیں کہ شام اور عراق دونوں میں امریکا کی فوجی مداخلت مجموعی طور پر امریکا کے پیش نظر مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

عراق میں کردعلاقوں کی علیحدگی کے لیے کی گئی کوشش بھی ہزیمت کا شکار ہو چکی ہے۔ شام اور ترکی کے علیحدگی پسند کردوں نے عراق میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے واضح طور پر عراقی کردوں کی الگ حکومت کی حمایت کی تھی۔ اسرائیل کی طرف سے یہ حمایت اور عراقی کردوں کے ساتھ امریکا کے دیرینہ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خطے میں کردوں کو فعال رکھنا علاقے میں مستقل بدامنی کا ایک ذریعہ ہے اور اس طرح سے امریکا کی فوجی موجودگی کے جواز کا ذریعہ بھی ہے۔ شامی کردوں کی نئی فوج کا قیام اور پھر اس کے خلاف ترکی کو انگیخت کرنا خطے میں گریٹر کردستان کے لیے جاری عالمی منصوبوں کا حصہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دو دہائیاں پیشتر مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین تھا۔ امریکا کی طرف سے حال ہی میں بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کا فیصلہ جس ردعمل کا باعث بنا اسے کسی دوسری سمت پر ڈالنا ضروری ہے۔ اس کے لیے پہلے بھی مشرق وسطی میں طرح طرح کے مسائل پیدا کیے جاتے رہے ہیں۔ ترکی کی طرف سے امریکی اقدام کے ردعمل میں شام میں فوجی مداخلت یقینی طور پر خطے کے تمام ملکوں اور بڑی طاقتوں کو نئے مخمصے میں گھسیٹنے کا باعث بنے گی جس سے فلسطین اور بیت المقدس کا مسئلہ پھر پس منظر میں چلا جائے گا، خاص طور پر اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ ترکی ہی نے امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کے خلاف او آئی سی کا اجلاس طلب کیا تھا اور ایک طرح سے عالم اسلام کو امریکی فیصلے کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب اگر ترکی فوجی لحاظ سے کسی اہم مسئلے میں الجھ جاتا ہے تو پھر یقینی طور پر اس کی توجہ دیگر مسائل سے ہٹ جائے گی یا کم ہو جائے گی۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply