لبیک یا حسین (ع) ۔۔۔ شجر نقوی

قصّۂِ آدم و ابلیس ہابیل و قابیل ابراہیم و نمرود موسٰی و فرعون قُران میں اس واسطے بیان نہیں ہوئے کہ ان سارے مظلوموں پر رونے اور ان سارے ظالموں پر لعن طعن کرنے سے ہم جنّت کے حقدار ہو جائیں گے۔ مظلوم سے محبّت اور ظالم سے نفرت تو ایک فطری عمل ہے۔ جو انسان ہے اور جس میں انسانیّت ہے عقل و شعور ہے اسے مظلوم سے محبّت کرنا نہیں پڑتی  انہیں محبّت ہوتی ہے اور ظالموں سے نفرت کرنا نہین پڑتی انہیں ظالموں سے نفرت ہوتی ہے۔ سوا لاکھ کے قریب انبیاء میں سے صرف چند انبیاء کے خاص خاص واقعات کا قُرآن میں تزکرہ ہونا اسلیئے ضروری تھا کہ اُن کے کردار کو مثال کے طور پر بیان کرکے انسانوں کی راہنمائی کی جائے، باقی تمام انبیاء کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی واقعات پیش آتے رہے تھے اس لیے سب انبیاء کا تزکرہ کرنا ضروری نہیں تھا۔ اگر صرف ہر نیک ادمی کے قصیدے پڑھنا اور ان کے مخالفین پر لعن طعن کرنا ہی اصل مقصد ہوتا تو کم از کم ہر پیغمبر کا نام اور اُن کے دشمنوں کے نام بھی قرآن میں ضرور لکھے جاتے تاکہ ہر دشمن پر نام لے لے کر لعنتیں کی جاتیں اور ہر پیغمبر ع کے قصیدے پڑھے جاتے اور بس ہم اپنی مختصر سی زندگی میں یہی اعمال کرتے رہتے اور سیدھے جنّت میں پہنچ جاتے۔ مــــگــــر اللّٰہ نے ایسا نہیں چاہا اللّٰہ نے ہم سے جو اعمال چاہے ہیں ان میں ہماری راہنمائی کے لیئے جو واقعات بیان کرنا ضروری تھے وہ اللّٰہ نے قُرآن میں بیان فرما دیے اسی طرح امام حسین کا کردار اور ظالم یزید کے کردار اور پورا سانحہ کربلا ہماری راہنمائی کے لیئے بہت بڑا سرمایہ ہے اگر ہم واقعاََ کربلا سے راہنمائی لیتے تو یقیناََ حسین علیہ السلام کا کردار مسلمان حکمرانوں کو سیدھے راستے پہ چلنے پہ مجبور کر دیتا اور کبھی بھی کوئی حکمران اللّٰہ و رسُول ص کے حکم کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکتا کیونکہ حسین ع نے اطيعو الله و اطيعو الرسول و اولي الامر منكم فان تنازعتم في شئِِ فردوه الي الله و الرسول والی آیت پر مکمّل طور پر عمل کر کے دکھایا ہے اور امام حسین ع کا یہ کارنامہ قیامت تک ایک بے مثل راہنمائ ہے جسے بد قسمتی سے ہم نے خود متنازعہ بنا کر رکھ دیا ہے اور اتنی بڑی راہنمائی سے دور ہو کر صرف رونے ماتم کرنے اور مخالفین پر لعن طعن کرنے تک محدود کر دیا ہے۔
جو کردار امام حسین ع نے ادا کیا ہے اس کا عظیم صلہ میرے عظیم ربّ نے عطا کرنا ہے ہمارے رونے اور ماتم کرنے سے امام حسین کے مقام میں یا ان کے صلے میں کچھ اضافہ نہیں ھو سکتا ہمارا رونا اور ماتم اور ظالموں پہ لعنت ہماری امام سے محبّت کی علامت تو ہے مگر ہماری بخشش سیرتِ حسین سے مشروط ہے قاتلوں پر لعنتیں کرنے سے ان کے عذاب میں ہم کوئی اضافہ نہیں کروا سکتے وہ اللّٰہ کی پکڑ میں وہ کسی صورت بچ نہیں سکتے ان سے نفرت بھی ہمیں جنّت میں نہیں لے جا سکتی جب تک کہ ہم خود ان کے کردار سے دور نہ رہیں اس کردار سے خود نہ بچیں صرف رونا اور ماتم کرنا کافی نہیں جب تک عملِ حسینی بھی ساتھ نہ ہو۔
آئیے اس عشرہ محرم میں رونے اور ماتم کے ساتھ ساتھ ہم یہ پُختہ عہد کریں کہ آج سے ہم اسوۂ حسینی کے پیروکار بنیں اور اُن کے دشمنوں کے کردار سے مکمل طور پر بچیں اور ہر ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنیں اور ہر مظلوم کے مددگار بنیں گے اور پھر نعرہ لگائیں

Advertisements
julia rana solicitors

لبیک یا حسین ع

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply