ادب کی رومانی تحریک

رومانی تحریک کے سلسلے میں ایف اے لوگاس اپنی کتاب Decline and fall of the Roman Empire میں لکھتا ہے کہ :
’’رومانیت کی گیارہ ہزار تین سو چھیانوے تعریفیں ہیں ، کسی نے اس کو تحیر کی نشاۃ الثانیہ کہا ہے اور کسی کی نظر میں یہ تخلیقی شعور کا غیر معمولی ارتقاء ہے‘‘ ۔
(A History of English Literature by Legouis page no. 997)
رومانیت کا نقطہ آغاز فرانس کا انقلاب ہے (1789)۔۔ روسو کا وہ مشہور زمانہ فقرہ کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر جگہ پابہ زنجیر ہے‘‘ ۔ روسو تقلید اور تخلیق کے خلاف ہے وہ آزادی کا تصور بغاوت کے ساتھ وابستہ کرتاہے ۔کلاسیکی اور رومانوی سوچ کے مابین جو حد فاصل ہے اس کے بارے میں گریرسن نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے “’ تاریخ میں ان کی مثال قلب انسانی کے گھٹنے اور بڑھنے کی حرکت سے دی جا سکتی ہے۔ کلاسیکی ادب کی تحریک نظم و ضبط، مختلف اشیا کے امتزاج فکر جذبات اور عمل کو ایک ترتیب کی طرف لے جاتی ہے لیکن رومانوی تحریک کا دائرہ وسیع ہے اور یہ تحریک اہل قلم کو کلاسیکی ادب کے مقررہ اصول کے خلاف آزاد روی اور شدت کی طرف لے جاتی ہے۔(پاشا رحمان :تخلیقی ادب، عصری مطبوعات، کراچی، جلد اول، 1980 ، صفحہ 161).عام طور پر انگریزی میں ورڈزورتھ ، شیلی ، کالراج ، کیٹس اور بائرن ، رومانی شاعری کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں حالانکہ ان میں کہیں بھی نقطہ اشتراک نہیں ہے ۔ ان سب میں مشترک یہی ہے کہ یہ سب روایات ، قوانین اور ضوابط کی زنجیروں کے توڑنا چاہتے تھے ۔ دراصل رومانی تحریک اپنے عہد کی ادبی روایت کے خلاف بغاوت تھی ۔روسو کی طرف سے رومانی تحریک کے لیے اٹھائی جانے والی آواز پر بہت سے شاعراور مصنفین نے لبیک کہا اور گوئٹے ، شیلے ، ولیم بلیک ، ولیم ورڈزورتھ اور جان کیٹس کی رومانی تحریروں سے مغرب میں رومانی تحریک کو فروغ حاصل ہوا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں جب انگریزی زبان و ادب کو ہندوستان میں تدریس کا مستقل جزو بنا دیا گیا تو ہندوستانی نوجوانوں کو مغرب کے رومانی شعرا کے براہ راست مطالعہ کا موقع ملا۔ یوں مغرب میں فروغ پانے والی رومانی تحریک نے ہندوستان کے باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کیا جس کا اثر ہر صنف ادب پر بہت گہرا اور تیز رفتاری سے ہوا۔اردو ادب میں رومانویت کا عرصہ 1900 سے 1935 تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اگرچہ اس تحریک کا عرصہ بہت کم ہے اس کے باوجود اس نے تخلیق ادب، اجتماعی شعور و ادراک اور اسالیب شعر پر جو اثرات مرتب کیے وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔رومانیت کے علم برداروں نے ہر قسم کے جبر اور نا روا پا بندیوں کے خلاف کھل کر لکھا۔ رومانویت نے عالمی ادبیات پر دوررس اثرات مرتب کیے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ صدی کی روشن خیالی، خشک اور بیزار کن سائنسی انداز فکر، یکسانیت کی شکار اکتا دینے والی مقصدیت اور ہوس کے خلاف رومانویت نے صدائے احتجاج بلند کی۔ سائنسی انداز فکر نے لطیف جذبات، قلبی احساسات اور بے لوث محبت کو بالعموم نظر انداز کر دیا تھا۔ رومانویت نے انہی دل کش اور حسین جذبوں کے احیا پر پوری توجہ مر کوز کر دی۔ ان کا اصرار تھا کہ لوک ادب، لوک داستانوں اور ما بعد الطبیعاتی عناصر در اصل ادب کی جمالیات کی تفہیم میں چراغ راہ ثابت ہوتے ہیں۔
رومانیت کا لفظ رومان سے نکلا ہے اور لفظ رومانس رومن زبان سے مشتق ہے۔ اس لفظ کا استعمال متعلقہ زبانوں میں سے کسی ایک زبان کی کہانیوں ، خیالی افسانہ ، ناول یا نظم کے لیے ہوتا ہے جن میں خیالی اور تصوراتی زندگی کو بنیاد بنایا گیا ہو اور ایسی تحریروں کو بھی رومانس کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے جن میں مبالغہ آرائی، عشق و محبت کا معاملہ اور تخیل پرستی کی رنگ آمیزی ہو۔ عربی زبان میں رومان سے مراد کوئی مقبول عام قدیم رزمیہ داستان ہے ، کوئی محیر العقول جذباتی افسانہ یا ناول جس میں معاشرے کی محض خیالی اور حیرت ناک تصویر پیش کی گئی ہو رومان کے دائرے میں آتا ہے۔فارسی زبان میں رومان کے معنی ناول، افسانہ یا قصہ کے ہیں ۔دراصل”رومان” جو کبھی محض ایک لفظ تھا رفتہ رفتہ ایک ادبی اصطلاح بن گیا اور اس سے وابستہ تصورات و افکار نے اس وقت کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اٹھارویں صدی کے اختتام پر پہنچتے پہنچتے رومانیت ایک ادبی تحریک میں تبدیل ہو گئی جسے ادب میں رومانی تحریک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے رومانیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے”رومانیت کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو، رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کوسیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو، آزادی سے بہنے دیا جائے “(عبداللہ ڈاکٹر سید :مباحث، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع اول1965، صفحہ 392)۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں”رومانوی ذہن اپنی مثالی دنیا کے تصور میں سرشار گرد و پیش کی ٹھوس حقیقتوں سے قطع نظر کرنا چاہتا ہے”(سجاد باقر رضوی ڈاکٹر :مغرب کے تنقیدی اصول، کتابیات، لاہور، طبع اول 1966، صفحہ318)۔رومانیت کا تصور اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے ۔ ہمارے نثری ادب میں رومانیت کی توانا روایت کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہی ہے۔ قدیم داستانوں میں رومانی انداز موجود تھا نیز قدیم ناولوں میں بھی رومانیت کا عنصر موجود رہا ہے۔ اردو ادب میں رومانیت ایک ایسے طرز احساس کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس میں محبت، آزادی اور انسان دوستی کے خیالات و تصورات کو پروان چڑھایا گیا ۔رومانی ادیب فطرت پرستی ، ماضی سے وابستگی ، وطن پرستی ، انقلاب کی خواہش ، قدیم تاریخ سے دلچسپی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتا ہے۔رومانیت کے علم بردار حسن ، فراغت ، غموں سے دوری کے متلاشی تھے اور اپنی تحریروں میں بھی ایسے ہی نظریات کی ترجمانی کرتے تھے۔اردو میں رومانی تحریک کا پہلا دور”مخزن” سے شروع ہوا جس میں آسکر وائلڈ سے متاثر ہونے والے جذباتی رویوں کو ادب میں اظہار کا موقع ملا۔ سجاد حیدر یلدرم اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے رومانی تحریک نے ایک خاص شکل اختیار کی۔ جس میں انگلستان کی رومانی تحریک کے اثرات نمایاں محسوس ہوتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو میں رومانیت کی اصطلاح انگریزی سے آئی ۔
اردو کی رومانی شاعری میں یہی اصول کار فرما دکھائی دیتا ہے کہ خواہ ہجر ہو یا وصال ہر صورت میں مسرت و انبساط کی توقع رکھنی چاہیے۔ اردو کے رومانی شعر ا نے حسن فطرت پر بھی کھل کر لکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے بالعموم آبادیوں سے بڑھ کر ویرانے پسند ہیں۔ پہاڑوں ، صحراؤں ، ریگستانوں ، جنگلوں بیابانوں ، کھنڈرات، شہر خموشاں ، سمندروں ، دریاؤں ، وادیوں ، مرغزاروں ، چشموں اور آبشاروں کے مناظر دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔ اس کی قدرت کاملہ کے یہ حسین و دلکش مناظر دیکھ کر حسن و رومان کی بالادستی کا یقین ہو جاتا ہے۔ رومانی شعرا کے اسلوب میں جو گہرا نفسیاتی شعور مو جود ہے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ان شعرا نے حسن و رومان کے بیان سے معاشرے میں پائی جانے والی بیزاری اور جمود کا خاتمہ کیا اور صبر و استقامت ، حوصلے اور امید کی راہ دکھائی۔ آخر کچھ ذکر اختر شیرانی کا کہ جن کو اردو شاعری میں رومانی تحریک کے سرخیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ محمد داؤد خان اختر شیرانی رومانی تحریک کے اہم ترین شعرا میں شامل ہیں۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے اور انھیں اردو کے شاعر رومان کی حیثیت سے بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان کی مشہور رومانی نظمیں ’’اے عشق کہیں لے چل ‘‘ ، ’’آج کی رات ‘‘’’او دیس سے آنے والے بتا ‘‘ ، ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر ‘‘ان کے کمال فن کی دلیل ہیں۔ اختر شیرانی کی شاعری میں بیزار کن ماحول سے نجات کی تمنا، اخوت، امن و آشتی اور سکون قلب کی آرزو اور حسن فطرت کی جستجو کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اختر شیرانی نے اپنے اشہب قلم کی جولانیاں اس انداز سے دکھائی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ایک الگ دنیا آباد کرنے کے آرزومند تو ہیں لیکن اس کے لیے وہ سخت کوشی کے بجائے محض تخیل کی شادابی پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ نظام کہنہ کو سخت نا پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ مسموم ماحول سے گلو خلاصی کی کوئی صورت پیدا ہو۔ ان کے اسلوب میں حالات کی تبدیلی کی تمنا تو موجود ہے مگر آلام روزگار کے مہیب طوفان میں وہ اپنی خیالی دنیا کی جستجو کرتے کرتے سرابوں میں بھٹک جاتے ہیں۔ ان کی زندگی بہاروں کی جستجو میں کٹ گئی اس کے بعد وہ یہ تمنا کرتے ہیں کہ ممکن ہے انھیں اس زندگی کے بعد سکون نصیب ہو جائے۔رومانی تحریک نے جہاں اردو ادب کی تمام اصناف کو متاثر کیا وہاں اردو افسانے پر بھی اپنے دیرپا اثرات مرتب کیے۔سجاد حیدر یلدرم اردو افسانہ میں رومانیت کے علمبردار ہیں ۔یلدرم سے متاثر ہونے والے دیگر معروف افسانہ نگاروں میں نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری، حجاب امتیاز علی ، سلطان حیدر جوش ، قاضی عبدالغفار وغیرہ بہت نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply