گریٹا تھن برگ۔۔محمد اسد شاہ

شمالی یورپ میں فن لینڈ، ڈنمارک ، ناروے ، آئس لینڈ اور سویڈن پر مشتمل علاقے کو سکینڈے نیویا کہا جاتا ہے – یہ ممالک بہت مضبوط تاریخی ، ثقافتی اور لسانی بندھنوں میں جڑے ہیں – ان ممالک میں شامل سویڈن ہزاروں جھیلوں ، جزائر ، بہت دور تک پھیلے ساحلی جنگلات ، برف پوش پہاڑوں اور گلیشیئرز کی سرزمین ہے – اس کے مشرقی دارالحکومت سٹاک ہوم اور گوتھن برگ سمیت تمام بڑے شہر ساحلوں کے ساتھ آباد ہیں –

سٹاک ہوم کے رہنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا شہر سکینڈے نیویا کے پانچوں ممالک کا سب بڑا دارالحکومت ہے – چودہ جزائر پر پھیلا یہ شہر عجائب گھروں ، تاریخی اور رومان پرور محلات ، عیاشی کے تمام سامان سے بھرپور مہنگے ترین (ٹاپ شیلف) ریستورانوں ، مے کدوں ، تھیٹرز ، موسیقی سے گونجتی شاموں اور جاگتی راتوں سے پہچانا جاتا ہے – سٹاک ہوم کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ہر مذہب اور ہر سوچ کے لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں – اسی شہر میں ایک ٹی وی اداکار سوانتے تھن برگ اور ان کی اہلیہ اوپیرا مغنیہ میلینا ارنمین کے ہاں 3 جنوری 2003 کو وہ لڑکی پیدا ہوئی جس نے آج دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کو مسحور کر رکھا ہے – والدین نے اس لڑکی کا نام “گریٹا ٹنٹن ایلیونورا ارنمین تھن برگ” رکھا – اس کے والدین کی طرح ، اس کے دادا اولوف تھن برگ کا تعلق بھی شو بزنس سے ہے جو ایک عرصہ تک اداکار اور ہدایت کار رہے -گریٹا تھن برگ کے خاندان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ماضی کے مشہور ماہر طبیعیات و کیمیا سوانتے اگست آرہینیس کے رشتے دار ہیں جنھوں نے گرین ہاؤس ایفیکٹ متعارف کروا کر 1903 میں سویڈن کی تاریخ کا سب سے پہلا نوبل انعام جیتا اور پھر 1905 میں نوبل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے اور 1927 میں اپنی وفات تک اسی عہدے پر کام کرتے رہے –

گریٹا تھن برگ ایک انتہائی حساس لڑکی ہے – جسمانی لحاظ سے بھی عام لڑکیوں سے نسبت زیادہ نازک ہے – سر کے بالوں کی دو چٹیا بنا کر دونوں  کندھوں پر رکھنے والی یہ 17 سالہ لڑکی 12 سال سے زیادہ کی نہیں لگتی – اس کے باوجود اس کا عزم اور ہمت عصر حاضر کے بے شمار نام ور سورماؤں سے زیادہ مضبوط ہے – اس حساس لڑکی نے 8 سال کی عمر میں پہلی بار یہ سنا کہ صنعتی انقلاب اور انسانی غیر محتاط رویوں نے دنیا کے موسموں کو کتنا خراب کر دیا ہے – اس نے یہ سنا کہ دنیا کا ٹمپریچر بڑھ رہا ہے ، گلیشیئر پگھلنے سے کن کن خوف ناک تباہیوں کا خطرہ ہے – اس حساس لڑکی نے کھانا پینا تک چھوڑ دیا – اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ تب صرف دو ماہ میں اس کا وزن تقریباً دس کلو گرام (اکیس پاؤنڈ) کم ہو گیا – بہت مشکل سے والدین نے اس کو مطمئن کیا – پھر گیارہ سال کی عمر میں جب وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی سنگینی کو مزید سمجھنے لگی تو اس نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ دنیا کی حکومتیں اس بارے میں ضرور کام کر رہی ہوں گی – اگست 2018 میں پندرہ سال کی عمر میں اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا – اس نے دیکھا کہ کوئی کچھ نہیں کر رہا – جمعہ کا دن تھا جب وہ سکول جاتے جاتے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف مڑ گئی – اس اکیلی لڑکی نے سویڈن کی پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے دیا – اس نے اپنے دونوں  ہاتھوں پر لکھا :
School strike for the climate
لوگ رک رک اس سے پوچھتے کہ کیا مسئلہ ہے – وہ انھیں بتاتی اور یوں بات میڈیا پر اور پارلیمنٹ کے اندر بھی پہنچ گئی – اس کے سکول کے دیگر بچوں کو بھی معلوم ہو گیا – وہ سب اس کے ساتھ مل گئے – پھر یوں ہوا کہ سویڈن بھر کے طلباء و طالبات سڑکوں پر آنے لگے – ہر جمعے کو ہڑتال ہونے لگی – ایک ملک گیر تحریک بن گئی جس کا نام تھا :
Fridays for future

بات سرحدوں سے نکل گئی – سکینڈے نیویا کے پانچوں ممالک کے نوجوان اس تحریک کا حصہ بن گئے – ملکوں ملکوں مظاہرے شروع ہوئے – لوگوں کی خواہش تھی کہ گریٹا تھن برگ ان سے بات کرے – وہ ہزاروں ، اور لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب کرنے لگی – اس دوران اس نے دو مختلف ممالک میں دس دس لاکھ افراد کے اجتماعات سے بھی خطاب کیا – اقوامِ متحدہ نے اسے دعوت دی –

چنانچہ  ستمبر 2019 میں اس نے موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوامِ متحدہ کی عالمی کانفرنس سے خطاب کیا ، جہاں دنیا بھر کے صدور اور وزرائے اعظم اس کے سامنے سامعین بن کے بیٹھے تھے – اسی سال دسمبر میں اس نے میڈرڈ (سپین) میں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کیا – کانگریس ہال واشنگٹن میں بھی اس نے خطاب کیا – لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے اس نے ورجینیا سے پرتگال تک کا سفر اٹلانٹک اوشن میں ایک کشتی کے ذریعے کیا – اس سفر میں اس کے والد اور چند رضا کار اس کے ہم راہ تھے – صحافیوں کے پوچھنے پر 16 سالہ لڑکی نے کہا؛ “میں اپنے پوتوں اور نواسوں کو بتاؤں گی کہ ہم نے آپ کے لیے ، اور مستقبل کی نسلوں کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ہم کر سکتے تھے –

” صرف 2019 کے دوران مختلف ممالک اور عالمی تنظیموں کی طرف سے اس پر جتنے انعامات اور اعزازات نچھاور کیے گیے ہیں، ان کی فہرست اتنی طویل ہے کہ میرا یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا – مختصراً یہ کہ کئی حکومتیں اور پارلیمنٹیرینز اس کا نام نوبیل انعام تک کے لیے تجویز کر چکے ہیں – ابھی گریٹا کا سفر شروع ہوا ہے – عالمی طاقتوں کے حکمران اس سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہیں – اس کی جدوجہد کا ابتدائی ثمر ہے کہ اب اقوامِ متحدہ کے تحت ساٹھ سے زیادہ ممالک ایک معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں کہ وہ 2050 تک بتدریج کاربن فٹ پرنٹ کا استعمال زیرو کر دیں گے – اب امریکہ میں صدارتی امیدوار موسموں کے لیے کام کرنے کے وعدے کر رہے ہیں – دنیا بھر کا نصف کوئلہ صرف چین میں جلتا تھا ، لیکن اب چین میں 45 فی صد کاریں اور 99 فی صد بسیں برقی توانائی پر چلنے لگی ہیں –

Advertisements
julia rana solicitors

عرض یہ ہے کہ اگر آپ کی نیت صاف ہو تو آپ 16 سال کی عمر میں بھی دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں – لیکن اگر آپ صرف اقتدار کی ہوس میں مبتلاء ہیں تو 70 سال کے ہو کر بھی آپ تبدیلی کی بجائے صرف مایوسی پھیلاتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply