ادارہ یا جاگیر۔۔مرزا مدثر نواز

ہم ایک خود پسند و خود پرست قوم ہیں جو اپنے فیصلوں میں کسی کی رائے پر نظر ثانی کی سوچ کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیتے‘ ساری زندگی ”میں“ کو لے َ کر گزار دیتے ہیں‘ مشورے اور سب کی رائے سے کسی بھی مسئلے کے حل کو اپنی توہین گردانتے ہیں‘ اپنے آپ کو عقل کل‘ برترو برہمن اور دوسرے کو بے عقل‘ نیچ و شودر خیال کرتے ہیں‘ ہر معاملے میں ون مین شو کو پسند کرتے ہیں‘ مرتے دم تک اپنے اختیارات کسی دوسرے کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور کرسی سے چمٹے رہتے ہیں‘ میرے بغیر یہ ادارہ‘ تنظیم‘ سوسائٹی‘ گھر نہیں چل پائے گا جیسی سوچ کے نرغے میں پھنسے رہتے ہیں۔
ہزاروں سالوں تک یہ دنیا مکمل طور پر بادشاہی نظام کے زیر سایہ رہی جو سرا سر غیر منصفانہ‘ ظالمانہ اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نظام حکومت ہے جسمیں لاکھ غلطیوں‘ کوتاہیوں‘ نالائقیوں‘ عیبوں کے باوجود بادشاہ سلامت پر تنقید نہیں کی جاسکتی‘ اگر کسی نے لب کشائی کی ہمت کی تو سر تن سے جدا سمجھا جائے‘ کچھ خاندان اعلیٰ و برتر جبکہ باقی رعایا غلام تصور کی جاتی ہے۔ مفادات کی دلدل میں پھنسے اور مستقبل کے خوف میں مبتلا درباریوں نے ہمیشہ خاندانی غلامی کو ترجیح دیتے ہوئے قابلیت و لیاقت سے عاری شہزادوں کے سر پر تاج رکھے جن میں سے بعض کی عمر پانچ سال سے بھی کم ہوتی۔ نظام حکومت سال ہا سال ایک مخصوص خاندان ہی کے تابع رہتا تاوقتیکہ کوئی بیرونی حملہ آور ان سے بزور شمشیر سلطنت چھین لیتا یا محلاتی سازشیں کامیاب ہو جاتیں یا پھر کوئی درباری اپنے سر میں اقتدار کا سودا سمانے کے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کی کوشش کرتا۔ کیسا ظالمانہ نظام ہے جس میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے کبھی کبھار اپنے باپ‘ بھائیوں‘ بہنوں‘ بھتیجوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی گردنیں اڑانی پڑتیں ہیں‘ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس میں اقرباء کا قتل‘ قید یا پھر ان کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلائیاں پھیر کر انہیں آزادی دے دی جاتی تھی۔
وقت نے پلٹا کھایا‘ دنیا کچھ تہذیب یافتہ ہونے لگی‘ انسانی حقوق جیسے الفاظ کا نام سنا جانے لگا‘ بادشاہت کے خلاف دلوں میں نفرت بڑھنے لگی اور یہ دنیا ایک نئے نظام حکومت سے متعارف ہوئی‘ جسے جمہوریت (عوام کی منتخب کردہ‘ عوام کی اور عوام کے لیے حکومت) کہتے ہیں۔ یہاں ہم جمہوریت‘ مغربی جمہوریت یا یہودی نظامِ حکومت کے درست و غلط‘ جائز و ناجائز ہونے کو زیر بحث نہیں لائیں گے۔ مغرب میں جمہوری حکومتیں پنپنے لگیں‘ ترقی ہوئی‘ عوام کو حقوق ملے اور لوگوں کی اکثریت کی رائے کو اہمیت ملنے لگی۔ سیاسی جماعتوں میں لوگ جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر مختلف عہدوں تک پہنچتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خدمات سر انجام دیتے ہیں‘ کوئی بھی جمہوری سیاسی جماعت خاندانی تسلط سے آزاد ہوتی ہے‘ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرتا ہے اور آگے روانہ ہو جاتا ہے۔ ان جماعتوں میں اگر جمہوری طریقے و قواعد و ضوابط سے کلنٹن کے بعد ہیلری کلنٹن‘ بش سینئر کے بعد بش جونیئر سربراہ بن جائے تو یہ قابل اعتراض نہیں کیونکہ انہوں نے ایک طریقہ کار کی پیروی کی نہ کہ تمام قواعد کو روندتے ہوئے بلا واسطہ سربراہی کا تاج ان کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سیاسی جماعتیں کسی کی جاگیر نہیں بلکہ ایک ادارے کی طرح ہوتی ہیں جس میں مختلف سربراہان اور کارکن ایک مخصوص دورانیے کے لیے اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
جمہوریت کی طرف منتقل ہوتی دنیا کے نقشے پر پھر ایک انہونی ہوتی ہے‘ رنگ و نسل‘ علاقیت و لسانیت سے قطع نظر ایک نظریے کے تحت مملکت پاکستان وجود میں آتی ہے۔ جمہوریت ابھی پنپنے کے مراحل میں ہی ہوتی ہے کہ آمریت کے سائے منڈلانے لگتے ہیں اور پھر یہ سائے مکمل طور پر چار دفعہ منڈلاتے ہیں۔ ہماری آمرانہ سوچ نے ملک کو دو لخت کیا اور کئی علاقوں میں نفرت کے بیج بوئے جن سے پروان چڑھنے والی فصل آج بھی تلف نہیں ہو سکی۔ ہر دفعہ آمریت پسند قوم نے آمریت کو خوش آمدید کہا اور مٹھائیاں بانٹیں‘ جمہوریت پسند کہلانے والے سیاسی لوگ ہمیشہ آمریت کی گود میں بیٹھے اور پھر آمریت کی کوکھ سے ان سیاسی جماعتوں نے جنم لیا جو آج خود بطور پارٹی آمریت کی زندہ مثال ہیں‘ جو صرف نام کی جمہوری لیکن حقیقت میں گھرانہ و خاندانی جماعتیں ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں ملوکیت زدہ ہیں ماسوائے جماعت اسلامی‘ کوئی شخصی‘ کوئی گھرانہ تو کوئی خاندانی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان جماعتوں کے قائدین نے ان کو اپنی جاگیر بنایا اور سمجھا نہ کہ انہیں ادارہ بنانے کی سعی کی۔ میرے نقطہ نظر سے موروثی سیاسی جماعتوں کے تحت بننے والی حکومتیں جمہوری نہیں بلکہ ملوکیت کی ہی ایک جدید قسم ہے۔ آج پاکستان کے سینئر سیاستدانوں و کارکنان کو جب جماعت کی کمان سنبھالنے والے نئے شہزادے و شہزادیوں کے سامنے سر جھکائے و ہاتھ باندھے دیکھا جاتا ہے تو کم از کم مجھے تو بہت دکھ ہو تا ہے۔ سینئر سیاستدان و کارکنان کوئی ان پڑھ و جاہل نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ باقی رہی میرے جیسے سادہ و کم تعلیم یافتہ عوام کی بات‘ انہیں تو یہ بات سمجھنے میں کافی وقت درکار ہو گا کہ اداروں کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں‘ وہ بھی کسی قانون کے تابع ہیں اور ان کا کام اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بلندیاں حاصل کرنا ہے نہ کہ دوسروں کے کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینا۔ ہر ایک کو آئین میں وضع کردہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے اس مملکت پاکستان کو جدید اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply