چیئرمین نیب کی معذولی لازم ہے۔۔۔محمد مشتاق

ہوسکتا ہے کہ چیئرمین نیب کے متعلق آڈیو اور وڈیو میں ڈاکٹرنگ ہوئی ہو۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ ہوئی ہو۔
اس دوسری صورت میں وہ سنگین اخلاقی اور قانونی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور وہ اس آئینی و قانونی عہدے پر برقرار رہنے کے اہل نہیں رہے۔ نیب آرڈی نینس کی دفعہ 6 کے تحت چیئرمین نیب کی برطرفی کےلیے وہی اسباب ہوسکتے ہیں جو سپریم کورٹ کے جج کی برطرفی کےلیے ہیں: یعنی کردار یا رویے میں سنگین مسئلہ (gross misconduct) یا فرائض سرانجام دینے کےلیے درکار صلاحیت کا نہ ہونا(incapacity)۔ جو کچھ اس آڈیو اور وڈیو کے ذریعے سامنے آیا ہے اگر وہ گراس مس کنڈکٹ نہیں ہے تو پھر کوئی بھی چیز کبھی بھی گراس مس کنڈکٹ میں شمار نہیں ہوسکتی۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس قانون میں کہیں یہ ضروری قرار نہیں دیا گیا کہ انھیں ہٹانے کےلیے فورم بھی وہی ہوگا جو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کےلیے ہے ، یعنی سپریم جیوڈیشل کونسل۔ اس لیے قانون کے عمومی اصول کی رو سے جس اتھارٹی کے پاس تعیناتی کا اختیار ہے اس کے پاس معذولی کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ چیئرمین نیب کی تعیناتی وزیراعظم کے مشورے پر صدر کرتا ہے۔ اس لیے معذولی کا راستہ بھی یہی ہے۔ تاہم اگر کسی کی راے میں سپریم جیوڈیشل کونسل کا فورم ضروری ہے تو وہاں کوئی بھی شہری ریفرنس دائر کرسکتا ہے۔ اس لیے اولین فرصت میں وہاں ریفرنس دائر کرنا چاہیے۔
جی ہاں، مجھے ان کے متعلق ایک فی صد بھی خوش گمانی نہیں ہے کہ وہ باعزت طریقے سے استعفٰی دے کر الگ ہوجائیں گے، نہ ہی ان کے متعلق ایک فی صد بھی یہ بدگمانی ہے کہ وہ بے عزت طریقے سے خود کشی کرلیں گے۔ لاپتہ افراد کے متعلق ان کے بے حسی پر مبنی رویے نے سالہا سال قبل ان کے متعلق ہر طرح کے حسن ظن سے محروم کردیا ہے۔
یہ بھی نوٹ کرلیں کہ چیئرمین نیب خواہ خود اخلاقی سطح سے کتنے ہی گرے ہوئے ہوں، ان کی وڈیو اور آڈیو بنانا بذات خود سنگین اخلاقی اور قانونی جرائم میں شامل ہے۔ اس بنیاد پر بھی ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔ معاملہ نیب کے چیئرمین کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اب تک چیئرمین نیب یا اس خاتون یا اس کے شوہر کے خلاف متعلقہ فوجداری قوانین کے تحت کارروائی کی بات کیوں نہیں ہوئی اور بات صرف نیب آرڈی نینس کے تحت ایف آئی آر تک کیوں محدود رہی ہے؟ کیا اس آڈیو اور وڈیو میں کی گئی حرکات “قابلِ دست اندازیِ پولیس” نہیں ہیں؟
اسی طرح اس وڈیو یا آڈیو کی نشر و اشاعت بھی سنگین اخلاقی اور قانونی جرم ہے جو قابلِ دست اندازیِ پولیس بھی ہے۔ اسے right to information کے ڈھکوسلے یا لولی لنگڑی معذرت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ متعلقہ چینل اور افراد کے خلاف بھی پیمرا اور دیگر قوانین کے تحت کارروائی ضروری ہے۔
پاکستان کےموجودہ چیف جسٹس سوموٹو اختیار کے استعمال کو انتہائی محدود دائرے میں رکھنے کے قائل ہیں لیکن کیا یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ اس معاملے میں انھیں اپنا چپ کا روزہ توڑنے پر غور کرنا چاہیے؟
سوشل میڈیا پر اس سانحے کے (جی ہاں یہ قومی سانحہ ہے) سنگین عواقب پر بات کرنے کے بجاے جس طرح جگت بازی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اس نے ہماری اجتماعی اخلاقی حالت کی بالکل درست حالت ہمیں آشکارا کرکے دکھادی ہے۔ مجھ جیسے ہمیشہ کے رجائیت پسند کو بھی دو دن سے شدید مایوسی نے گھیر رکھا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply