اقبال کی منزل/خرم علی شفیق-تبصرہ/راجہ قاسم محمود(1)

خرم علی شفیق صاحب ماہر اقبالیات ہیں۔وہ اقبال اکادمی سے بھی وابستہ رہے۔ علامہ اقبال کی سوانح کے حوالے سے انہوں نے پانچ جلدوں پر کام کا منصوبہ بنایا جس کی تین جلدیں شائع ہو گئیں  مگر اس دوران ان کے ہاں ایک تبدیلی آئی ،جب انہوں نے محسوس کیا کہ اقبالیات کے اکثر مآخذ نظر ثانی کے محتاج ہیں تو انہوں نے اپنے ہی کام کو بھی اس ہی صورت میں نظر ثانی سے گزارا اور علامہ اقبال کی سوانح کے حوالے سے ایک نئی سیریز شروع کی جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہو گی۔ “اقبال کی منزل” اس سلسلے کی تیسری جلد ہے جو پہلی دو جلدوں سے قبل شائع ہوئی ہے۔ اس میں اقبال کی ۱۹۲۷ سے لیکر ۱۹۴۶ تک کی زندگی کے احوال رقم ہیں۔

دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی وفات ۱۹۳۸ میں ہوئی تو اس کتاب کا عرصہ اگلے آٹھ سال تک کیسے  پھیل گیا؟

دراصل تخلیق پاکستان کے ساتھ اقبال کا گہرا تعلق ہے تو اس لیے مصنف نے مزید آٹھ سال کا ذکر کیا ہے۔ جب پاکستان کا بننا ٹھہر گیا تو گویا یہ ہی اقبال کی منزل تھی۔ اس ہی کی نسبت سے غالباً خرم صاحب نے کتاب کا یہ نام رکھا اور زمانے کو آگے لے جانے کی بھی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ آٹھ سو صفحات سے زائد اس کتاب کو رائٹ وژن پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

کتاب کے آغاز میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اقبال کی پہلی مستند سوانح ہے۔ مستند سے مراد یہ واحد سوانح ہے جس کو لکھتے ہوئے دستاویزی ثبوت کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس سے قبل جو اقبال کی سوانح لکھی گئیں ان میں کئی زبانی باتیں ہیں جن کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ مصنف نے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے جو زبانی روایات سے مروی ہیں مگر وہ دستاویزات سے میل نہیں کھاتے۔ اس میں ترانہ ہندی ، جاوید منزل کی ملکیت ، آرنلڈ کی وفات پر اقبال کی تعزیت ، گورنمنٹ کالج میں فلسفے کا پروفیسر مقرر ہونا سمیت کچھ واقعات کا ذکر کیا ہے جو کہ دستاویزات سے میل نہیں کھاتے۔

خرم علی شفیق نے اپنی لکھی ہوئی کتابوں کی بھی اس کمزوری کا  ذکر کیا ہے کہ اس میں زبانی روایات کو نقل کیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے از خود ہی یہ دوسری سیریز شروع کی۔ جہاں تک مصنف کا دعویٰ واحد مستند سوانح کا ہے تو اس پر میں کوئی رائے نہیں   دے سکتا کیونکہ میں نے اس کتاب سے قبل علامہ اقبال کی کوئی سوانح نہیں پڑھی جو تقابلی جائزہ لے کر مصنف کے دعویٰ کی تصدیق یا تردید کر سکوں ،اس پر ماہرین اقبال کو اپنی رائے دینی چاہیے مگر بطور ایک عام قاری کے  یہ چیز محسوس کی ہے کہ مصنف نے دستاویزات میں اس وقت کے اخبارات کے علاوہ پہلے لکھی گئیں سوانح حیات سے استفادہ کیا ہے اور محض چند جزوی واقعات کہ کوئی نئی چیز جو پہلے کی سوانح عمریوں میں نہیں پائی جاتی کو ذکر نہیں کیا۔ ایسا نہیں کہ مصنف کی کاوش لاحاصل ہے انہوں نے انتہائی محنت سے اس وقت کے اخبارات اور دیگر دستاویزات کا جائزہ لیا ہے اور ہر واقعے کا دستاویزی ثبوت پیش کیا ہے مگر ہمیں کوئی ایسی بڑی اور اہم بات نہیں ملتی جو پہلے کے سوانح نگاروں نے ذکر نہ کی ہو۔ ہاں کئی جگہ مصنف نے باقی سوانح کی مندرجات پر بہت عمدہ نقد کیا ہے جو کہ بہت اہم ہے جس سے اس کتاب کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔

خرم صاحب نے اس کتاب کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ان ابواب کی تقسیم اور ان کے نام رکھنے کی وجوہات اور طریقہ کار کیا ہے۔ اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ مثلاً ابواب کے نام ‘معرفت کی وادی’ ‘اجتہاد کا دروازہ’ ‘خدا کا شہر’ ‘مرغدین’ ‘درندوں کی بستی’ ‘جبرائیل کا نشیمن’ ‘اقبال کا گھر’ ‘جنگ کا میدان’ ‘سورج کی سرزمین’ ‘بارگاہ رسالت’ ‘اورنگزیب کی مسجد’ اور ‘منزل مراد’ ہے۔ ان میں سے اورنگزیب کی مسجد والے باب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ کی تدفین بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہوئی اور اس باب میں علامہ کے آخری ایام اور وفات کا ذکر ہے تو یہ نام دیا گیا ہے۔ جبکہ منزل مراد میں علامہ اقبال کی وفات کے بعد والے آٹھ سالوں تخلیق پاکستان میں جو مراحل آئے ان کا ذکر ہے جو کہ فکر اقبال کی منزل مراد تھی تو یہ نام دیا گیا ہے۔ لیکن باقی ابواب کے نام کا سبب معلوم نہیں ہوتا۔ ایسے ہی ہر باب کے اندر مصنف نے نمبرنگ کی ہوئی ہے بطور قاری مجھے اس تقسیم اور نمبرنگ کی سمجھ نہیں آئی۔

میں نے محسوس کیا کہ یہ کتاب خصوصی طور پر ماہرین اقبالیات کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ چونکہ یہ اقبال کی زندگی کے آخری گیارہ سال سے متعلق ہے تو اس کی بہت سی باتیں ایک خصوصی پس منظر رکھتی ہیں جن کو نہ جاننے والا شخص شش و پنج کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ جو ماہرین ہیں ان کے لیے وہ چیز اگر سیاق وسباق کے بغیر بھی سامنے آئے تو وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو یہ کتاب علامہ اقبال کی سوانح حیات ہے مگر اس کے ساتھ یہ کتاب اپنے اندر برصغیر کی تاریخ کی ایک دہائی لیے ہوئے ہے جس میں متعدد واقعات جو لاہور میں ہوئے یا جن کا اقبال کی زندگی سے بلاواسطہ یا بلواسطہ تعلق بنتا ہے وہ مذکور ہیں۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ اقبال نے ان گیارہ سالوں میں متحرک زندگی گزاری جہاں وہ ایک طرف سے مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے تو دوسری طرف کانگریسی قیادت سے بھی ان کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے ملی مسائل میں بھی ان کا کردار ہمیں نظر آتا ہے تو ان کی بطور شاعر مقبولیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور ان کے مجموعہ کلام کی پذیرائی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ اخبارات میں بھی ان کے خلاف اور حق میں مضامین کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ اقبال اس زمانے میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تو اسمبلی میں ان کی کی گئی گفتگو اور بطور ممبر ادا کی گئی ذمہ داریوں کے احوال بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد علامہ نے یورپ کے اسفار بھی اس عرصے میں کیے، ان کے تشکیل جدید پر دئیے گئے خطبات کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اس کے ساتھ خطبہ آلہ آباد کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اس پر کیا ردعمل آیا اور اس کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اس کے متعلق بھی تفصیلات کتاب میں موجود ہیں۔

خرم صاحب ایک زمانی ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں اس لیے ہمیں واقعات میں بے ربطگی تو محسوس ہوتی ہے لیکن قاری کو ایسے لگتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی حقیقی زندگی کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں ہر نئے دن کے بیتے لمحات کا پچھلے دن کے ساتھ کبھی تسلسل ہوتا ہے اور کبھی ایک ہی چیز میں دنوں کے فاصلے کے بعد صورتحال واضح ہوتی ہے۔ بیان واقعہ کی اس بے ربطگی کی وجہ سے کئی جگہ ہمیں تکرار بھی نظر آتا ہے۔

جیسا کہ پہلے میں نے پہلے ذکر کیا کہ یہ کتاب اقبال کی سوانح کے ساتھ اس زمانے کی ایک تاریخ بھی ہے۔ اس لیے کئی واقعات کے بارے میں جہاں ہمیں معلومات ملتی ہیں تو اقبال کی زندگی اور ان کے ملنے جلنے سے اس وقت کے سماجی حالات کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ کتاب میں ذکر ہر واقعے کا تذکرہ تو ناممکن ہیں ان میں سے چند پر ہی بات کروں گا۔

سب سے پہلے اقبال کی بطور ممبر لیجسلیٹو کونسل کا ذکر ہے۔ علامہ اس وقت اسمبلی میں منتخب ہو کر آئے تھے۔ علامہ تیسرے عام انتخابات کے بعد رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت کونسل میں چار گروہ تھے۔ ہندوؤں کا گروہ جو اپنے آپ نیشنل ریفارم پارٹی کہتا تھا۔ دوسرا گروہ سکھوں کا تھا جو متحد ہو کر کونسل پر چھائے ہوئے تھے۔ تیسرا یونینسٹ پارٹی کا تھا جس میں مسلم اور غیر مسلم شامل تھے ۔ اس کے بانی سر فضل حسین تھے۔ چوتھا گروہ خلافت کمیٹی ، کانگریس اور اکالی سکھوں کے نمائندوں پر مشتمل تھا یہ نیشنلسٹ پارٹی کہلانا تھا۔ علامہ اقبال ان میں سے کسی گروہ میں شامل نہ ہوئے۔ بطور رکن کونسل علامہ کا کردار متحرک نظر آتا ہے وہ لیجسلیٹیو کونسل میں کئی اصلاحات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بیروزگار تعلیم یافتہ اشخاص کو قطعات اراضی دی جائیں تاکہ وہ زراعت کر سکیں۔ اس کے ساتھ حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب کا سالانہ ٹیکس معاف کیا جائے ۔ ایسے ہی اقبال چھوٹے کاشتکاروں کے لیے سہولیات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ چھوٹے کاشتکاروں سے بڑے زمینداروں کے برابر ٹیکس نہ لیا جائے۔ اقبال نے خواتین کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی آواز اٹھائی۔

اس دور میں ایک اہم چیز نظر آتی ہے وہ ہندو مسلم کشیدگی ہے۔ اقبال حالات کو معمول پر لانے کے لیے مسلمانوں کے نمائندہ بن کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

اس میں ایک دلچسپ بات یہ کہ اس حوالے سے جب مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے تو جماعت احمدیہ کے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ اجلاسوں کے علاوہ اگر مسلمان کہیں جلسہ بھی کرتے ہیں تو جماعت احمدیہ کے لوگ ناصرف اس میں شرکت کرتے ہیں بلکہ ان کے ذمہ داران تقاریر بھی کرتے ہیں۔ایک جلسہ جس میں مرزا بشیر الدین محمود نے مذہب اور سائنس پر تقریر کی اس کی صدارت علامہ کر رہے تھے ۔بلکہ آگے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر جب مسلمانوں کی کمیٹی بنتی ہے تو امیر جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود اس کے سربراہ بنتے ہیں اور تمام مسلمان بشمول علامہ اقبال اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ بعد میں جب مرزا بشیر الدین محمود یہ صدارت چھوڑتے ہیں تو بطور صدر ان کی کاوشوں کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے درمیان گھلی ملی ہوئی ہے۔ ماسوائے کچھ علما  کے زیادہ تر سیاسی قیادت کو ان کے ساتھ لیکر چلنے میں مسئلہ نہیں تھا۔بلکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ برطانیہ میں ایک جگہ احمدی عبادت گاہ تعمیر ہوتی ہے تو اقبال وہاں بھی جاتے ہیں ۔ایسا نہیں کہ علامہ اقبال جماعت احمدیہ کو اہل اسلام کا حصہ سمجھتے تھے لیکن ہمیں نظر آتا ہے کہ مصلحت کے پیشِ نظر ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ بلکہ جب لاہور میں  ہندو مسلم کشیدگی ہوئی تو احمدی اخبارات نے ہندوؤں کے خلاف بہت جارحانہ زبان استعمال کی جس پر بعد میں ان کو مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا تو ایک مقدمے میں علامہ ان کے وکیل بھی بنے۔ لیکن بتدریج علامہ اقبال کی رائے ان کے بارے میں بدلتی گئی اور بعد میں ملی تحریکوں میں بھی ان کی شمولیت کے حق میں نہیں تھے۔ جماعت احمدیہ جو کہ ختم نبوت جیسے بنیادی اسلامی عقیدے میں تمام امت مسلمہ سے الگ ہے کے بارے میں جواہر لعل نہرو کی علامہ اقبال سے مراسلت بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ جس میں علامہ نے نہرو کے خدشات کا جواب دیا اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کا رویہ جماعت احمدیہ کے حوالے سے کیا مختلف ہے۔ بعد میں نہرو نے بھی وضاحت کی ان کے سوالات مسئلہ کو سمجھنے کے لیے تھے ناکہ احمدیوں کی حمایت کے لیے کیونکہ وہ کسی ایسے مذہبی گروہ جو کہ برطانوی استعمار کا دست راست ہے کے حامی نہیں۔دراصل نہرو سمجھنا چاہتے تھے کہ قادیانیت کے حوالے سے مسلمانوں کا رویہ غیر معمولی کیوں ہے۔ ان کے اندر پہلے سے فرقہ واریت پائی جاتی ہے تو یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔علامہ کے نکتہ نظر میں بڑی تبدیلی کشمیر کمیٹی کے بارے میں احمدیوں کے طرزِ عمل کو دیکھ کر ہوئی جس میں ان کی فعالیت مسئلہ کشمیر کی بجائے اپنے امیر کی خوشنودی کی وجہ سے تھی۔ یہاں علامہ کو احساس ہوا کہ یہ لوگ مسلم مسائل کے حوالے سے قابل اعتبار نہیں ہیں ان کی وفاداریاں صرف اپنے امیر سے ہیں اور ان کا مسلمانوں کے بارے میں طرزِ عمل بھی کافی مشکوک ہے۔ یہاں سے علامہ نے ان کے بارے میں غور وفکر کیا اور اس بارے میں انہوں نے کئی لوگوں سے براہ راست اور خطوط کے ذریعے بات بھی کی جس سے انہیں اس مسئلہ کی حساسیت کا اندازہ ہوا اور پتہ چلا کہ یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور مسلمانوں میں شامل رہ کر ان میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ اقبال کے آخری پانچ چھے سالوں میں احمدیت کے خلاف کافی مواد کتاب کا حصہ ہے جس میں اس فتنہ کے تدراک کے لیے اقبال کی خدمات کا ایک تعارف سامنے آتا ہے۔

ہندو مسلم کشیدگی کے بارے میں متعدد واقعات کا ذکر ہے جس میں صورتحال کئی دفعہ فسادات کی شکل اختیار کر گئی جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا جانی نقصان ہوا۔ ان میں کانپور میں ہوئے فسادات کافی بھیانک تھے۔ کئی فسادات پر جب غور کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کانگریسی قیادت کا کردار بھی نظر آتا ہے۔۔مثلاً گاندھی جی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، اس حوالے سے مسلمانوں سے مشاورت نہیں کی گئی تو اکثر مسلمان جو کہ کانگریسی قیادت کے ہم نوا نہیں تھے اس تحریک سے لاتعلق رہے تو اس پر ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے ہوئے اور ان کی زبردستی دکانیں بند کروائی گئیں۔ جس کا ردعمل سامنے آیا تو فسادات رونما ہوئے۔ اس کے ساتھ آریہ سماج کے لوگوں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے اوپر لفظی حملے ہوتے رہے۔ پنجاب میں ایک جگہ گائے کے ذبح کرنے پر فسادات پھوٹ پڑے۔ ہمیں متعدد واقعات کا پتہ چلتا ہے جو اس گیارہ سال کے عرصے میں رونما ہوئے۔ ہندو مسلم کشیدگی کو اس کتاب میں اور علامہ کی زندگی میں ایک اور پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مسلم شناخت کا تحفظ ہے۔ اس مسلم شناخت کے لیے سیاسی سطح پر مسلم قیادت اور کانگریس کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں۔ جداگانہ انتخابات کا مطالبہ اور پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت حکومت کا قیام اہم مسائل ہیں جن پر لمبے عرصے تک بحث چلتی رہی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بلکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم اکثریت کو نہ تسلیم کرنے پر ہندوؤں کے ساتھ سکھ بھی متفق ہوتے ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں مسلمانوں کی نشستوں کے بارے میں بھی اختلافات ہوتے ہیں اور اس سے بڑھ کر مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر کانگریس کسی صورت بھی مسلم لیگ کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب مسائل ہیں جو چلتے رہتے ہیں اور پھر ان ہی کی بنیاد پر آگے تقسیم ہند کی طرف بات بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یوں ہمیں اس کتاب سے پاکستان کے جواز کی ایک تاریخی سند ملتی ہے کہ مسلم قیادت کو اس جانب کیوں جانا پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply