اچھے دن آئیں گے/مرزا مدثر نواز

حکایت ہے کہ خالق نے اپنی مخلوق انسان کے پاس ایک صندوقچہ بھجوایا۔ جب اس کو کھولا تو اس میں سے ہر ایک قسم کی بلائیں اور مصیبتیں اور بیماریاں جو انسان کو ہوتی ہیں‘ سب نکل پڑیں۔ امید بھی اسی صندوقچہ میں تھی‘ وہ نہ نکلی بلکہ ڈھکنے میں چمٹ رہی اور صندوقچے  ہی میں بند ہو گئی تا کہ مصیبت کے وقت انسان کو تسلی دے۔ پس جس زندگی میں امید ہے‘ اس سے بڑھ کر کوئی خوش زندگی نہیں ہے خصوصاََ جب کہ امید ایک عمدہ چیز کی اور اچھی بنا پر ہو، اور ایسی چیز کی ہو جو امید کرنے والے کو حقیقت میں خوش کر سکتی ہو۔امید ایک ایسی قوت ہے جو آئندہ ہونے والی باتوں کے خیال میں دل کو مشغول کر دیتی ہے۔ ہماری خوشیوں کا دورانیہ اس قدر کم و چند روزہ ہے کہ اگر یہ قوت ہم میں نہ ہوتی جس سے انسان ان عمدہ اور دل خوش کن چیزوں کا ان کے ہونے سے پہلے مزہ اٹھاتا ہے جن کا کبھی ہو جانا ممکن ہے تو ہماری زندگی نہایت ہی خراب اور بد مزہ ہوتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ہم کو تمام عمدہ چیزوں کے حاصل ہونے کی امید رکھنی چاہیے کیونکہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی امید نہ ہو سکے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو معبودِ برحق ہم کو دے نہ سکے“۔

ایک لطیفہ گو نے کہا کہ دنیا میں مجھے کسی چیز کا رنج نہیں ہے کیونکہ امید مجھے ہمیشہ خوش رکھتی ہے۔ دوستوں نے پوچھا کہ کیا تم کو مرنے کا بھی رنج نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ کیا عجب ہے کہ میں کبھی نہ مروں کیونکہ خالق اس پر بھی قادر ہے کہ ایک ایسا شخص پیدا کر ے جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہی ہوں۔ یہ قول تو ایک خوش طبعی کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج ہم سے مٹاتی ہے۔ اگر ہم کو زندگی کی امید نہ ہوتی تو ہم سے زیادہ بدتر حالت کسی کی نہ ہوتی۔ زندگی ایک بے جان چیز کی مانند ہے جس میں کچھ حرکت نہیں ہوتی۔ امید اس میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ امید ہی کے سبب سے انسان میں سنجیدگی اور بردباری اور خوش مزاجی کی عادت ہو جاتی ہے گویا امید انسان کی روح کی جان ہے‘ ہمیشہ روح کو خوش رکھتی ہے اور تمام تکلیفوں کو آسان کر دیتی ہے‘ محنت پر رغبت دلاتی ہے اور انسان کو نہایت سخت اور مشکل کاموں کے کرنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ امید سے ایک اور بھی فائدہ ہے جو کچھ کم نہیں ہے کہ ہم موجودہ خوشیوں کی کچھ بہت قدر نہیں کرتے اور اسی میں محو نہیں ہو جاتے۔

حضرت داؤدؑنے اپنے نہایت مصیبت اور تکلیف کے وقت میں اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں تعریف کے ساتھ کچھ اس طرح کی دعا کی ہو گی ”میں ہمیشہ خالق کو اپنے سامنے رکھتا ہوں‘ وہ میری دائیں طرف ہے اسی لیے میں گھبراتا نہیں‘ میرا دل خوش ہے‘ میرا گوشت بھی اسی امید میں رہے گا کہ میری روح کو جہنم میں نہ ڈالے‘ تو اپنی چیز کو خراب ہوتے ہوئے نہ دیکھے گا‘ تو ہی مجھ کو زندگی کے طریق دکھلائے گا‘ تیرے ہی حضور میں خوشی کا کمال ہے‘ تیرے ہی دائیں طرف ہمیشہ کی خوشی ہے“۔

جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے‘ اسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی موسم ہوتا ہے۔ حالات بدلتے ہی رہتے ہیں‘ حالات کے ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے۔ رات ہو جائے تو نیند بھی کہیں سے آ ہی جاتی ہے۔ وہ انسان کامیاب ہوتا ہے جس نے ابتلاء کی تاریکیوں میں امید کا چراغ روشن رکھا۔ امید اس خوشی کا نام ہے جس کے انتظار میں غم کے ایّام کٹ جاتے ہیں۔ امید کسی واقعہ کا نام نہیں‘ یہ مزاج کی ایک حالت ہے۔ فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے۔ (واصف علی واصف)

Advertisements
julia rana solicitors

امید زندگی ہے جبکہ اس کے برعکس نا امیدی موت ہے‘ امید زندگی میں آگے بڑھنے کا نام ہے‘ امید روشنی کی ایک کرن ہے‘ امید اپنی پہلی کوشش میں سب کچھ ہارنے کے باوجود دوبارہ کوشش کرنے کی وجہ ہے‘ زندگی میں بار بار ہارنے کے باوجود جیتنے کی خواہش رکھنا امید ہے‘ ہمیں اپنی زندگی کی ایک سانس کا بھی یقین نہیں پھر بھی امید ہی کی وجہ سے ہم اپنے مستقبل کے پروگرام بنا کر رکھتے ہیں‘ امید ہی ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
؎ آئے گا اک دن مرے اڑنے کا موسم آئے گا
بس اسی امید پر میں اپنے بال و پر میں ہوں (ظفر کلیم)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply