میرٹھ چھاؤنی ،کیمپ نمبر 28 میں گزارے 22 ماہ( 1)–گوہر تاج

(دسمبر ۱۹۷۱ء کی جنگ کے بعد کیمپ میں محصورایک کم عمر شہری جنگی قیدی کی ببتا)

جہاں ماہ دسمبر میں چلنے والی سرد ہوائیں آپکے وجود کو یخ بستہ کرتی ہیں، وہیں ہر سال اسی ماہ لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں میں شدید دکھ، ندامت، ہزیمت،اور تاسف کا لاوا بھی آتش فشاں کی صورت پھٹتا ہے ۔ یہ وہ آگ ہے جو اکیاون برس قبل سولہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں بھارت سے جنگ میں شکست کھانے، ملک کا ایک بازو گنوانے اور ہندوستانی فوج کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بعد سقوط ڈھاکہ کی صورت بھڑکی تھی   کہ جب پاکستان کو دولخت کرکے ایک نئی مملکت بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی گئی ۔سر جھکاۓ ، ذلت و ہزیمت کے احساس سے آغشتہ، ایک بہادر مگر نہتی فوج کا اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کردینا وہ سانحہ کہ جو آج بھی ایک تازہ زخم کی صورت رس رہا ہے ۔جانے،

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

مشرقی پاکستان کی زمین پہ ہندوستانی افواج اور مکتی باہمی سے جنگ ہارنے کے بعد پاکستانی فوج ہی پسپا نہیں ہوئی ،وہ شہری بھی زخم خوردہ ، پامال اور صدمات سے نڈھال ہوۓ کہ جو پاکستان کے جان لیوا غیر بنگالی تھے جن میں اکثریت اردو بولنے والے بہاریوں کے علاوہ ان پنجابیوں، پٹھانوں اور دوسری علاقائی زبان بولنے والوں کی تھی جو روزی کی تلاش میں مشرقی پاکستان میں ملازمتیں کر رہے تھے۔پاکستانی   فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد کُل 93 ہزار پاکستانیوں نے، جن میں 78ہزار فوجی اور 16 ہزار شہری شامل تھے، ہندوستان کی مختلف فوجی چھاؤنیوں میں محصوری کے تقریباً دو سال کاٹے۔

گو نصف صدی ایک طویل دورانیہ ہوتا ہے لیکن وہ عینی شاہد ، جنہوں نے ان خون آشام واقعات میں اپنے پیاروں کو کھویا انکی اگر جان بچ بھی گئی تو انسانی لاشوں اور کشت و خون کے مناظر نے انہیں پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر کے اثرات کے سبب ان دل خراش واقعات کو دہرانے سے قاصر رکھا۔ جس سے انہیں لگتا ہے کہ جیسے ماضی میں بیتے قتل و غارت گری کے واقعات ابھی حال ہی میں پیش آرہے ہیں۔ وہ خود کو ایکبار پھر اسی کیفیت سے گذرتا محسوس کرتے ہیں۔

آج 16دسمبر ۲۰۲۲ء کا دن ہے۔ اس دن سے ہم ایک ایسے انسان کی آپ بیتی کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں کہ جنہوں نے باوجود ان صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔

یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر اٹھائیس میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

میرا بچپن

میں اپنی زندگی کے ان 22 ماہ کی داستان سنانا چاہتا ہوں کہ جو میں نے محصوری کی حالت میں گزارے تاکہ میری زندگی کی کتاب کے اہم اوراق سقوط ڈھاکہ کی تاریخ پہ لکھی کتاب میں محفوظ ہوسکیں۔گو اس قید کے وقت میں بارہ تیرہ سال کا کمسن لڑکا تھا مگر قدرت کی مہربانی سے میری یاداشت فوٹوگرافک ہے لہٰذا آج بھی کیمپ میں گذارا وقت سوچوں تو ایک ایک واقعہ اور منظر کی تصویر اسکی پوری تفصیل کے ساتھ ذہن میں کھنچ جاتی ہے ۔

تاہم ان 22 ماہ کی قید کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے گھرانے کے پس منظر اور اپنی زندگی کا ابتدائی سالوں کا بھی احوال بیان کروں تاکہ آپ کو اندازہ ہوکہ میرے بچپن کی آزاد اور خوشگوار فضا کیسی تھی۔

باوجود اسکے کہ میرا تعلق مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش، کے بہاری اردو بولنے والے گھرانے سے ہے، میری پیدائش کراچی کی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ میرا پورا ننھیال کراچی میں مقیم تھا اور ددھیال مشرقی پاکستان میں۔ میری ماں اپنے پانچ بھائیوں کی اکلوتی اور چہیتی بہن تھیں جو ہر سال اپنے میکے جاتیں۔ میری پیدائش کے موقع پہ بھی وہ کراچی میں ماموں کے گھر تھیں۔ اسطرح اکتوبر ۱۹۵۹ء میں میری پیدائش خزاں کے موسم میں بہار کی نوید لائی ۔ مجھ سے چار سال بڑا ایک بھائی تھا ۔ جبکہ باقی پانچ بہن بھائی میرے بعد پیدا ہوۓ۔ میری چھ ماہ کی عمر میں ہم سب کی ڈھاکہ اپنے گھر واپسی ہوئی۔

ہمارا گھر صدر گھاٹ، ڈھاکہ میں نارتھ بروک ہال روڈ پہ واقع تھا۔ دو منزلہ گھر میں ہم سات بہن بھائیوں اور والدین کے علاوہ ہمارے دو چچا اور ایک تایا کے کنبے بھی بستے تھے۔ چونکہ گھر بڑا اور اس میں گیارہ خوابگاہیں تھیں لہٰذا جگہ کی تنگی کا کوئی  مسئلہ نہ تھا۔ یہ گھر والد صاحب کا تھا مگر انہوں نے اپنی خوشی سے اپنے کنبہ کو ساتھ رکھا ۔

والد صاحب ایک پرائیوٹ کمپنی میں بحیثیت اکاؤنٹنٹ کام کرتے تھے۔ جبکہ والدہ گھریلو خاتون تھیں جن کی ذمہ داری ہم بہن بھائیوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال تھی۔ ہمارے والد جنہیں ہم “ابی” پکارتے تھے ،اپنی ملازمت کے سبب خاصے مصروف رہتے ۔ مگر انکی توجہ اولادوں پہ بھرپور تھی۔ مغرب کے بعد وہ ہمیں انگریزی پڑھاتے اور ہوم ورک دیکھتے۔وہ نرم مزاج آدمی تھے جبکہ انکے مقابلے میں میری ماں بہت مضبوط اعصاب کی نسبتاً رعب دار خاتون تھیں۔جو اتنے بچوں کو سنبھالنے کے لیے ضروری بھی تھا۔

میں فطرتاً  شریر بچہ تھا جس کا متجسس ذہن ہر وقت کسی نہ کسی شرارت میں اُلجھا رہتا۔ میں یہ شرارتیں اپنے سے دس ماہ چھوٹے چچا زاد بھائی  سرور کے ساتھ مل کر کرتا۔جو ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ایسی ہی ایک شرارتی حرکت میں ایک دفعہ تو جان کے لالے پڑ گئے  تھے۔ میری عمر چھ سال کی رہی ہوگی جب ہم دونوں نے اپنے پورے چہروں کو چپکنے والی ٹرانسپیرنٹ پلاسٹک سے ڈھانک لیا۔ جس نے ناک میں ہوا جانے کا راستہ بند کر دیا جس کے سبب ہم دونوں کا دم گھٹنے لگا ۔ امی نے دیکھا تو دونوں کو اس حالت سے بچایا اس طرح ہماری جان میں جان آئی ۔

میرا داخلہ ۱۹۶۴ء میں ، چھ برس کی عمر میں قریب کے اسکول ڈورا کنڈرگارٹن میں ہوا۔ سفید قمیض، نیلی پینٹ اور سرخ ٹائ سرور اور میں پنے گھریلو بنگالی ملازمین کی انگلی پکڑے اسکول جاتے۔ اسطرح سرور میرا کزن ہی نہیں بلکہ کلاس فیلو اور دوست بھی تھا۔

بچپن کی سب سے اہم یاد پاکستان انڈیا کی پینسٹھ کی جنگ تھی۔شہریوں کی حفاظت کے لیے کھدی خندقیں، خطرہ کے سائرن کا بجنا، ، بلیک آؤٹ کی تاریکی، اور فائر فائڑز جہازوں کا تیز آوازوں کے ساتھ فضا میں شوں سے اُڑتے ہوئے گزرنا۔ یہ وہ آوازیں اور مناظر ہیں جو چھ برس کی عمر میں میری یاداشت کا انمٹ حصہ بنے۔

۱۹۶۷ء تک میں نے انگریزی میڈیم تک پڑھا پھر اسکے بعد عزیزیہ ہائی  اسکول میں چھٹی جماعت میں داخل کرا دیا گیا۔جہاں تمام مضمون تو انگریزی میں ہوتے مگر ساتھ ہی اردو بطور اختیاری زبان پڑھائی  جاتی۔ جبکہ اسکول کے بنگالی طلبہ بنگلہ زبان پڑھتے۔ ہم روانی سے بنگلہ بولتے کیونکہ کاروباری اداروں اور عام لوگوں اور دوستوں سے رابطہ کی یہی زبان تھی۔

وہ ریڈیو کا دور تھا۔ ابّا ۱۹۶۴ء میں بڑا سا مرفی ریڈیو لاۓ تھے۔جس میں کان لگا کے پورا گھرانہ اردو ڈرامہ سنا کرتا۔پھر ہمارے گھر ٹی وی ۱۹۶۷ء میں آیا مگر اسوقت ہمیں صرف کارٹون دیکھنے ہی کی اجازت تھی۔گھر میں اردو ماہنامہ رسالہ ہمدرد نونہال باقاعدگی سے آتا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں نو برس کی عمر میں اس رسالے میں میری کہانی تصویر کے ساتھ چھپی تھی۔

باوجود اسکے کہ ہم اپنے گھر میں اردو بولتے، ہمارے گھر کے ماحول میں آزاد خیالی اور مذہبی و لسانی روا داری تھی۔ جب ہم کے جی کی سطح پہ تھے تو گھر میں ہمیں کے پی شرما ٹیوشن پڑھانے آتے تھے۔ جو ہندو بنگالی تھے۔ ساتویں آٹھویں جماعت میں اردو کے استاد کا نام عبدالرحیم تھا۔ انہیں ہماری طرح اسپورٹس کا شوق تھا۔ انکے پاس ڈھاکہ اسٹیڈیم میں ہونے والے فٹبال کے سیزن کے پاس ہوتے تھے ۔ وہ اسکول کے بعد نا  صرف ہمیں ساتھ لے جاتے بلکہ مشہور دہلی مسلم ہوٹل لے جاتے جہاں ہم وہاں کی مشہور لسی پیتے ہوۓ گھر واپس آتے۔ اس ذائقہ کی لسی کسی اور جگہ نہیں ملتی تھی۔

مذہب اور زبان کی تخصیص کے بغیر ہم اپنے کزنز اور محلے کے دوستوں کے ساتھ ہاکی، فٹبال ، بیڈمنٹن اور کرکٹ وغیرہ کے علاوہ کیرم اور لیڈو جیسے بورڈ گیمز بھی اپنے گھر کی چھت پہ ہی کھیلتے تھے۔جو خاصی کشادہ تھی۔ یہیں پہ ہم بچوں نے ملکر اسٹیج ڈرامہ “ سلطانہ ڈاکو” کا بھی اہتمام کیا۔

ہمارے محلے میں مخلوط قسم کے بنگالی بولنے والے معاشی طور پہ خوشحال گھرانے بستے تھے ۔ گھر کے بائیں جانب ایک مسلمان گھرانا جبکہ سامنے بنگالی بولنے والا ہندو خاندان تھا۔مشہور فلمساز اور شاعر سرور بارہ بنکوی بھی ہمارے گھر کے سامنے رہا کرتے تھے۔جنہوں نے”آخری اسٹیشن” اور “تم میرے ہو” جیسی کامیاب فلمیں ڈائریکٹ کیں۔برسات کا زور تو تھا لیکن ہمارے علاقے میں لگاتار موسلادھار دھار بارش کے باوجود کبھی بھی پانی نہیں کھڑا ہوتا تھا جو غریبوں کے محلے میں سیلاب کی صورت تباہی لاتا تھا۔

میری زندگی کی پہلی فلم ۱۹۶۴ء میں دلیپ کمار کی دیدار تھی۔ اور دوسری “داغ” مگر پھر دونوں ملکوں کی جنگ کے بعد ان کے درمیان فلموں کی آمد کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔لیکن مغربی اور مشرقی پاکستان میں بننے والی فلمیں تو دیکھتے ہی تھے ۔ “ابی” جہاں بطور اکاؤنٹنٹ کام کرتے تھے انکے چار سینما ہال تھے۔ لہٰذا ہم ساری فلمیں مفت میں باکس آفس میں دیکھتے ۔ آگ ، انسان اور آدمی، چکوری، چھوٹے صاحب ، دوراھا، دیور بھابی اور “سات بھائ چمپا” جیسی یادگار فلمیں دیکھیں۔مغربی پاکستان کی فلموں کا اسٹائل اور مناظر مغربی پاکستان کی فلموں سے واضح طور پہ الگ ہوتا تھا۔

مشرقی پاکستان میں بنی فلموں مثلا” چکوری “ کا حسن ہی کچھ اور تھا۔سادہ مگر دلکش قدرتی مناظر، ساون کی بوچھاڑ، زمین پہ بچھی مخملیں سبزہ کی چادر، کیلے اور ناریل کے لمبے درخت، کوئل کی کو ہو،اور پھر کشتی میں دریا کی لہروں کے مخالف چپو چلاتے ہیرو ہیروین اور انکے دل کو چھوتی بنگلہ میٹھی دھنوں کے رومانوی گیت ۔

ان فلموں کا حسن سحر طاری کرتا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ جلد ہی ہمیں ان حقیقی مناظر کو دیکھنا ہوگا جن میں نہ قدرتی حسن ہے اور نہ رومانس۔ لسانیت کی بنیاد پہ بنگالی اور غیر بنگالیوں کے بیچ نفاق اور بغض کا بیج جو اندر ہی اندر پنپ رہا تھا جلد ایک تناور شجر بننے کو تیار ہے۔ اور انسانی رویوں کی بدصورتی نقاب اٹھانے کو ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply