پاک فوج اور سی پیک کے خلاف سازش ۔۔۔ ۔ عمیر ممحمود

سائبر جرائم قانون کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ان معاملات میں بولنا کچھ عقل مندانہ روش نہیں، لیکن رزم حق و باطل ہو تو ہمارا قلم حق بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم دراصل سی پیک منصوبے کے خلاف سازش ہے۔ ایک عام سی ذہانت رکھنے والا شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے اس سازش کے تانے بانے کس ملک سے جا کر ملتے ہیں۔

پاک فوج ایک طرف تو دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، دوسری جانب سی پیک منصوبہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس دوران چند تصاویر اس الزام کے ساتھ پھیلائی جا رہی ہیں کہ موٹروے پولیس نے حد رفتار کی پابندی نہ کرنے پر پاک فوج کے دو افسران کو روکا۔ صرف پانچ سو روپے کے چالان سے بچنے کے لیے ان افسران نے موٹروے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی، فوج کی مزید مسلح نفری طلب کی جو مارتے پیٹتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو اپنے ساتھ قلعہ اٹک لے img_5934.jpg?ver=1.0گئے۔

جھوٹ اس تمام الزام سے یوں ٹپک رہا ہے جیسے برستی بارش میں مفلس کی چھت ٹپکتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پاک فوج آئین اور قانون کا احترام کرنے والا ادارہ ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والے آئین اور قانون کا احترام نہ کریں۔ دوسری بات یہ کہ پاک فوج عوام کا دفاع کرنے کی تنخواہ لیتی ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انہی عوام پر غضب کا مظاہرہ کرے۔ پاک فوج نے انیس سو پینسٹھ میں دشمن کو ناکوں چنے چبوائے اور کارگل میں اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ یہ پاک فوج ہی ہے جو ہمیں دشمن کے ناپاک عزائم سے بچائے ہوئے ہے، اور جو دوستی نبھانا بھی جانتی ہے اور دشمنی کا قرض اتارنا بھی جانتی ہے۔

لہذا اس تمام واقعے میں قصور وار موٹر وے پولیس کے وہ اہلکار ہیں جو وردی پہن کر بھیڑیے بن گئے اور معصوم فوجی جوانوں پر جھوٹا الزام لگایا۔ اس جھوٹے الزام کے بعد اگر ان کے ساتھ مار پیٹ ہو بھی گئی تو اسے جرم کی سزا سمجھنا چاہیے۔
تصاویر میں دیکھیے تو سہی ہتھیار بند فوجیوں کی آنکھوں میں کیسا عزم اور بہادری جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک جری جوان پولیس والے کو پکڑ کر لے جا رہا ہے تو دوسرا img_5933.jpg?ver=1.0سورما اس پر مکے برسا رہا ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نا سمجھ پولیس اہلکاروں نے مار پیٹ سے بھی سبق نہ سیکھا اور نالش دائر کر دی۔
پاک فوج نے ملک دشمنوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کر کے جو عزت کمائی ہے، چند پولیس اہلکاروں کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس عزت کو خاک میں ملائیں۔ یہ جو خواتین و حضرات فیس بک پر اس ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں بھی فوراً شکنجے میں لایا جائے۔ یہ ایسے دوغلے انسان ہیں کہ باتیں فوج کے خلاف کرتے ہیں اور پلاٹ لینے کے لیے ہمیشہ imageڈی ایچ اے کا انتخاب کرتے ہیں۔

لہذا ہم سفارش کریں گے کہ فوج کو بدنام کرنے والے پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ عبرت کا باعث بنیں اور آئندہ کسی فوجی کو روکنے کی جرائت نہ کریں۔ اس معاملے میں صرف انصاف ہونا کافی نہیں، انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمیر محمود ذہین آنکھوں اور شرارتی قلم سے وہ لکھتے ہیں، جو بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آتا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply